خبر گرم ہے کہ ثانوی و اعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈ حیدرآباد کی عمارت کی حالت مخدوش ہے لہٰذا بورڈ کی عمارت کو سندھ یونیورسٹی جامشورو کی تحویل میں موجود زمین پر نئی عمارت تعمیر کرکے منتقل کردیا جائے. اس حوالے سے حکومت سندھ نے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا ہے جو خلاف قانون اور اختیارات کے ناجائز استعمال کا مظہر ہے۔
یہ فیصلہ اہلیان حیدرآباد کے خلاف سازشی ذہنیت کے حامل مفسدین کے تعصب کا کھلا ثبوت ہے. اس حوالے سے چند حقائق پیش خدمت ہیں ۔
1۔ 1960 تک جامعات میٹرک کا امتحان لیتی تھیں. جب وفاق نے فیصلہ کیا کہ پاکستان میں میٹرک کے امتحانات جامعات کے بجائے امتحانی بورڈز لیں گے۔
2۔ اس مقصد کے لیے سندھ میں کراچی اور حیدرآباد میں امتحانی بورڈز کے قیام کا فیصلہ کیا گیا۔
3۔ حیدرآباد میں امتحانی بورڈ نے اپنے کام کا آغاز جامعہ سندھ کے ملکیتی مٹھا رام ہاسٹل میں کیا۔
4۔ 1962 میں حیدرآباد امتحانی بورڈ لطیف آباد یونٹ 9 میں ایک کئی ایکڑ پر مشتمل قطعہ اراضی پر تعمیر شدہ تین منزلہ عمارت میں منتقل ہوگیا. یہ عمارت تعمیراتی حسن کا شاہکار ہے۔
5۔ ہوا یوں کہ سندھ کے کئی بورڈز کے نتائج پر عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا. چیف منسٹر سندھ نے CMIC چیف منسٹر انکوائری کمیٹی تشکیل دی جسکا کام یہ تھا کہ بورڈز کے دس سال کے نتائج کا جائزہ لے تاکہ بورڈز پر اعتماد کو بحال کیا جا سکے۔
6۔ اس مقصد کے لیے کمیٹی کو امتحانی پرچہ جات کی تیاری، امتحانی کاپیاں کی جانچ اور نمبر دیے جانے کے عمل میں یکساں معیار کا جائزہ لینا تھا. نیز اس سارے عمل کو اقربا پروری کسی فرد یا گروہ کے ساتھ رعایت دباؤ اور سفارش یا رشوت کی قبولیت جیسے عوامل کا جائزہ لینا تھا۔
7۔ اس کمیٹی نے چیف منسٹر کو حیدرآباد بورڈ کی خستہ حالی کی رپورٹ، انہدام کا فیصلہ اور جامشورو منتقلی کی رپورٹ پیش کردی جو اس کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔
8۔ صوبائی حکومت کے بیٹسمینوں بزرجمہروں نے رپورٹ پر عملدرآمد کے احکامات جاری کر دیئے جو سراسر بدنیتی پر مبنی ہیں. ہزاروں طلبہ اساتذہ اور عام شہری روزانہ اس بلڈنگ میں آتے جاتے ہیں کسی نے آج تک اس بلڈنگ کے گر پڑنے کے خوف کا اظہار نہیں کیا۔ واضح رہے کہ بلڈنگ کو مخدوش اور ناقابل استعمال قرار دینے کا اختیار سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو حاصل ہے۔ کیا متعلقہ عمارت کے لئے متعلقہ ادارے سے رجوع کیا گیا؟۔
9۔ امتحانی بورڈ حیدر آباد نے قیام پاکستان سے قبل کی تعمیر شدہ جامعہ سندھ کی ملکیت مٹھا رام ہاسٹل میں کام شروع کیا تھا، قیام پاکستان سے قبل تعمیر شدہ اس عمارت میں آج بھی جامعہ سندھ کی کلاسز ہوتی ہیں ۔
10۔ قیام پاکستان سے قبل تعمیر شدہ جامعہ سندھ اولڈ کیمپس میں آج بھی جامعہ سندھ کا ماڈل اسکول کام کررہا ہے۔
11۔ قیام پاکستان سے قبل تعمیر شدہ نول رائے اسکول اور نور محمد ہائی اسکول میں کلاسز جاری ہیں۔
12۔ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی پھلیلی کئی سال قبل اپنی صد سالہ تقریبات منعقد کرچکی اس تاریخی عمارت میں آج بھی تعلیم جاری ہے۔
