حکیم محمد سعید ایک نابغہ روزگار شخصیت جو مملکت خداداد سے والہانہ لگاؤ رکھتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد اپنا گھر بار، کاروبار، ایشیا کا عظیم الشان طبی مرکز اور اپنے پیاروں کی محبت قربان کرکے پاکستان کی جانب ہجرت کی۔ عوام کی اکثریت طب، علوم و فنون میں گراں قدر خدمات انجام دینے والے سندھ کے صوبے میں گورنر کے منصب پر فائز ہونے والے حکیم محمد سعید کی نابغہ روزگار شخصیت کے ہمہ جہت پہلوؤں سے ناواقف ہو گی۔
حکیم محمد سعید کے آبا و اجداد کا تعلق چین کے صوبہ سنکیانگ سےتھا۔ وہ سترھویں صدی کے اوائل میں نقل مکانی کرکے پشاور آؒگئے، وہاں سےملتان اور پھر دہلی منتقل ہوکر حوض قاضی کے علاقے میں رہائش پذیر ہوئے، جہاں ان کا خاندان آج بھی مقیم ہے۔ حکیم سعید 9جنوری 1920 کو دہلی میں حکیم عبدالمجید کے گھر پیدا ہوئے۔ وہ پانچ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ دو سال کی عمر میں ہی والد کا سایہ سرسےاٹھ گیا۔ ان کی تربیت والدہ اور بڑے بھائی حکیم عبدالحمید نے کی۔
ان کے والد حکیم عبدالمجید کا رجحان ادویہ سازی کی طرف تھا اور اس میں انہوں نے خاصا کمال حاصل کرلیا تھا۔ ادویہ سازی میں ان کا بڑھتا ہوا جنون، انہیں مسیح الملک حکیم اجمل خان کے قائم کردہ “ہندوستانی دواخانے” تک لے گیا جہاں انہیں ترجیحی بنیاد پر ملازمت مل گئی۔ نوکری کے ساتھ انہوں نے طبی علوم اور حکمت کی کتب کا مطالعہ کیا۔ انہیں جڑی بوٹیوں اور نباتات سےگہرا شغف اور ان کی پہچان میں خاصا عبورحاصل تھا۔ انہوں نے مختلف امراض کے تریاق کے لیے پورے ہندوستان کا دورہ کرکے قدرتی نباتات اور جڑی بوٹیاں تلاش کیں۔حکیم عبدالمجید نے 1904ء میں ذاتی دواخانہ قائم کیا اور اس کے ساتھ ساتھ جڑی بوٹیوں کی تجارت بھی شروع کردی۔اس دور میں ’’سل بٹے یا ہمام دستے ‘‘پر پسائی کا کام کیا جاتا تھا۔ حکیم عبدالمجید نباتات پیس کر ہاتھ سے گولیاں بناتے تھے اور انہیں دواخانوں پر فروخت کرتے تھے۔ ان کی بنائی ہوئی گولیاں مختلف النوع امراض کے لیے زود اثر اور شفایاب ثابت ہوئیں جس کے باعث ان کے شفاخانے کی شہرت پورے ہندوستان میں ہوگئی۔ حکیم عبد المجید کی رحلت کے بعد دواخانے کی باگ ڈور ان کے بڑے صاحب زادے حکیم عبد الحمید نے سنبھالی۔ حکیم سعید کا ذہن آبائی پیشے کے بجائے صحافت کی طرف مائل تھا اور وہ اخبار نویس بننا چاہتے تھے۔مگر بڑے بھائی عبدالحمید نے جو والد کے انتقال کے بعد سے ان کے سرپرست تھے، انہیں خاندانی کاروبار کی جانب راغب کیا۔ حکیم سعید نے 1936 میں طبیہ کالج دہلی میں شعبہ طب میں داخلہ لیا۔ 1940 میں تعلیم مکمل کرکے بطور معالج کام شروع کیا، بعد میں اپنا الگ دواخانہ قائم کرلیا۔ پاکستان بننے تک ان کا دواخانہ ایشیا میں طبی ادویہ کا سب سے بڑا طبی مرکز بن چکا تھا۔
