17اکتوبر1998ء کی صبح کراچی کی شاہراہ پر وہ اُجلا سفید لباس سرخ خون سے تربتر تھا اور پاکستان کے مردوزن اور نونہال خلائوں کو گھورتے ہی رہ گئے انہیں دہکتی دھوپ سے بچانے والا سائبان زمین کی گہرائیوں میں جا رہا تھا ۔سفاک قاتلوں نے آدمیوں کی بھیڑ میں موجود اس ملک کے ہمدرد دوست حکیم محمدسعید کو خون میں نہلا کر ہم سے چھین لیا ۔انسانی تاریخ میں چند ہی ایسے لوگ آتے ہیں جو اپنے افکار و کردار کے سبب خود تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں ان میں سے ایک شہید حکیم محمد سعید جنہوں نے نہ صرف طب میں نام کمایا بلکہ علم و ادب میں بھی اُنکی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں ۔حکیم صاحب چھوٹے بڑے کے امتیاز کئے بغیر اور عہدوں اور عمروں کا لحاظ رکھے بغیر ہر ایک شخص سے بڑے خلوص اور شفقت سے ملتے تھے۔ حکیم صاحب کی خوبصورت شخصیت میں بڑا تنوع تھا ۔انکی من موہنی ذات کے بڑے ہی گوشے اور بڑی ہی جہات تھیں ،انکی شخصیت کا ایک پہلو انکا لطیف مزاح کی حس تھی ۔آپ کسی بھی تقریب میں مدعو کیے جاتے تو وہاں موجود ماحول کی مطابقت سے اپنے الفاظ کا چنائو کرتے تھے۔ایک بار ماہرِ تعلیم محترم طاہر یوسف نے علمی تقریب رکھی اور اُسکے ساتھ ایک عشائیہ کا بھی اہتمام تھا۔ مقررین کی لمبی لمبی تقاریر میں کافی وقت گذر گیا اور حاضرین میں ایک بے چینی سی کیفیت تھی ۔اختتام پر حکیم صاحب کو صدارتی کلمات ادا کرنا تھے تو حکیم صاحب نے وقت کی نزاکت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے فکاہت ولطافت میں فرمایاکہ آج میں دو تقاریر کرنے کے موڈ میں ہوں ایک چھوٹی ایک بڑی تقریر ،چھوٹی یہ کہ شکریہ ہوگی اور بڑی یہ کہ آپکا بہت بہت شکریہ۔یہ کہتے ہوئے آپ ڈائس سے اُتر گئے۔ آپ کے کارہائے نمایاں اتنے گونا گوں ہیں کہ مختصراً ان کا احاطہ مشکل ہے آپ تعمیرات کا خاص ذوق رکھتے تھے عمارتوں کے نقوش اور تزئین و آرائش کو آخری شکل خود دیتے تھے جسکی زندہ مثال مدینۃ الحکمہ ہے جو بلوچستان اور سندھ سے ملحقہ علاقہ میں واقع ہے ۔یہ دیدہ زیب مدینۃ الحکمہ حکیم صاحب کے خوابوں کی تعبیر اس کے بارے میں آپ فرماتے تھے کہ یہ بڑا پیارا اور خوبصورت نام ہے مجھے اس نام سے بہت پیار ہے ۔حکیم صاحب کا مقصد حیات انکی محبت اور احترام اور احترام کا آخری مظہر ’’مدینۃ الحکمت ‘‘ہے ۔
وہ فرماتے ہیں ایک رات طواف کر کے مقامِ ابراہیم پر بیٹھا تھا یہ وہ جگہ ہے جہاں پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کھڑے ہو کر کعبہ کی تعمیر نو کی تھی ،وہاں بیٹھ کر غور کرتا ،سوچتا اور فکر کرتا رہا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے تہجد کے وقت خیال آیا کہ مجھے تعلیم کے میدان میں کچھ کام کرنا چاہیے اور کوئی بڑا کام ۔ اسکے ساتھ ساتھ مدینۃ الحکمت کا نام ذہن میں آیا ۔وہاں بیٹھ کر ایک منصوبہ تیار کیا آج نونہالوں کے لیے تعلیم کا مرکز جسمیں ہمدرد ویلج اسکول ہمدرد پبلک اسکول نوجوانوں کے لیے کالجزا ور یونیورسٹی ہیں۔ ہمدرد یونیورسٹی کے تحت ’ہمدرد انسٹیٹیویٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی‘، ’ہمدرد کالج آف میڈیسن اینڈ ڈینڈسٹری‘،’ہمدرد المجید کالج آف ایسٹرن میڈیسن ‘،’ہمدرد انسٹیٹیویٹ آف مینجمنٹ سائنسز‘،’ہمدر د انسٹیٹیویٹ آف ایجوکیشن اینڈ سوشل سائنسز‘ ، ’ہمدرداسکول آف لاء‘،’ڈاکٹر حافظ محمد الیاس انسٹیٹیویٹ آف انوائر مینٹل سائنسز‘، ’فیکلٹی آف انجینئرنگ سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی‘ ’فیکلٹی آف فارمیسی‘جیسی فیکلٹیز کام کر رہی ہیں ۔بیت الحکمہ جسکا شمار ایشیاء کی بڑی لائبریریز میں ہوتا ہے میں اس وقت پانچ لاکھ سے زائد کتب جو مختلف موضوعات پر ہیں اسکے علاوہ ہزاروں رسائل و جرائد موجود ہیں ۔ حکیم صاحب کو ایک افسوس تھا کہ آپ فرماتے تھے کہ پاکستان میں علم و حکمت سے لگائو کم کم ہے ۔حکیم صاحب فرماتے تھے کہ میں ’’ایک ناشتہ اور ایک کھانا‘‘کا قائل ہوں اور میں تم سے اور پوری قوم سے کہتا ہوں کہ نبی اکرم ﷺ کی ہدایت کے مطابق صبح اچھا ناشتہ کرو تاکہ دل لگا کر کام کر سکو اور مغرب کے بعد کھانا کھا لو۔یہ غذا تمہاری حقیقی جسمانی ضرورت کیلئے کافی ہے ۔حدیث نبوی اور سائنس بھی اسکی تائید کرتے ہیں۔ حکیم صاحب فرماتے تھے کہ میری صحت کا راز ایک یہ بھی ہے کہ میں نے کبھی چائے کا مزاتک نہیں چکھا۔سگریٹ کبھی نہیں پیا اور شراب جیسی منحوس چیز کے قریب نہیں گیا ۔حکیم صاحب کی ترتیب کردہ شامِ ہمدرد جو اَب ہمدر دمجلس شوریٰ کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ معزز اراکین ہمدرد مجلس شوریٰ کے ذریعے ملک و ملت کی راہِ فکر و عمل کیلئے کوشاں ہیں۔حکیم صاحب نے فرمایا کہ محبت جب اپنی بلندیوں کو چھوتی ہے تو پھر اس کے جلوے بھی ایک شان رکھتے ہیں اور جب نونہالوں سے محبت بے کراں ہوتی ہے تو انسان کو ہر بچے سے محبت ہو جاتی ہے ایسے بلند انسان کو ہر بچہ اپنا بچہ نظر آنے لگتا ہے اور یہ محبت کی عظمت ہے ایسے انسان وہ ہوتے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ بھی مہربان ہوجاتا ہے۔
اس محبت کو جب میں نے محسوس کیا تو مجھے بچوں کیلئے بزم ہمدرد نونہال شروع کرنے کا خیال آیا۔یہ ایک ایسا پلیٹ فارم اور فورم ہے جو اپنی نوعیت کا واحد ادارہ ہے جسکے ذریعے نونہال اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کر رہے ہیں اور حکیم صاحب کی اپنی خواہش تھی کہ ان نونہال اور نوجوانوں کو عزم ،حوصلے ،خود اعتمادی اور خود داری کے جذبہ سے مزّین کرکے انکی تعلیم و تربیت کا اہتمام کر دیا جائے آخر نونہالوں کو ہی جوان ہو کر قوم کی با گ ڈور سنبھالنا ہے ۔بچوں سے محبت کا عالم یہ تھا کہ اکثر دیکھنے میں آیا کہ بزم ہمدرد نونہال کے دوران تمام کرسیاں بھر گئیں تو صف اول کی کرسیوں کے آگے اسٹیج کے نیچے بچوں کے لیے چادریں بچھا دی جائیں اور بچے بیٹھ جایا کرتے ۔