13۔ بسنت ہال، دیالداس کلب، سیشن کورٹ حیدرآباد، سول اسپتال حیدرآباد، ہوم اسٹیڈ ہال. وہ عمارات ہیں جو قیام پاکستان سے قبل تعمیر ہوئیں اور آج بھی ان کی پرشکوہ عمارات شہریوں کی توجہ کا مرکز بنی رہتی ہیں۔
14۔ بالفرض محال حیدرآباد امتحانی بورڈ کی عمارت کا انہدام اور تعمیر نو ضروری ہے تو یہ کام بورڈ کی جامشورو منتقلی کے بغیر بھی کیا جاسکتا ہے. ملک میں ہزاروں مساجد اسی جگہ پر دوبارہ تعمیر ہوتی ہیں جبکہ نماز اور تعلیم کا سلسلہ بھی بلا تعطل جاری رہتا ہے۔
15۔ امتحانی بورڈ ایک خود مختار ادارہ ہے. بورڈ کے ملازمین کے دوسرے بورڈ میں تبادلے نہیں کئے جاسکتے. بورڈ ایکٹ کے مطابق بورڈ کے تمام فیصلے BOG کرتی ہے لیکن اسے بھی بورڈ کو تحلیل کرنے کا اختیار نہیں ہے۔
16۔ امتحانی بورڈ حیدرآباد کے قیام کے 17 سال بعد اس کے بطن سے امتحانی بورڈ سکھر نے جنم لیا۔
17۔ 1995 میں سکھر بورڈ کے بطن سے لاڑکانہ بورڈ نے جنم لیا۔
18۔ گورنر عشرت العباد کے دور میں حیدرآباد بورڈ کے بطن سے میرپور خاص بورڈ نے جنم لیا ۔
19۔ میرپور خاص بورڈ کی چیر پھاڑ کر کے اس سے شہید بینظیر بھٹو بورڈ برآمد کیا گیا۔
20۔ یہ تمام بورڈ ڈویژنل ہیڈ کوارٹر میں قائم ہیں جہاں کمشنر آفس، ڈی آئی جی آفس، ڈائرکٹوریٹ آف اسکولز، گورنمنٹ اور پرائیویٹ، ڈائرکٹوریٹ آف کالجز گورنمنٹ اور پرائیویٹ، مشاورت، فیصلوں اور قوت نافذہ کے ساتھ موجود ہوتے ہیں. جبکہ جامشورو تو ضلعی ہیڈ کوارٹر بھی نہیں ہے۔
21۔ امتحانی بورڈ حیدرآباد کی انرولمنٹ کا لگ بھگ پچاس فیصد ضلع حیدرآباد سے متعلق ہے جبکہ ٹھٹہ، سجاول، ٹنڈو الہ یار، ٹنڈو محمد خان، مٹیاری کے طلبہ کے لئے بھی جامشورو جانا حیدرآباد کی بنسبت مشکل ہے۔
22۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ 2018 میں حکومت سندھ نے فیصلہ کیا کہ وہ سرکاری اسکولوں کے طلبہ کی امتحانی فیس ادا کرے گی۔ طے ہوا کہ یہ ادائیگی امتحانی سلپ کے اجراء کے بعد کی جائے گی. امتحان سے قبل بورڈ انرولمنٹ فارم، امتحانی فارم، امتحانی کاپیاں اور دیگر اسٹیشنری اور امتحانی پرچے چھپواتا ہے۔ اسٹیشنری اور پرچے امتحانی مراکز تک پہنچاتا ہے۔ امتحانی مراکز میں سہولیات فراہم کرتا ہے. جس نے بورڈ میں مالی بحران کو جنم دیا۔
23۔ سرکاری اسکولوں کے طلبہ کی امتحانی فیس کی مد میں حکومت سندھ حیدرآباد امتحانی بورڈ کی ایک ارب 55 کروڑ روپے کی مقروض ہے۔
24۔ حکومت سندھ مہربانی فرما کر یہ واجب الادا رقوم ادا کرنے تو حیدرآباد بورڈ اپنے وسائل سے عمارت کی مرمت توسیع اور تزئین و آرائش باآسانی کرسکتا ہے۔
25۔ بورڈ حکام ماضی میں سندھ حکومت میں موجود لینڈ مافیا کے ساتھ مل کر بورڈ اسٹیڈیم کو کمرشل پلازہ میں تبدیل کرنے کی ناکام کوشش کر چکے ہیں۔
26۔ قاسم آباد میں بورڈ کا ایک وسیع و عریض پلاٹ تجاوزات کی زد میں ہے. خدشہ ہے کہ یہ پلاٹ قبضہ مافیا اور بلڈر مافیا کی ملی بھگت سے کمرشلائزیشن کا شکار ہو جائے گا۔
27۔ اہل حیدرآباد کئی اسکولوں کو اس مافیا سے بچا چکے ہیں، وہ حیدرآباد بورڈ کو زمین کے سوداگروں کی دسترس میں نہیں جانے دیں گے۔
شہریان حیدرآباد کے حق پر ایک اور ڈاکا