اگست 1947 میں نئی اسلامی مملکت پاکستان کے نام سے وجود میں آئی، حکیم سعید نئے وطن کی محبت میں اپنا گھر، دواخانہ اور تمام کاروبار قربان کرکے بڑے بھائی، والدہ اور دیگر اعزا کے روکنے کے باوجود 1948 میں ہجرت کرکے پاکستان آگئے۔ انہوں نے مزار قائد کے عقب میں سکونت اختیار کی جب کہ آرام باغ کے علاقے میں ایم اے جناح روڈ کے ساتھ ایک چھوٹے سے کمرے میں مطب قائم کیا۔ پچاس روپے مہینہ پر ایک دکان اور ساڑھے بارہ روپے ماہانہ پر فرنیچر کرائے پر لے کرانھوں نے حکمت کے کام کا آغاز کیا اور دواخانے کے باہر اپنے ہاتھ سے ’’ہمدرد مطب ’’کا بورڈ لکھ کر نصب کیا۔ جس مکان کو ہجرت کرکے پاکستان میں آباد ہونے کے بعد اپنا مسکن بنایا،اپنی شہادت تک اسی میں مقیم رہے جب کہ مطب آج بھی اسی جگہ قائم ہے۔
ناظم آباد میں المجید سینٹر کی بنیاد ڈالی، جس نے ان کی فاؤنڈیشن کی راہ ہموار کی۔ حکیم محمد سعید نے اس ادارے کو بھی خدمت خلق ِ کے لیے وقف کردیا۔ 1953ء سے لے کر 1963ء تک انھوں نے سندھ یونیورسٹی میں آرگینک کیمسٹری کی تعلیم دی۔ جب حکمت کے طریقہ علاج کو ہدف تنقید بنایا گیا تو انھوں نے اس کا جواب اپنے قلم سے دیا، بالآخر طب کی صنعت کو قانونی حیثیت حاصل ہوگئی۔
محترمہ فاطمہ جناح نے 14اگست 1958ء کو ہمدرد فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام بننے والےطبی کالج کا افتتاح کیا، جہاں سے لاکھوں معالجین فارغ التحصیل ہوکر مریضوں کا علاج کررہے ہیں۔حکیم محمد سعید نے طب اور ادویہ سازی کو جدید سائنسی خطوط پر استوار کیا۔ ان کی خاص بات یہ تھی کہ وہ فیس نہیں لیتے تھے جب کہ مستحق مریضوں کو ادویات بھی مفت دیتے، بلکہ کچھ مریضوں کی پرچیوں پر نوٹ لکھ دیتے کہ “دوا دینے کے ساتھ ساتھ مالی مدد بھی کر دی جائے۔”
کراچی میں مدینتہ الحکمت نامی منصوبہ بھی خلق خدا کی خدمت کے لیے قائم کیا جہاں آج بیت الحکمت کے نام سے بہت بڑی لائبریری، یونیورسٹی ، کالجز، اسکول اور دیگر اہم ادارے قائم ہیں۔ سائنس و ثقافت اورعلم و حکمت کا یہ شہر آج بھی اس شخص کی یاد دلاتا ہے جس کے عزم وہمت اور حوصلے کی وجہ سے ملک میں شرح تعلیم میں اضافہ ہوا جس میں ان کے قا ئم کیے گئے اداروں کا بہت بڑا کردار ہے۔
ان کی طبی و علمی خدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے 18جولائی 1993 میں انہیں سندھ کا گورنر بنایا گیا لیکن صرف چھ ماہ بعد ہی انہوں نے یہ کہہ کر گورنری سے استعفیٰ دے دیا کہ ’’گورنر کا عہدہ ملنے کے بعد سے میں اپنے مریضوں کا بہتر علاج نہیں کرپارہا‘‘۔ اسی طرح جنرل ضیاءالحق (مرحوم) کے دور میں وہ وزیر بننے کے بعد بھی کراچی ، لاہور، سکھر اور پشاور میں مطب کرتے رہے۔ انھوں نے نہ تو کوئی مراعات لی، نہ سرکاری گاڑی لی اور نہ ہی رہائش، یہاں تک کہ غیرملکی زرِ مبادلہ جو انہیں بیرونی ممالک کے سرکاری دوروں کے دوران اخراجات کی مد میں ملتا تھا وہ بھی قومی خزانے کو واپس کردیا۔
