بی بی سی کی اسی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہاخبار نیو یارک ٹائمز کی خبر کے مطابق سات اکتوبر سے ایک سال قبل اسرائیلی حکام کو حماس کے منصوبے کا علم ہوا تھا ۔ اسرائیلی انٹیلیجنس ایجنسی کے یونٹ 8200 کے سابقہ تجزیہ کار نے حماس کے حملے سے تین ماہ قبل متنبہ کیا تھا کہ حماس نے سخت مشقیں کی ہیں ۔
آخر اسرائیلی قیادت کیوں تمام تر اطلاعات کے مطابق خاموش بیٹھی تھی ۔اس پر بات کرتے ہیں۔
بی بی سی کی رپورٹ سے یہ تو ثابت ہوگیا کہ حماس کا اسرائیل پر حملہ نہ تو اسرائیل اور اُس کے اتحادیوں کے لیے اچانک تھا اور نہ ہی حماس اور اُس کے اتحادیوں کے لیے۔ حماس اور اتحادی اس لیے باخبر تھے کہ وہ گزشتہ ایک برس سے اس کی مشقیں کررہے تھے اور جنگ کے لیے مطلوبہ ساز و سامان بھی جمع کررہے تھے ۔ اسرائیل اور اُس کے اتحادی اس لیے باخبر تھے کہ اُن کے جاسوس خبر بھی دے رہے تھے اور وہ یہ سب کچھ ہوتا ہوا اپنی آنکھوں سے بھی دیکھ رہے تھے ۔ یہ سب جاننے کے بعد کہ حملہ اچانک نہیں تھا ، کئی سوالات حماس اور اسرائیل کے حوالے سے ذہن میں جنم لیتے ہیں ۔
پہلا سوال تو یہی ہے کہ جب حماس نے یا اس کے سرپرستوں نے اسرائیل پر حملے کا منصوبہ بنایا تھا ، تو اُن کے ذہن میں کیا منصوبہ تھا ۔ کیا اُنہیں اس کا بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ اسرائیل کا ردعمل کیا ہوگا ۔ اگر اندازہ تھا تو انہوں نے اس کے لیے کیا منصوبہ بندی کی تھی ۔ اور اگر کوئی منصوبہ بندی نہیں کی تھی تو کیا اس کی وجہ یہ تھی کہ کسی طاقت نے انہیں یقین دلایا تھا کہ اسرائیل کا ردعمل محدود ہوگا اور جنگ بندی دنوں میں نہیں تو ہفتوں میں ہوجائے گی ۔ سب جانتے ہیں کہ امریکا اور یورپ کے وسائل کو اسرائیل شِیر مادر سمجھ کر استعمال کرتا ہے اور یوں اس کے پاس وسائل و رسد کی کوئی کمی نہیں ہے تو پھر اس کے جواب میں حماس کے پاس رسد کی مسلسل اور بلاتعطل فراہمی کا منصوبہ کیا تھا۔ اسرائیل کی فضائی قوت کے بارے میں حماس بھی اور اس کے موجودہ سرپرست ایران بھی بخوبی جانتے تھے تو پھر اُس کے توڑ کا تدارک کیوں نہیں کیا گیا ۔
یہ اور اِن جیسے ان گنت سوالات ہیں ، جن کے جوابات جانے بغیر ہم غزہ میں شروع کیے گئے گریٹ گیم کو نہیں سمجھ سکتے ۔ پہلے ہم حماس کے حوالے سے ذہن میں آنے والے سوالات کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں ، اس کے بعد اسرائیل کے حوالے سے ذہن میں آنے والے سوالات کا جواب ڈھونڈیں گے ۔ اِسی کے بعد ہم حالات کی واضح تصویر دیکھ پائیں گے ۔
