ان دنوں جاپان کے سیاسی منظرنامے میں ایک نئے رجحان کے حوالے سے دنیا بھر میں تواتر سےبات کی جارہی ہے، جس کا تعلق جاپان میں رہائش پذیر غیر ملکی باشندوں کے خلاف نفرت انگیز بیانات سے ہے۔ جاپان جہاں ان دنوں انتخابی کیمپین چلائی جارہی ہے ، بعض سیاسی رہنماؤں نے تعصب اور قوم پرستانہ جذبات کو اپنی انتخابی مہم کا حصہ بنا یا ہے۔ معمول سے ہٹ کر نظر آنے والے اس رجحان کونہ صرف سماجی ہم آہنگی کے لیے خطرہ تصور کیا جارہا ہے بلکہ اسے جاپان کی بین الاقوامی ساکھ اور اقتصادی مستقبل کے لیئے بھی خطرناک سمجھا جارہا ہے۔ جاپان جیسا ملک جس کی مہمان نوازی اور اخلاقی برتری کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پر ساکھ قائم ہے اس صورتحال بدلتے ہوئے رجحانات کی عکاسی کرتا نظر آرہا ہے ۔ یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں کہ اسے محض ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی کا ردعمل یا چین اور کوریا سے مخاصمت سے جوڑ کر کوئی نتیجہ اخذ کرلیا جائے۔ اسے سمجھنے کے لیے ہمیں جاپان کی تاریخ، ثقافت، امیگریشن پالیسی، اور موجودہ سیاسی ماحول کو بھی بغور دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔
تاریخی اعتبار سے سنہ1639 سے 1853 تک جاپان نے “ساکوک” یعنی تنہائی کی پالیسی اپنائی تھی جس نے جاپان کو بیرونی دنیا سے مکمل طور پر علیحدہ کر دیا تھا۔ اس تنہائی کے پیچھے عیسائی مبلغین کی اس مذہبی تحریک کا بھی ہاتھ تھا جس نے جاپان میں ایک نئے مذہب کو متعارف کروایا اور مقامی لوگوں کو حکومت کے خلاف قلعہ بند بغاوت پر آمادہ کیا۔ یہ توکوگاوا عہد تھا جس میں حکمران عوام کو مذہبی آزادی دینے پر آمادہ نہ تھے اور نتیجتا ان 500 کے لگ بھگ جاپانی عورتوں بچوں اور مردوں کو خود جاپانیوں نے لقمہ اجل بنادیا۔ جس کے بعد جاپان نے باہر سے آنے والے غیر ملکیوں کو اپنی سالمیت کے لیئے ایک بڑا خطرہ سمجھتے ہوئے بیرونی دنیا سے رابطہ منقطع کردیا۔
آئسولیشن کی اس پالیسی نے جاپانی معاشرے میں ایک مضبوط قومی شناخت کو فروغ دیا، جو آج بھی بعض اوقات غیر ملکیوں کے لیے عدم برداشت کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔
چونکہ جاپان صدیوں تک ایک ثقافتی طور پر یکساں معاشرہ رہا ہے اس لئے اب بھی یہاں غیر ملکیوں کی آمد اور ان کی معاشرتی شمولیت کی روایت محدود ہے۔ تاہم، حالیہ دہائیوں میں، آبادی میں کمی اور محنت کشوں کی قلت کے باعث جاپان کو غیر ملکیوں کو قبول کرنے پر مجبور ہونا پڑا، جس سے مشرق بعید کے اس ملک کے معاشرتی تناؤ میں اضافہ ہوتا نظر آرہا ہے
غیر ملکیوں کے خلاف موجودہ تناؤ کی ایک اور وجہ قوم پرست تحریکوں کا ابھرنا بھی ہے۔ جاپان میں سنہ 1990 کی دہائی سے مختلف قوم پرست جماعتیں اور تحریکیں سامنے آئیں، جن میں “ہوکوکو اندو” (Action Conservative Movement) اور “جاپان فرسٹ” (Nippon o Tsukamu Kai)۔ جیسے گروہ بھی شامل ہیں۔ جن کی جانب سے جاپانی ثقافت اور شناخت کے نام پر غیر ملکیوں کے خلاف نفرت انگیز بیانات کو فروغ دیا گیا ۔
اس سارے معاملے میں ہمیں جنگ عظیم دوم سے جڑے معاملات اور علاقائی سرحدی جھگڑوں سمیت جاپانی معاشرے میں کورین اور چینی مخالف جذبات کو بھی ہرگز نظر انداز نہیں کرنا چاہیئے جو بعض اوقات پرتشدد مظاہروں اور نفرت آمیز تقاریر کی صورت میں نظر آتے رہے۔
جاپان کی حالیہ انتخابی مہم میں اس بار ہمیں قومیت پر مبنی تعصب کی جھلک معمول سے زیادہ نظر آرہی ہے اور رواں ماہ جولائی 2025 میں ہونے والے ایوان بالا کے انتخابات کے دوران کئی چھوٹی قوم پرست جماعتوں نے “جاپانیوں کے حقوق کے تحفظ” کے نام پر غیر ملکیوں کے خلاف بیانیہ اپنایا ہے، ان جماعتوں کا یہ دعویٰ ہے کہ غیر ملکیوں نے جاپانی ثقافت کو نقصان پہنچایا، عوامی نظام کا غلط استعمال کیا اور جرائم میں اضافے کا باعث بنے ہیں ، حالانکہ اگر اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو پولیس کے مستند ذرائع کے مطابق غیر ملکیوں میں جرائم کی شرح 2 فیصد سے کم رہی ہے اور اس میں دنیا کے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں ۔
