ترکیہ کے بولو کارتالکیا میں ہوٹل کی تباہی، جہاں 76 افراد جن میں بیشتر بچے تھے، اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، سردی کی چھٹیوں کی وجہ سے ہوٹل بھرا ہوا تھا اور اس میں 238 مہمان تھے، جن میں سے زیادہ ر بچے تھے۔ آگ ہوٹل کے کچن سیکشن میں آدھی رات کو لگی جو لکڑی کی وجہ سے تیزی سے پھیل گئی۔ ترکیہ میں ہوٹل میں آتشزدگی کا یہ سب سے بڑا حادثہ کہلایا جارہا ہے۔
تحقیقات ہورہی ہیں کہ آگ کیسے لگی اور اتنی زیادہ ہلاکتیں کیوں ہوئیں؟ کیا ہوٹل میں فائر الارم سسٹم اور فائر ایسکیپز تھے؟ فائر الارم کیوں نہیں بجا، فائر اسپرنکرز کیوں گشت پر نہیں گئے؟
بولو کارتالکیا ایسکی ریزورٹ میں واقع گرینڈ کارٹل ہوٹل جہاں آتشزدگی کا سانحہ پیش آیا۔ 161 کمروں اور 350 بستروں پر مشتمل یہ ہوٹل خطے کی قدیم ترین سہولیات میں سے ایک ہے۔
آگ کیسے لگی؟ اندازہ لگایا گیا ہے کہ ہوٹل میں آگ 21 جنوری کی آدھی رات 03:00 بجے کے قریب لگی۔ 03.45 کے قریب آگ نے پورے ہوٹل کو متاثر کیا۔ ہوٹل بولو سے 45 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور اسفالٹ پہاڑی سڑک کے ذریعے پہنچا جا سکتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ فائر بریگیڈ 45 منٹ میں ہوٹل پہنچ گئی۔ ریسکیو ٹیمیں سامنے سے ہوٹل میں داخل ہوئیں۔ ہوٹل کی ایک طرف 8 منزلیں اور دوسری طرف 13 منزلیں ہیں۔ یہ ایک پہاڑی پر واقع ہے 13 منزلہ حصہ شدید شعلوں سے ڈھکا ہوا تھا اور آگ چھت تک پھیل گئی تھی۔ آگ بنیادی طور پر 13ویں منزل کے اگلے حصے میں لگی تھی۔۔
ہوٹل میں ایندھن کے تیل کے ٹینک تھے۔
ہوٹل میں ہیٹنگ، فیول آئل سسٹم کے ذریعے فراہم کی گئی تھی۔ ہوٹل کے قریب ایندھن کے تیل کے ٹینکوں کو بھی محفوظ بنایا گیا تھا اور انہیں پھٹنے سے روکنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کی گئی تھیں۔ ابتدائی معلومات کے مطابق آگ ریستوران کے علاقے میں لگی۔ ایک عینی شاہد نے بتایا کہ وہ کچن میں کام کر رہا تھا اور اس کے ساتھ کام کرنے والے ایک ساتھی نے صبح 3 بجے کے قریب آگ لگنے کی اطلاع دی۔ ہوٹل کے مرکزی دروازے کی پہلی منزل اور ہوٹل کے عقبی دروازے کی تیسری منزل پر واقع ریسٹورنٹ کے سیکشن میں لگنے والی آگ کچھ ہی عرصے میں مزید بڑھ گئی۔
یہ یقینی نہیں ہے کہ آگ کچن میں لگی یا اس کے فرش سے۔ ایک اندازے کے مطابق یہ ریستوران کے فلور یعنی چوتھی منزل سے شروع ہوئی اور اوپری منزلوں تک پھیل گئی۔ آگ کے شعلے، جس نے 13 منزلوں کو ڈھانپ لیا، وہاں سے نکلنے والے دھوئیں اور گرمی کی وجہ سے ہوٹل کے اندرونی حصے پر شدید اثرات مرتب ہوئے۔
عینی شاہدین نے بتایا کہ اگرچہ وہ داخلی دروازے کی طرف جو کہ 4 منزلہ حصے میں تھا، جانا چاہتے تھے لیکن گھنے دھوئیں کی وجہ سے سیڑھیاں استعمال نہیں کی جا سکیں۔
آگ کی تفتیش کیسے کی جائے گی ؟
ترکی کے وزیر داخلہ یرلی کایا نے آتشزدگی کے بعد علاقے کا دورہ کیا اور کارتالکیا کا معائنہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ ہم انتظامی تحقیقات کر رہے ہیں، لائسنس کے عمل سے لے کر آگ لگنے کے عمل تک، سب کی چھان بین کی جائے گی اور جیسا کہ صدر طیب ایردوآن نے کہا کہ قصورواروں سے یقینی طور پر قانون کے مطابق نمٹا جائے گا۔”