آگے تجزیہ سے قبل ایک بار پھر سمجھ لیں کہ دنیا پر حکومت امریکا کررہا ہے اور نہ ہی روس و چین وغیرہ ۔ یہ سب بھی دیگر ممالک کی طرح شطرنج کی بساط کے مہروں کی مانند ہیں ۔ دیگر ممالک میں اور اِن میں بس وہی فرق ہے جو وزیر اور پیادے میں ہوتا ہے ۔ وزیر کو بساط کے ہر گھر میں ہر طرح سے حملہ کرنے کا اختیار ہوتا ہے اور پیادے کو بالکل بھی نہیں جبکہ دیگر مُہروں گھوڑے، ہاتھی اور اونٹ کو درمیانے درجے کے اختیارات ہوتے ہیں مگر ہوتے سارے مہرے ہی ہیں اور بساط لپٹنے کے بعد سب ایک ہی صندوقچی میں بند کر دیے جاتے ہیں ۔ بساط پر چالیں چلنے والی قوتیں بالکل ہی مختلف ہیں جن کا کہیں پر کوئی تذکرہ نہیں ہوتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ مطلوبہ نتائج کے حصول کے لیے یہ قوتیں بساط کے دونوں جانب سے خود ہی چالیں چل رہی ہوتی ہیں ۔ یہ قوتیں کون ہیں ، اس بارے میں تفصیل سے میں اپنی کتاب جنگوں کے سوداگر میں بھی بات کر چکا ہوں اور کئی آرٹیکلز میں بھی اس پر گفتگو کی جاچکی ہے جو میری ویب سائٹ پر ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں ۔
اب ہم حماس کے حوالے سے اُٹھنے والے سوالات کو دیکھتے ہیں۔ ایک بات تو یہ سمجھنے کی ہے کہ حملہ کبھی بھی اچانک نہیں ہوتا ۔ اس کے لیے طویل تیاریوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔ یہ تیاریاں ہر طرح کی ہوتی ہیں ، سامان رسد کی بھی جس میں غذا سے لے کر گاڑیوں کے فاضل پرزہ جات ، پٹرول کے ذخائر اور وردیاں تک شامل ہیں ، اسلحہ و دیگر ساز و سامان کی بھی ۔ یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ اسلحہ کتنے دنوں کا ہے اور اُس کی بلاتعطل فراہمی کا کیا ذریعہ ہوگا ۔ اور اگر جنگ طویل ہوگئی تو اسے ؛لپیٹنے کا کیا طریقہ کار ہوگا ۔
حماس کے 7 اکتوبر 2023 کو کیے جانے والے حملے کے حوالے سے ہمیں نظر آتا ہے کہ اس طرح کی کوئی منصوبہ بندی موجود نہیں تھی ۔ حماس کے جنگجوؤں کے پاس ہلکے امریکی ہتھیار تھے اور بس ۔ میدان جنگ میں موجود حملہ آور جنگجوؤں کے پاس ایک ہی منصوبہ تھا کہ اسرائیل کی غزہ کے گرد کھینچی گئی فصیل کو کس طرح توڑنا ہے اور کس طرح سے اسرائیل کے اندر گھس کر چھاپہ مار کارروائیوں کے ذریعے اہداف کو مکمل کرکے اسرائیل کے سنبھلنے سے پہلے غزہ میں واپس پہنچ جانا ہے ۔ اس منصوبہ بندی میں اسرائیلی علاقوں کو کنٹرول میں رکھنے کا کوئی آپشن نہیں تھا ۔ اگر یہی منصوبہ بندی تھی تو حماس نے کامیاب آپریشن کیا تھا ۔ مگر اسرائیل کا ردعمل کیا ہوگا ، اس بارے میں ہمیں کوئی منصوبہ بندی نظر نہیں آتی ۔
اگر حماس یا اس کے سرپرست ایران کا یہ خیال تھا کہ اسرائیل زمینی کارروائی کرے گا تو اِسے نادانی ہی کہا جا سکتا ہے ۔ اسرائیل کے سرپرست امریکا کا افغانستان میں حملوں کا جائزہ لیں تو وہ یہی ہے کہ انہوں نے پہلے اپنے اہداف پر اندھا دھند بمباری کی حتٰی کہ نیوکلیئر بمباری بھی کی اور مشتبہ علاقوں کو مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کردیا ۔ جب انہیں یقین ہوگیا کہ دشمن کا خاتمہ ہو چکا ہے اور مزاحمت کا ایک فیصد بھی امکان نہیں ہے تو پھر ان کی زمینی فوجیں علاقے کا کنٹرول سنبھالنے کے لیے افغانستان میں داخل ہوئیں ۔ اِ س کے لیے بھی امریکی فوجوں نے اپنے اتحادیوں پاکستان ، ازبکستان ، تاجکستان اور ترکی سے مدد لی ۔ بالکل یہی طریقہ کار اسرائیل نے بھی غزہ میں اختیار کیا ۔ ان فضائی حملوں کا حماس کے پاس کوئی توڑ نہیں تھا ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان حملوں کا منصوبہ بندی میں کہیں تذکرہ ہی نہیں تھا اور وہ بہ آسانی بلا کسی مزاحمت کے اسرائیلی ڈرونز کا آسان شکار بنتے رہے ۔
خود حماس کے پاس اسرائیل پر فضائی حملوں کا کوئی آپشن نہیں تھا ۔ ان کے پاس جو میزائیل تھے ، انہیں بچو ں کا پٹاخہ تو کہا جاسکتا ہے مگر ایسا میزائیل نہیں جس سے اسرائیل کوکوئی تشویش ہوتی ۔ یوں اسرائیل ایک ننھا سا ملک ہونے کے باوجود ہر طرح سے مامون رہا ۔
بمباری کے ساتھ ساتھ اسرائیل نے غزہ کی مکمل ناکہ بندی کردی اور پینےکے پانی سے لے کر کھانے کی ہر چیز کے غزہ میں داخلے پر نہ صرف پابندی عاید کردی بلکہ اس پر عمل بھی کیا ۔ اگر اقوام متحدہ کےکسی امدادی قافلے کو غزہ میں داخلے کی اجازت دی بھی تو اسرائیلی حکومت کی سرپرستی میں یہودیوں نے اسے راستے میں ہی لوٹ لیا ۔ اس طرح سے جدید دور میں بھی فلسطینی بھوک اور پیاس کا شکار ہو کر موت کے منہ میں جارہے ہیں ۔ حماس کے پاس ضروری ادویات کا بھی کوئی ذخیرہ موجود نہیں تھا اور نہ ہی اسرائیل کو عملی طور پر یہ بتانے کا کہ اگر ان کے اسپتال محفوظ نہیں رہیں گے تو اسرائیل کے بھی اسپتال محفوظ نہیں ہوں گے۔ وہ تو اسرائیل کے ائرپورٹ تک بند نہیں کرسکے ۔
کیا یہ سب نادانی تھی ۔ نہیں ہم اسے نادانی نہیں کہہ سکتے کہ آج کے دور میں وڈیو گیم کھیلنے والے بچے بھی کھیل میں یہ ساری منصوبہ بندی کرلیتے ہیں ۔ تو پھر یہ سب کیا تھا ؟
ایک بات تو یہ سمجھنے کی ہے کہ کسی بھی ملک سے کوئی گروہ اس وقت تک نہیں لڑ سکتا جب تک اسے کسی دوسرے ملک کی حمایت حاصل نہ ہو اور کوئی دوسرا ملک اُس وقت تک کسی گروہ کی حمایت نہیں کرتا ، جب تک اس کا اپنا مفاد نہ ہو ۔ یہ صورتحال ہم ویتنام ، بنگلا دیش سے لے کر افغانستان تک دیکھ سکتے ہیں ۔ حماس کو بھی اسرائیل پر حملے کے لیے کسی ملک کی مالی و دیگر حمایت کی ضرورت تھی ۔ پہلےسعودی عرب حماس کا سرپرست تھا ، اس کے بعد حماس کا سرپرستی قطر کے پاس آئی ، بعد ازاں اس نے حماس کی سرپرستی سے ہاتھ کھینچ لیا ، جس کے بعد حماس ایران کی سرپرستی میں چلی گئی ۔ اس پورے عمل کو ہم change of hands بھی کہہ سکتے ہیں ۔ یوں حماس کے جو بھی معاملات تھے ، اُس میں ایران کی ہدایات شامل تھیں ۔ ہم طوفان الاقصیٰ کو ایران کا brainchild بھی کہہ سکتے ہیں ۔ 