اس موقع پر حکیم صاحب اپنی اسٹیج والی کرسی چھوڑ دیا کرتے اور خود بچوں کے درمیان تشریف لے آتے تاکہ کرسیوں پر بیٹھے ہوئے بچوں کی وجہ سے فرش پر بیٹھے ہوئے بچے احساس کمتری کا شکار نہ ہوں جائیں کہیں انکی دل آزاری نہ ہو۔حکیم صاحب وقت کے بہت زیادہ پابند تھے انکی کوشش یہی ہوتی کہ ہمدرد کی سبھی اجلاس کا آغاز بروقت ہو ۔ مجھے ٹھیک سے یاد ہے کہ ایک بار گورنر پنجاب بطور صدر اسمبلی مدعو تھے صرف گورنر صاحب کا تین منٹ لیٹ ہونے کا پیغام آیا آپ فرمانے لگے پروگرام اپنے وقت پر شروع کر دیا جائے ۔اُنکا کہنا تھا ہمیں اپنے کردار اور عمل سے بچوں کی تربیت بھی تو کرنا ہے۔آپ نے نہ صرف خود لکھنے کی طرف توجہ دی بلکہ دوسرے افراد کو بھی راغب کیا۔آپ نے بچوں کے لیے ایک شعبہ نونہال ادب کے نام سے قائم کیا جسکے تحت دو سو(۲۰۰)سے زائد کتابیں چھپیں جس میں مختلف ممالک کے سفر نامے بے حد مقبول ہوئے ۔اس سے قبل بچوں کے لیے سفر نامہ نہیں لکھا گیا تھا ۔ حکیم صاحب نے اسکی ابتداء کی ۔بچوں سے محبت کا ایک اور انداز یہ کہ آپ نے بچوں کے لیے دینی کتابیں بھی لکھیں۔’’نقوشِ سیرت‘‘کے نام سے رسول ﷺ کی پاک زندگی کے سبق آموز واقعات پانچ حصوں میں لکھے گئے۔اس طرح حضورﷺ کی احادیث مبارکہ پر مبنی خوبصورت کتاب ’’خوب سیرت‘‘بھی شائع کی گئی۔حکیم محمد سعید کی پوری زندگی اور کارنامے ایک کھلی کتاب کی مانند ہے۔جوچاہے غور سے پڑھے اور اُنھیں اپنے لئے دین و دنیا کی کامیابی کیلئے رول ماڈل بنا لے۔وہ خوش قسمت لوگ جو عہدِ سعید میں موجود رہے ، بہت اچھی طرح واقف ہیں کہ حکیم صاحب محترم نفی ٔ ذات کے کِس مقام پر فائز رہے اور اُنھوں نے بند گانِ خدا کی خدمت اور پاکستان سے محبت کو اپنی زندگی کا مقصدِ اول بنا لیا تھا۔اللہ کی خوشنودی کا حصول اور اللہ کے بندوں کی خدمت کامحور بن جانا ہی دراصل زندگی کی معراج ہے ۔کوئی شبہ نہیں کہ حکیم صاحب محترم اس معراج کے حصول میں کامیاب ہوئے۔حکیم صاحب کے کارہائے نمایاں آج اُن کے لیے صدقہ جاریہ بنے ہوئے ہیں اُنکی اَن گنت خدمات میں شہر مدینۃ الحکمہ ،ہمدردیونیورسٹی ، مطبِ ہمدرد،مطبوعاتِ ہمدرد،کم وسائل مگر ذہین طلباء و طالبات کے لیے تعلیمی وظائف کا اجراء ، ناداروغرباء کے مفت علاج کیلئے ہمدرد فری موبائل ڈسپنسریز کا نیٹ ورک،بیوائوں اور یتیموں کے لیے ماہانہ وظائف ،رمضان کے علاوہ کرونا ہو سیلاب میں راشن پیکج کا اہتمام ،موسم سرما کمبلوں کی تقسیم کا عمل ،دیہا ت کے بچوں کی تعلیم کے فروغ کے لیے ہمدرد ویلج اسکول جیسے کئی فلاحی کام شہید حکیم محمد سعید کے لیے بلند درجات کا ذریعہ ہیں ۔حکیم صاحب قدرت کے عطا کردہ دستِ شفاء سے شفا بانٹتے تھے ۔اپنے مریضوں سے زیادہ آخری دنوں اُنکا قوم کی نبض پر ہاتھ تھا اور انہوں نے مرض کی تشخیص کر لی تھی شاید یہی وجہ تھی کہ انہیں روزہ کی حالت میں جام شہادت پلادیا گیا۔
جب اُجلا سفید لباس خون سے ترکیا گیا
