بہر حال لوگوں کے جذبات کو بھڑکانے کے لیئے نسلی تعصب کو دنیا میں سب سے آسان حربہ سمجھا جاتا ہے اور جاپان میں بھی یہی کچھ ہوا۔ اس نفرت کو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے زریعے پھیلایا گیا اور ان زرائع نےنفرت انگیز تقاریر کو وسیع پیمانے پر پھیلانے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ سب سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ 100 فیصد خواندگی رکھنے والی اس مہذب قوم کو قوم پرست گروپ غیر ملکیوں سے متعلق منفی معلومات دے کر ان کے خلاف تعصب کو مستقل ہوادے رہے ہیں۔
اگرچہ حکومتی سطح پر اس رجحان کی حوصلہ افزائی نہیں کی جارہی اور جاپانی وزیر انصاف اور چندحکومتی ترجمانوں نے غیر ملکیوں کے ساتھ ہم آہنگی کی اہمیت پر زور دیا ہے، لیکن ابھی تک عملی طور پر نفرت انگیزی کے خلاف کوئی مؤثر اور ہمہ گیر پالیسی اور ٹھوس قدم نظر نہیں آرہا ہے۔ جبکہ کچھ حکومتی شخصیات پر خود بھی قوم پرستانہ خیالات کو ہوا دینے کا الزام ہے جو جاپان کی ساکھ کے لیئے ایک بڑا خطرہ بن چکا ہے۔
نفرت اور تعصب کی اس فضا میں جاپان میں رہنے والے لاکھوں غیر ملکی، جن کی تعداد 2024 کے آخر میں 3.77 ملین تک پہنچ چکی ہے، خود کو غیر محفوظ، الگ تھلگ اور امتیازی سلوک کا شکار محسوس کرنے لگے ہیں، جس سے نہ صرف ان کی ذاتی زندگی متاثر ہوئی ہے بلکہ جاپان کی ورک فورس اور معیشت بھی متاثر ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ جس جاپان کو عالمی سطح پر ایک مہذب، محفوظ اور خوش آمدید کہنے والے ملک کے طور پر دیکھا جاتا رہا ہے۔ نفرت کے اس رجحان سے اس امیج کو شدید دھچکا لگ سکتا ہے، خصوصا ایک ایسے وقت میں جب جاپان کو بین الاقوامی سرمایہ کاری اور غیر ملکی محنت کی اشد ضرورت ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2024 میں جاپانی آبادی میں 898,000 افراد کی ریکارڈ کمی واقع ہوئی۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس کمی کے باوجود کچھ سیاسی جماعتیں غیر ملکیوں کی آمد کی مخالفت کر رہی ہیں، حالانکہ یہی غیر ملکی کارکنان ہیں جو جاپان کی معیشت کو سہارا دینے میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔
اس بات سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ ماضی میں جاپان سے کئی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں ۔ تنہائی اور تعصب نے جاپانی ترقی کو محدود کیا اور عالمی طور پر تنہا کردیا تھا لہذا آج حکومتی سطح پر اس معاملے پر ایک واضح اور غیر متعصبانہ پالیسی کا اعلان کرنا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ تعلیمی اداروں اور میڈیا کو بھی مل کر ایسی مہمات چلانی چاہئیں جو رواداری، شمولیت اور ثقافتی ہم آہنگی کو فروغ دیں۔
مزید برآں اس حوالے سے ایک مؤثر قانون سازی کی بھی اشد ضرورت ہے تاکہ مجرموں کو جواب دہ بنایا جا سکے اور جاپان کے اس مثبت تاثر کو بحال کیا جاسکے جو رواداری پر مبنی ہے۔
تجزیہ نگاروں کی رائے میں آج جاپان جس مقام پر ہے، وہاں اسے یہ طے کرنا ہے کہ آیا وہ ایک بند قوم پرست معاشرہ بننا چاہتا ہے یا ایک جدید، متنوع، اور ہم آہنگ معاشرہ۔ اگر جاپان کو مستقبل میں معاشی، سماجی اور بین الاقوامی میدان میں ترقی کرنی ہے تو اسے نفرت کے بجائے رواداری، تعصب کے بجائے شمولیت، اور خوف کے بجائے فہم و شعور کا راستہ اپنانا ہوگا۔
جاپان میں بھی غیر ملکیوں کی شامت
