7 اکتوبر 2023 سے لے کر اب تک کے حالات و واقعات کا تجزیہ کریں ۔ غزہ میں فلسطینیوں کی مکمل نسل کُشی ، پورے غزہ کو ملبہ کے ڈھیر میں تبدیل کردیا گیا ، شمالی غزہ پر اسرائیل کا باقاعدہ قبضہ ، جنوبی غزہ پر بھی اسرائیلی عملداری ، مغربی کنارے پر بھی اسرائیلی آبادگاروں کا مزید جارحانہ رویہ ، مغربی کنارے میں آباد فلسطینیوں کو ان کے آبائی گھروں سے بے دخل کرکے یہودیوں کا اُن گھروں پر مسلسل قبضہ وغیرہ وغیرہ ۔ حماس اور حزب اللہ کی پوری قیادت کی صفائی ۔ لبنان کی سرزمین پر بھی اسرائیلی فوجیں داخل اور ان کی عملداری وغیرہ وغیرہ ۔ یہ نقصان تو صرف اہل فلسطین کا ہوا ۔ شام اور دیگر ممالک کا ذکر بعد میں ۔
حاصل کیا ہوا ۔ نیتن یاہو پر عالمی عدالت میں مقدمہ وہ بھی جنوبی افریقہ اور لاطینی امریکی ممالک نے کیا اور بس ۔ جنگ کی صورتحال پر بھی ایک نظر ڈالتے ہیں ۔ اسرائیل پوری دنیا کی جدید ترین حربی ٹیکنالوجی سے مسلح تھا ۔ اس کا اندازہ pager attack سے لے کر ڈرون حملوں تک سے لگایا جاسکتا ہے ۔ اس کے جواب میں حماس کے پاس کیا تھا؟ ان کے پاس جدید ٹیکنالوجی تو کیا پرانی ٹیکنالوجی بھی نہیں تھی ۔ ایران کے ڈرون مشہور ہیں ، روس بھی اس سے استفادہ کررہا ہے مگر یہ ڈرون نہ تو حزب اللہ کے پاس موجود تھے اور نہ ہی حماس کے پاس ۔ ان کے پاس تو ڈرون کو تباہ کرنے کی بھی صلاحیت موجود نہیں تھی اور وہ پولٹری فارم کی مرغیوں کی طرح بے بسی سے موت کا شکار ہوتے رہے اور ہورہے ہیں ۔
یہاں سوال پیدا ہوتے ہیں کہ ایران نے آخر ایسی احمقانہ منصوبہ بندی کیوں کی اور اسرائیل کو جب معلوم تھا کہ حماس اس پر حملہ آور ہورہا ہے تو پھر اس نے پہلے سے ہی کیوں نہیں روک دیا ۔
یہ دونوں سوال الگ نہیں ہیں ۔ ہمیں معاملات اس لیے پیچیدہ معلوم ہورہے ہیں کہ معاملات کو اُس زاویے سے دیکھ رہے ہیں جو ہمیں سمجھا دیا گیا ہے ۔ یہ ایک ایسا theatre play ہے جس میں ہیرو، سائیڈ ہیرو ، ولن ، وغیرہ وغیرہ ایک دوسرے کے خلاف نظر آتے ہیں ۔ حقیقت میں یہ سب ایک ڈائریکٹر کی ہدایات کے مطابق اپنا اپنا کردار ادا کررہے ہوتے ہیں ۔ جتنا ڈائریکٹر اجازت دیتا ہے ، اُتنا ہی سارے کردار عمل کرتےہیں ۔
طوفان الاقصیٰ میں کس کا کیا کردار ہے ۔ اس کا ہمیں پہلے حملے میں استعمال ہونے والے ہتھیاروں کے استعمال سے پتا چل سکتا ہے ۔ حملے کے فوری بعد اکتوبر 2023 کو میں نے “طوفان الاقصیٰ ” کے عنوان سے ایک سیریز سپرد قلم کی تھی ۔ آرٹیکلز کی یہ سیریز میری ویب سائیٹ پر ملاحظہ کی جاسکتی ہے ۔ اس کی تیسری قسط میں لکھا تھا کہ ” القسام بریگیڈ کے جنگجوؤں نے طوفان الاقصیٰ میں امریکی M4 assault رائفلیں استعمال کیں ۔ ملین ڈالر سوال یہ تھا کہ آخر حماس کے پاس یہ امریکی ہتھیار پہنچے کیسے ۔ اس حوالےسے دو ہی آپشن ہیں کہ یہ یا تو افغانستان سے حماس تک پہنچے یا پھر یہ یوکرین سے جہاں پر امریکا نے روس سے لڑنے کے لیے ہتھیار فراہم کیے ہیں۔ پہلا شک افغانستان پر ہی کیا گیا کہ طالبان نے یہ حماس کو فراہم کیے ہوں گے تاہم یہ سوال خود ہی اس لیے ختم ہوگیا کہ افغانستان میں امریکی ہتھیار بھاری تعداد میں طالبان کے پاس موجود ہی نہیں ہیں ۔ امریکا افغانستان میں کوئی بھی کارآمد چیز چھوڑ کر نہیں گیا ، وہ تو اپنا اسکریپ بھی اٹھا کر لے گیا ہے ۔ افغانستان میں جو بھی امریکی ہتھیار موجود ہیں ، وہ ہتھیار وہ ہیں جو امریکا نے افغانستان میں داعش جیسے اپنے پٹھوؤں کے پاس چھوڑے ہیں ۔ ظاہر سی بات ہے داعش جیسے گروپوں کو یہ ہتھیار کسی خاص مقصد کے لیے فراہم کیے گئے ہیں نہ کہ ان سے لے کر آگے فراہم کردیے جائیں ۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ ان کا ایمونیشن بھی اتنا ہی اہم ہے اور فی الوقت یہ افغانستان میں اتنی وافر مقدار میں موجود نہیں ہے ۔
اب دوسرا آپشن یوکرین بچتا ہے جہاں سے یہ ہتھیار القسام بریگیڈ کو فراہم کیے گئے ۔ امریکا میں ریپبلکن رکن کانگریس Marjorie Taylor Greene نے یہی سوال اٹھایا ہے ۔ گرینی کا کہنا ہے کہ القسام بریگیڈ کے پاس موجود ہتھیاروں کے سیریل نمبر لے کر تحقیقات کی جائیں کہ یہ ہتھیار القسام بریگیڈ کے پاس کہاں سے پہنچے ۔ اس سوال پر پورے امریکا میں چپ لگ گئی ہے اور کسی نے کوئی جواب نہیں دیا ہے ۔ نیوز ویک نے اپنے تازہ شمارے میں تو یہ بھی لکھا ہے کہ اس کے پاس اس امر کے شواہد نہیں ہیں مگر اس کے پاس اطلاعات ہیں کہ طوفان الاقصیٰ میں حصہ لینے والے افراد کی تربیت بھی یوکرین میں ہی ہوئی ہے ۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ حماس کے حملے کے پروگرام میں اسرائیل اور اس کا سرپرست امریکا بھی شامل تھا ۔ اپنے اسی آرٹیکل میں ، میں نے لکھا تھا کہ ” یہاں سے دوسرا سوال پیدا ہوتا ہے کہ یوکرین کی موجودہ قیادت مکمل طور پر اسرائیل نواز ہے ۔ یوکرین کا صدر ولادمیر زیلنسکی نہ صرف یہودی ہے بلکہ کئی مرتبہ اسرائیل کے ساتھ اپنی وفاداری کا علی الاعلان اظہار بھی کرچکا ہے تو پھر یوکرین سے امریکی ہتھیار کیوں القسام بریگیڈ کو پہنچے اور کیوں کر ان کی تربیت یوکرین میں ممکن ہوئی ۔ ایسے معاملات عام آدمی کے لیے اس لیے سمجھنا مشکل ہوجاتے ہیں کہ اس کے نزدیک دوستی اور دشمنی کا مطلب وہی ہے جو ہونا چاہیے ۔ مگر یہ بات سمجھنے کی ہے کہ جس طرح سیاست میں دوستی اور دشمنی کبھی بھی حتمی نہیں ہوتی۔ وقت کے ساتھ ساتھ دوست دشمن میں اور دشمن دوست میں تبدیل ہوتے رہتے ہیں بالکل اسی طرح عالمی بساط پر دوستی اور دشمنی کا کہیں سے یہ مطلب نہیں ہے کہ ایسا ہی ہوگا ۔ ایک محاذ پر حلیف طاقتیں دوسرے محاذ پر حریف بھی نظر آئیں گی ۔ یہ ایک complex situation یا یوں کہیں کہ پیچیدہ صورتحال ہے ۔ اسے ہم مثالوں سے سمجھ سکتے ہیں ۔