اس بیان کے بعد ہوٹل کے مالک سمیت 9 افراد کو حراست میں لے لیا گیا۔
آگ اتنی تیزی سے کیوں بڑھی؟
معلوم ہوا کہ ہوٹل زیادہ تر لکڑی کا بنا ہوا تھا اور بہت سا آرائشی سامان، چھت اور اطراف کی دیواریں بھی لکڑی سے ڈھکی ہوئی تھیں۔ ہوٹل کی راہداریوں میں بچھے ہوئے قالین اور چھت پر لکڑی کے کور نمایاں تھے۔ ہوٹل کا بیرونی حصہ بھی لکڑی سے ڈھکا ہوا تھا۔ شعلے اتنی تیزی سے پھیلنے کی یہی وجہ ہو سکتی ہے۔ ایک جامع جانچ کے ذریعے آگ پر اس طرح کے مواد کے اثر کی تحقیقات کی جارہی ہیں، جانچ سے یہ بھی پتہ چل سکے گا کہ آیا باورچی خانے اور دیگر علاقوں میں آگ بجھانے کا نظام موجود تھا یا نہیں۔ کچھ عینی شاہدین نے یہ بھی بتایا کہ جب تک وہ اپنے کمروں سے باہر نہیں نکلے تب تک انہوں نے کوئی فائر الارم یا وارننگ نہیں سنی، وہ لوگوں کے چیخنے کی آواز پر کوریڈور میں باہر آئے، اور یہ کہ کوریڈور مکمل طور پر دھوئیں سے ڈھکا ہوا تھا۔
ہوٹل کے استقبالیہ سے باہر نکلنے کا راستہ 5ویں منزل پر تھا۔ چونکہ فرشوں کے درمیان سے نیچے جانا پڑتا تھا، اس لیے اس ایگزٹ فلور تک فوری طور پر نہیں پہنچا جا سکتا تھا۔ کچھ لوگوں نے 6 ویں منزل سے چادریں لٹکا کر پورچ میں چھلانگ لگا کر اپنی اور اپنی فیملی کی جان بچائی۔ تمام عینی شاہدین نے بتایا کہ آگ سے فرار آسان نہیں تھا۔ ان کے مطابق سیڑھیوں کی نشاندہی کرنے والے کوئی نشان یا پینل نہیں تھے۔ بالائی منزل کے کمروں میں ٹھہرے ہوئے لوگوں کو باہر نکلنے کا راستہ نہ ملا اور انہیں احساس ہوا کہ ان کے باہر نکلنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
کیا ہوٹل میں آگ سے بچنے کا کوئی امکان نہیں تھا؟
عینی شاہدین کے بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ آگ سے جلنے والے اس کے بالکل درمیان میں تھے۔ گواہوں کے بیانات بتاتے ہیں کہ آگ کا الارم نہیں بجا، آگ بجھانے کا نظام کام نہیں کررہا تھا، اور ہوٹل کے مہمانوں کو کمرے کے دروازے کھٹکھٹا کر آگ کی اطلاع دی گئی تھی۔
بولو میں لگنے والی تباہ کن آگ کے تناظر میں ترکیہ میں تعینات پاکستان کے سفیر ڈاکٹر یوسف جنید نے ترک قوم کے ساتھ تعزیت اور اظہار یکجہتی کے لیے بولو کا دورہ کیا۔
وزیر اعظم شہباز شریف اور پاکستانی قوم کی جانب سے سفیر ڈاکٹر یوسف جنید نے افسوسناک واقعے میں قیمتی جانوں کے ضیاع کے لیے دلی تعزیت اور فاتحہ خوانی کی۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ پاکستان اور ترکیہ ہر حال میں ایک دوسرے کا ساتھ دینے کی شاندار تاریخ رکھتے ہیں۔ ہمارے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں اور ہم خوشی اور درد بانٹتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس المناک واقعے پر پوری پاکستانی قوم شدید غمزدہ ہے۔
اے ایف اے ڈی کوآرڈینیشن سنٹر کے دورے کے دوران سفیر جنید کو اے ایف اے ڈی کے صدر، گورنر اےکے میمش نے واقعے اور صورتحال پر قابو پانے کے لیے کیے گئے اقدامات سے آگاہ کیا۔ گورنر اے کے میمش نے سفیر کا اظہار یکجہتی کے لیے دورہ کرنے اور پاکستانی قوم کا دکھ کی اس گھڑی میں ترکیہ کے ساتھ کھڑے ہونے پر شکریہ بھی ادا کیا۔