23 اکتوبر 1969ء کوحکیم محمد سعید نےہمدرد فاؤنڈیشن کاادارہ قائم کیاجو بعد ازاں ہمدرد پاکستان فاؤنڈیشن کی صورت میں تبدیل ہوکر وقف کی صورت اختیار کرگیا۔ یہ ادارہ طب، تعلیم، سائنس اور ادب کے شعبوں میں سرگرم عمل ہے اور اس کے تحت ہمدرد یونیورسٹی اور مدینتہ الحکمت جیسے تعلیمی ادارے قائم کیے گئے ہیں۔ عالمی شہرت یافتہ طبیب کے علاوہ وہ بلند پایہ دانش ور بھی تھے انہوں نے اپنی زندگی میں مختلف موضوعات پر تقریباً دو سو کتابیں تصنیف کیں جب کہ کافی تعداد میں مقالے بھی تحریر کیے۔ انہوں نےہمدرد کی مطبوعات کے ذریعے اردو زبان کی ترقی و ترویج میں لافانی کردار ادا کیا۔اس کے علاوہ ہمدرد فاؤنڈیشن کے تحت عالمی ادب کے تراجم سمیت مختلف علمی و تحقیقی موضوعات پر کتابیں اور مجلے شائع کئے جاتے ہیں۔ انہوں نے جہان دوست، جوانان امروز، ہمدرد مجلسِ شوریٰ، بزمِ ہمدرد نونہال کے ذریعے علم و آگہی پھیلائی، کتابیں اور کتب خانے ان کی شناخت تھے ۔ مدینۃ الحکمت قائم کیا گیا جس میں مدینہ الحکمت یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا ۔
حکیم محمد سعید بچوں سے بے انتہا پیار کرتے تھے، ان کے ساتھہ اسٹول پر بیٹھ جایا کرتے تھے۔ نونہالان وطن کے لئے 1953ء میں ماہ نامہ ہمدرد نونہال جیسا معلوماتی رسالہ جاری کیا جو اب تک نکل رہا ہے۔ یہ رسالہ نہ صرف بچوں بلکہ بڑوں میں بھی یکساں مقبول ہے۔ ہمدرد نونہال میں قلمی دوستی کے تعارف چھپتے تھے، جن بچوں نے اپنا مشغلہ ٹکٹ جمع کرنا لکھا ہوتا تھا، حکیم صاحب انہیں ذاتی طور پر خط لکھتے، ٹکٹ جمع کرنے کے فوائد بتاتے کہ ساتھ ہی انہیں تحائف بھیجتے جن میں غیر ملکی ٹکٹوں کا تحفہ بھی ہوتا، اسی طرح ہمدرد کے بچوں کے ٹانک کے ساتھ ایک کارڈ ہوتا تھا، جس پر بچے کے کوائف لکھ کر بھیجنا ہوتا تھا، پھر اس بچے کی ہر سالگرہ پر حکیم صاحب کا مبارک باد کا کارڈ ملتا رہتا تھا۔ اپنی شہادت تک وہ اپنے ہی شروع کردہ رسالے ہمدرد نونہال سے منسلک رہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے نونہال ادب کے نام سے بچوں کے لیے کتب کا سلسلہ شروع کیا جو ابھی تک جاری ہے۔ اس سلسلے میں مختلف موضوعات پر کتب شائع کی جاتی ہیں۔
90کی دہائی میں ملک میں فروغ تعلیم اور طبی خدمات کے صلے میں انہیں ستارہ امتیاز سے بھی نوازا گیا۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ 2024 میں ان کی صاحب زادی محترمہ سعدیہ راشد کو بھی فروغ تعلیم میں کارہائے نمایاں انجام دینے کے صلے میں صدر پاکستان سید آصف علی زرداری نے نشان امتیاز دیا۔
اکتوبر 1998 میں ملک کی اس عظیم ہستی، درویش صفت انسان، جس نے ملک میں تعلیمی انقلاب برپا کرنے میں اہم کردار ادا کیا، نامعلوم افراد نے ان کے مطب کے سامنے شہید کردیا۔ وہ خود تو دنیا سے رخصت ہوگئے لیکن ان کا لگایا ہوا “ہمدرد مطب” نام کا پودا آج ہمدرد فاؤنڈیشن کی صورت میں تناور درخت بن کر لہلا رہا ہے۔ اسے پروان چڑھانے کی ذمہ داری ان کی صاحبزادی محترمہ سعدیہ راشد بخوبی نبھا رہی ہیں۔ ہمدرد فائونڈیشن ادارے کی لاتعداد شاخوں میں سے بیت الحکمت، ہمدرد اسکول، ہمدرد یونیورسٹی نے جنم لیا ہے۔ اس کی خنک چھاؤں سے روزانہ لاکھوں تشنگان علم استفادہ کرتے ہیں۔ ہمدرد کے تعلیمی اداروں میں مستقبل کے معماروں کی ذہنی آبیاری کی جاتی ہے جو ملک و ملت کی تعمیر و ترقی میں بھرپور کردار ادا کرتے ہیں۔
شہید ِپاکستان حکیم محمد سعید: علم و حکمت کا لازوال کردار
