امریکا اور ترکی ناٹو کے اہم رکن ممالک ہیں ۔عراق پر امریکی حملوں میں ترکی کے کردار سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ۔ مگر یہی امریکا آزاد کردستان کے معاملے پر روز ترکی کے کان مروڑتا ہے ۔ ترکی اور امریکا مل کر شام میں اسد حکومت کے خلاف ہر طرح کی فوجی و مالی مدد فراہم کررہے ہیں ۔ شام میں ترکی کا وہی کردار ہے جو افغانستان میں پاکستان کا تھا مگر یہی امریکا ترک حکومت کے تمام تر غم و غصے اور احتجاج کے باوجود شام میں کرد باغیوں کی بھرپور مدد کررہا ہے ۔ امریکا اور ترکی و عرب ممالک کے خلاف روس بشار الاسد حکومت کی پشت پر ہے اور ترک شہریوں کو شام کی سرحد پر روز نشانہ بناتا ہے ۔ مگر اسی روس کا تیل دنیا بھر میں سپلائی کرنے کے لیے ترکی نے اپنی بندرگاہ تک زمینی پائپ لائن کی سہولت مہیا کی ہوئی ہے ۔ اس کے علاوہ بھی دونوں ممالک کے تجارتی تعلقات روز افزوں ہیں ۔ ترکی نے روس سے میزائل شکن دفاعی نظام بھی خریدا ہے ۔ امریکا داعش کے خلاف روز ایک نئی مہم شروع کرتا ہے ۔ داعش کے نام پر ہر طرح کی طالع آزمائی کرتا ہے مگر اس کا قریب ترین حلیف اسرائیل اسی داعش کو ہر طرح کی زمینی و فوجی سہولت فراہم کرتا ہے ۔ اسی امریکا کی ایجنسی سی آئی اے پر داعش کی پیدائش و حمایت کا الزام ہے ۔ یہ منافقت کا مختصر ترین احوال ہے ۔”
اب صورتحال کچھ کچھ واضح ہونی شروع ہوئی ہے کہ اس Theatre play میں کتنے کردار ہیں ۔ آئیے ان کرداروں کے اسکرپٹ کو دیکھتے ہیں:
طوفان الاقصیٰ میں برسرپیکار حماس کے پاس نہ تو دستیاب حربی وسائل تھے اور نہ ہی بیرونی دنیا سے انہیں ویسی مدد پہنچی جو پہنچنی چاہیے تھی ۔ حزب اللہ اُس وقت میدان جنگ میں داخل کی گئی جب اسرائیل حماس سے مکمل طور پر فارغ ہو چکا تھا ، اس طرح اسرائیل کو ایک وقت میں ایک ہی دشمن سے نمٹنے کی عیاشی فراہم کی گئی ۔ نہ تو حوثیوں نے بحیرہ احمر کو بند کیا ، بس چند جہازوں پر علامتی حملے کیے گئے اور نہ ہی ایران نے آبنائے ہر مز کی ناکہ بندی کی ۔
غزہ میں بھی جاری جنگ کا جائزہ لیں تو پتا چلتا ہے کہ حماس کے پاس جو بھی اسلحہ موجود ہے ، اس کے ایمونیشن کی فراہمی میں کوئی کمی نہیں ہے ۔ ایک ایسی جگہ پر جہاں پر غذا کا دانہ اُڑ کر بھی نہیں پہنچ سکتا اور وہ مکمل طور پر اسرائیل کی دست بُرد میں ہے ، وہاں پر ایمونیشن کی بلاتعطل فراہمی بجائے خود ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے ۔
فلسطینیوں کے جانی نقصان کا جائزہ لیں تو اس میں خواتین، بچوں ، بزرگوں اور اسپتال میں داخل مریضوں کی اکثریت نظر آئے گی ۔ اس میں جنگجوؤں کی تعداد نسبتا کم ہے ۔ اصولی طور پر تو اسرائیل کو سب سے پہلے مدافعتی قوت کو نشانہ بنانا چاہیے تھا۔ مگر سب سے کم وہی نشانہ بنے ہیں ۔ یہ بھی ایک سوالیہ نشان ہے ۔
