Advertisement

امام بخاری کی وفات کیسے ہوئی؟

منقول : ڈاکٹر پرویز عمری مدنی
(سیر اعلام النبلاء، جلد 12، صفحہ 468)


امام بخاری رحمہ اللہ کی وفات عید الفطر کی رات کو ہوئی، وہ مظلوم تھے، اللہ ان پر رحم فرمائے۔
امام بخاری کو اپنی زندگی کے آخر میں اسلامی دنیا کے مشرقی شہروں کے حکمرانوں کی طرف سے شدید ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑا، خصوصاً نیشاپور، بخارا اور سمرقند میں۔
اس کی کئی وجوہات تھیں، جن میں سے چند یہ ہیں:
انہوں نے حکمرانوں کے بچوں کو ان کے محلات میں تعلیم دینے سے انکار کر دیا تھا۔ وہ کہتے تھے: “علم کے پاس جایا جاتا ہے، یہ دروازوں تک نہیں لایا جاتا۔”
بعض لوگوں نے ان کی شہرت اور نیک سیرت سے حسد کیا۔
اور دیگر کئی وجوہات۔
جب امام بخاری کی عمر 62 سال ہوئی، نیشاپور کے حاکم نے انہیں حکم دیا کہ وہ شہر چھوڑ دیں اور وہاں ان کی موجودگی ناپسندیدہ ہے۔
چنانچہ وہ نیشاپور سے ہجرت کر کے اپنے آبائی شہر بخارا پہنچے۔ وہاں لوگوں نے شہر کے دروازوں پر ان کا استقبال کیا، ان پر دولت اور مٹھائی نچھاور کی، اور لوگ، طلبہ علم اور محدثین ان کے گرد جمع ہو گئے، حتیٰ کہ دوسرے محدثین کی مجالس خالی ہو گئیں، جس سے بعض لوگوں کے دلوں میں ان کے خلاف حسد بھڑک اٹھا۔
لیکن جلد ہی بخارا کے حاکم کو ان کی شہرت سے غصہ آیا، اور نیشاپور کے حاکم کی طرف سے بھی پیغامات آئے کہ امام بخاری کو بخارا سے بھی نکال دیا جائے، جیسا کہ نیشاپور سے نکالا گیا تھا۔
ایک دن حاکم کا ایلچی امام بخاری کے گھر آیا اور فوری طور پر ان سے کہا کہ وہ شہر چھوڑ دیں، اور حکم تھا کہ “ابھی” شہر سے نکل جائیں۔
حکم اتنا سخت تھا کہ امام بخاری کو اپنی کتابیں جمع کرنے اور ترتیب دینے کا موقع بھی نہ ملا۔ وہ شہر سے نکلے اور اس کے مضافات میں تین دن تک ایک خیمے میں قیام کیا، جہاں وہ اپنی کتابوں کو ترتیب دیتے رہے اور یہ سوچتے رہے کہ اب کہاں جائیں؟
پھر امام بخاری سمرقند کی طرف روانہ ہوئے، لیکن وہ شہر میں داخل نہ ہوئے بلکہ اس کے ایک گاؤں “خرتنک” میں اپنے رشتہ داروں کے ہاں مہمان بن کر ٹھہرے۔ ان کے ساتھ ابراہیم بن معقل تھے۔
لیکن زیادہ وقت نہ گزرا کہ سمرقند کے حاکم کے سپاہی اس گھر کے دروازے پر پہنچ گئے جہاں امام قیام پذیر تھے۔
اس بار سمرقند کے حاکم کا حکم تھا کہ امام بخاری کو سمرقند اور اس کے مضافاتی علاقوں سے نکال دیا جائے۔ یہ عید الفطر کی رات تھی۔
حکم تھا کہ “ابھی” نکلنا ہے، عید کے بعد کا انتظار بھی نہ کیا گیا۔ امام بخاری کو ڈر تھا کہ کہیں ان کے رشتہ داروں کو، جنہوں نے ان کی مہمان نوازی کی، کوئی نقصان نہ پہنچے۔
چنانچہ ابراہیم بن معقل نے ایک جانور پر امام کی کتابیں لادیں اور دوسرے جانور کو ان کے سوار ہونے کے لیے تیار کیا۔
پھر ابن معقل گھر واپس آیا اور امام بخاری کو سہارا دے کر باہر لے کر چلا، دونوں سواری کے جانور کی طرف جا رہے تھے۔
تقریباً 20 قدم چلنے کے بعد، امام بخاری کو شدید تھکاوٹ محسوس ہوئی۔ انہوں نے ابن معقل سے کہا کہ چند لمحوں کے لیے رکنے دیں تاکہ وہ آرام کر سکیں۔
امام بخاری سڑک کے کنارے بیٹھ گئے، پھر لیٹ گئے۔ چند منٹوں بعد جب ابن معقل نے انہیں جگانا چاہا تو دیکھا کہ امام بخاری کی روح اللہ کے پاس جا چکی تھی۔ اللہ ان پر رحم فرمائے۔
امام بخاری کی وفات عید الفطر کی رات، یکم شوال 256 ہجری کو ہوئی، جب وہ سڑک کے کنارے تھے۔ وہ ایک شہر سے دوسرے اور تیسرے شہر سے نکالے گئے، اور ان کی عمر 62 سال سے زائد ہو چکی تھی۔
آج لوگ نیشاپور، بخارا اور سمرقند کے ان حکمرانوں کے نام تک نہیں جانتے، لیکن ہر کوئی امام بخاری رحمہ اللہ کو جانتا ہے۔
اللہ تعالیٰ امام بخاری پر رحم فرمائے اور انہیں جنت العلیٰ میں نبیوں، شہداء اور صالحین کے ساتھ بلند درجات عطا فرمائے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریر، تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ bisaat.mag@gmail.com پر ای میل کردیجیے۔
error: