پوشیدہ گر نہ ہو توگہر میں نہ آب وتاب
ام الکتاب سے یہ کھلا مومنوں پہ باب
اتنی عیاں نہ کیجئے آرائش لباس
پردہ عقل کا چھوڑ کے چھپ جایئے جناب
اللہ کی کتاب عمل کے ہے واسطے
اس کو نہ یوں بھلائیے دینا تو ہے حساب
آیات رب کو جان لے پر مان کر نہ دے
دنیا بھی ہوخراب توعقبی میں ہو عذاب
بے پردہ لڑکیوں کو سمجھتے ہیں ملکیت
آلودگی نگاہ کی کرتی ہے یوں خراب
کیوں آشکار ہو گئی اس کی افادیت
کیوں سہہ لیا ہےآج کرونا میں یہ نقاب
کچھ فاصلے بڑھائیے لازم ہوں کچھ قیود
شرم وحیا سے چہرے پہ کھل جائیں گے گلاب