منصوبہ بندی کے تحت حماس کو صرف اتنے ہی ہلکے ہتھیار فراہم کیے گئے جو حملے کے لیے ضروری تھے ۔ اسے دفاعی اسلحہ فراہم نہیں کیا گیا اور نہ ہی غزا میں غذائی اشیاء اور ضروری ادویہ کا ذخیرہ کیا گیا ۔ گمان غالب ہے کہ امریکا و دیگر دوستوں نے جلد جنگ بندی کی جھوٹی یقین دہانی کروائی تھی ۔ حزب اللہ کو تاخیر سے میدان جنگ میں اتارا گیا جس کا بھرپور فایدہ اسرائیل کو پہنچا ۔
حماس یقینا اس پورے کھیل میں ٹریپ ہوئی ۔ مگر سوال یہ ہے کہ دیگر کھلاڑیوں کے اس میں کیا مفادات تھے ۔ یہ مفادات ہمیں غزہ پارٹ 2 کو دیکھے بغیر سمجھ میں نہیں آئیں گے ۔ غزہ پارٹ 2 کا کھیل ملک شام میں کھیلا گیا ۔ دیکھنے میں شام میں ہونے والے واقعات بھی اچانک ہی رونما ہوئے ہیں ۔ ہیئۃ تحریر الشام یا تنظیم برائے آزادی شام جسے مختصرا تحریر الشام کہتے ہیں کا قیام گو کہ 28 جنوری 2017 کو عمل میں آیا تھا ۔ یہ ایک اتحاد تھا جسے جیش الاحرار (سابقہ النصرۃ فرنٹ : احرار الشام کا ایک دھڑا ) ، جبہۃ فتح الشام ، جبہۃ انصارالدین ، جیش السنۃ ، لواء الحق اور نورالدین زنگی تحریک کو جوڑ کو عمل میں لایا گیا تھا ۔ تحریر الشام سے بعد میں نورالدین زنگی تحریک اور جبہۃ الانصار الگ ہوگئے ۔
تحریر الشام کے قیام کے بعد سے ہی اس کا دیگر تنظیموں سے قتال کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔ جواب میں تحریر الشام نے القاعدہ کے وفاداروں کا کریک ڈاؤن شروع کیا اور اس نے ادلب میں ترکی کی مدد سے اپنی حکومت قائم کرلی ۔ آستانہ مذاکرات (یہاں پر قازقستان کے دارالحکومت آستانہ کا ذکر انتہائی اہم ہے ۔ یہ ایک عالمگیر شیطانی حکومت کا مجوزہ دارالحکومت ہے ۔ اور پوری دنیا کے متعلق فیصلے یہیں پر کیے جاتے ہیں ۔ اس بارے میں ایک تفصیلی آرٹیکل میں سپرد قلم کرچکا ہوں جو میری ویب سائیٹ پر ملاحظہ کیا جاسکتا ہے ۔ ) کے تحت 2017 میں جو جنگ بندی کی گئی تھی ، کے تحت تحریر الشام نے ترک فوجوں کو شمال مغربی شام میں گشت کرنے کی اجازت دی تھی ۔ گزشتہ سات برسوں سے تحریر الشام کی کوئی قابل ذکر کارکردگی نہیں تھی مگر دسمبر میں دیکھتے ہی دیکھتے ہی تحریر الشام نے پورے شام پر قبضہ کرلیا۔ صدام کے سقوط بغداد ، طالبان کے سقوط کابل اور بشارالاسد کے سقوط دمشق میں حیرت انگیز طور پر ایک قدر مشترک ہے ۔ وہ یہ ہے کہ دفاعی افواج کے کمانڈر نے زبردست مزاحمت دینے کے بجائے طشتری میں رکھ کر انہیں حملہ آور فوج کے اس طرح حوالے کیا کہ انہیں قبضہ کرنے کے لیے ایک گولی بھی نہیں چلانی پڑی ۔
دمشق پر حملہ آور تحریر الشام کے جنگجوؤں پر نظر ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ ان کے پاس سیکڑوں نئی گاڑیوں کا فلیٹ تھا، حملہ آور سپاہی بوسیدہ لباس کے بجائے نئی وردیوں میں تھے ، ان کے پاس ایمونیشن اتنا تھا کہ ان میں سے ہر فرد نے سیکڑوں راؤنڈز تو ایسے ہی فضا میں فائر کرڈالے ۔ یعنی ان کے پاس ایمونیشن کی کوئی کمی نہیں تھی ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ سب بھی باقاعدہ پہلے سے کی گئی ایک منصوبہ بندی کے تحت تھا ۔ ہم اگر یہی پتا چلا لیں کہ نئی گاڑیاں تحریر الشام کے لیے امپورٹ کرنے کا آرڈر کب دیا گیا تھا تو پتا چل جائے گا کہ یہ سب اچانک نہیں تھا ۔
باقی معاملات اس سے بھی سمجھے جاسکتے ہیں کہ طالبان کی طرح تحریر الشام بھی اب رواداری کے ایک نئے لبادے میں ملبوس ہے ۔ جس طرح سے طالبان کا رویہ افغانستان میں اپنے پہلے دور حکومت سے یکسر مختلف ہے بالکل اسی طرح تحریر الشام جہاں القاعدہ اور دیگر گروپوں کے جنگجوؤں کے خون کی پیاسی تھی ، اب ان کے لیے بھائی چارے کے پھول لیے کھٖڑی ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ کھیل کے ڈائریکٹر کی ہدایت یہی ہے ۔
شام میں بشار الاسد حکومت کے خاتمے کے بعد اس کے آفٹر شاک بھی آنے ہیں ۔ اس سے سب سے پہلا متاثر ملک تو اردن ہی ہے جہاں کی بادشاہت کو اب ایک مرتبہ پھر سے خطرات لاحق ہو گئے ہیں ۔ لامحالہ سعودی عرب ، عراق اور مصر میں بھی اس کے اثرات پہنچیں گے ۔
اب تصویر زیادہ واضح ہوگئی ہے ۔ ہم کھیل میں شامل کرداروں کے مفادات کو زیادہ آسانی سے سمجھ سکتے ہیں ۔ اسرائیل سب سے زیادہ فائدے میں رہا ۔ شمالی غزہ اسرائیلی عملداری میں آگیا اور جنوبی غزہ اس کی براہ راست نگہبانی میں ۔ لبنان میں بھی اس کا عمل دخل بڑھ گیا اور نام نہاد لبنانی فوج پیچھے ہٹ گئی ۔ گولان کے پورے علاقے پر اس کا قبضہ ہوگیا ۔ غرب اردن میں فلسطینیوں کی رہی سہی آبادی کو بھی ختم کرنے کا عمل شروع کردیا گیا ۔ حماس اور حزب اللہ کا کانٹا فی الحال نکل گیا ۔ اب ہیکل سلیمانی کی تعمیر اور بیت المقدس کے انہدام میں اسے علاقائی طور پر کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا ۔
ترکی کیلیے شام کا کانٹا صاف ہوگیا۔ اب شامی مہاجرین واپس چلے جائینگے اور یوں ترکی پر سے معاشی دباؤ ختم ہوجائے گا۔ اس سے اردوان کے اگلے الیکشن میں کامیابی کے امکانات اچانک روشن ہوگئے ہیں۔ شام میں حلیف حکومت کے قیام کے ساتھ ہی ترک حکومت کیلیے کردوں سے نمٹنا آسان ہوجائے گا ۔
ایران کے حریف ممالک اردن ، سعودی عرب و دیگر ممالک میں حکومت کی تبدیلی کی راہ ہموار ہوگئی ہے ۔ اس سے ایران کو کیا معاشی فوائد حاصل ہوں گے ۔ اس کا بھی جلد ہی پتا چل جائے گا۔
اب کھیل کے نتائج سامنے آنا شروع ہوئے ہیں ۔آئندہ چند ماہ میں منظرنامہ اور بھی زیادہ واضح ہو چکا ہوگا ۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش ۔
گریٹر اسرائیل کی جانب پیشقدمی (آخری قسط)
