انتخاب : محمد کامران
امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے بھارت میں مذہبی آزادی کی سنگین خلاف ورزیوں کی نشاندہی کی ہے۔
کمیشن نے امریکی حکومت سے ہھارت کو “مذہبی آزادی کی سنگین خلاف ورزیاں کرنے والا ملک” قرار دینے، اور بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی، ریسرچ اینڈ اینالیسس ونگ (RAW) کے خلاف پابندیوں کی سفارش کی ہے۔
امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے اپنی سالانہ رپورٹ 2025 میں نشاہندی کی ہے کہ سال 2024 کے دوران بھارت میں مذہبی آزادی کی صورتحال مزید خراب ہوئی ہے۔ اقلیتوں پر حملوں اور امتیازی سلوک میں مزید اضاضہ ہوا ہے۔
گزشتہ سال جون میں ہونے والے عام انتخابات سے قبل بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنماؤں، بشمول وزیر اعظم نریندر مودی، نے مسلمانوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز بیانیہ اور غلط معلومات کو فروغ دیا تاکہ سیاسی حمایت حاصل کی جا سکے۔
یہ بیانیہ مذہبی اقلیتوں پر حملوں کا باعث بنا، جو انتخابات کے بعد بھی جاری رہے، جن میں انتہا پسندانہ تشدد، ٹارگٹ کلنگ، اور عبادت گاہوں و املاک کی مسماری شامل تھی۔ بھارتی حکام نے انسداد دہشت گردی اور مالیاتی قوانین، بشمول “غیر قانونی سرگرمیاں روک تھام ایکٹ” (UAPA) اور “غیر ملکی تعاون ریگولیشن ایکٹ” (FCRA)، کا استعمال کر کے سول سوسائٹی تنظیموں، مذہبی اقلیتوں، انسانی حقوق کے محافظوں، اور مذہبی آزادی پر رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا۔
بھارتی حکومت نے فوجداری قوانین میں بھی تبدیلیاں کیں، جس سے اقلیتوں کو مزید نشانہ بنانے کے مواقع پیدا ہوئے ہیں،
مارچ 2024 میں بی جے پی نے 2019 کے شہریت ترمیمی قانون (CAA) کے نفاذ کے لیے قواعد متعارف کرائے، جس کے تحت پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے غیر مسلم افراد کو فوری شہریت دی جا رہی ہے۔ دریں اثنا، 2019 میں CAA کے خلاف پُرامن احتجاج کرنے والے کئی افراد 6 سال گزرنے کے باوجود بدستور UAPA کے تحت حراست میں ہیں، جن میں عمر خالد، میران حیدر، اور شارجیل امام شامل ہیں۔ قومی شہری رجسٹر (NRC) اور CAA کی وجہ سے بھارتی مسلمان شدید خوف کا شکار ہیں کہ انہیں کسی بھی وقت غیر منصفانہ طور پر شہریت سے محروم کیا جا سکتا ہے۔ اس کا عملی مظاہرہ جولائی 2024 میں اس وقت دیکھنے میں آیا جب آسام میں “فارنرز ٹریبونلز” نے 28 مسلمانوں کو “غیر شہری” قرار دے کر ڈی پورٹیشن سینٹر بھیج دیا۔
سال 2024 کے دوران مختلف بھارتی حکام، بشمول دہلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (DDA)، نے مسلمانوں کی عبادت گاہوں کی مسماری اور ان پر غیر قانونی قبضے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ ان واقعات میں ہندو مندر کی تعمیر کے لیے مساجد کو منہدم کرنا بھی شامل ہے۔
جنوری 2024 میں وزیر اعظم مودی نے ایودھیا میں رام مندر کا افتتاح کیا، جو بابری مسجد کے کھنڈرات پر تعمیر کیا گیا تھا، جسے 1992 میں ہندو انتہا پسندوں نے شہید کر دیا تھا۔ اس تقریب کے بعد چھ ریاستوں میں مذہبی اقلیتوں پر حملے ہوئے۔ حکام نے بھارتی تعزیراتِ ہند کی دفعہ 295، جو عبادت گاہوں کی توہین یا مسماری کو جرم قرار دیتی ہے، کی مسلسل خلاف ورزی کی اور مسلمانوں کی ملکیت والی مساجد اور جائیدادوں کو غیر قانونی قرار دے کر بلڈوز کیا گیا ہے۔ (باقی صفحہ 31پر)
بھارت میں ریاستی سطح پر امتیازی تبدیلی مذہب مخالف قوانین اور گؤ کشا قوانین کو اقلیتوں کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔ جون اور جولائی 2014 کے دوران اتر پردیش میں پولیس نے 20 عیسائیوں، بشمول چار پادریوں، کو مذہب کی تبدیلی کے قانون کی خلاف ورزی کے الزام میں حراست میں لیا۔ جولائی میں اتر پردیش حکومت نے ایک بل متعارف کرایا، جس میں مذہب کی تبدیلی پر عمر قید، کسی کو بھی ایف آئی آر درج کرنے کی اجازت، اور اس جرم کو ناقابلِ ضمانت بنانے کی تجویز دی گئی۔ اتر پردیش کی ہائی کورٹ نے مسلم عالمِ دین کلیم صدیقی اور 11 دیگر افراد کو جبری تبدیلی مذہب کے الزام میں عمر قید کی سزا دی۔ اسی طرح، اتراکھنڈ نے یونیفارم سول کوڈ (UCC) بل منظور کیا، جو شادیوں کی رجسٹریشن کو لازمی بناتا اور بین المذاہب جوڑوں پر نگرانی سخت کرتا ہے۔
بھارتی حکومت نے بیرونِ ملک بھی اقلیتوں، خصوصاً سکھ کمیونٹی اور ان کے حامیوں کو نشانہ بنانے کے جابرانہ ہتھکنڈے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں پر رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں، ماہرین اور سول سوسائٹی تنظیموں کو قونصلر خدمات سے محروم رکھا گیا، جن میں “اوورسیز سٹیزن آف انڈیا” (OCI) کارڈ کی منسوخی، تشدد کی دھمکیاں اور نگرانی شامل ہیں۔
بین الاقوامی رپورٹس اور کینیڈین حکومت کی انٹیلی جنس نے 2023 میں نیویارک میں ایک امریکی سکھ کارکن کے قتل کی سازش میں بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی “ریسرچ اینڈ اینالیسس ونگ” (RAW) اور چھ سفارت کاروں کے ملوث ہونے کے الزامات کی تصدیق کی تھی۔
رپورٹ مین امریکی حکومت سے سفارش کی گئی ہے کہ:
بھارت کو “مذہبی آزادی کی سنگین خلاف ورزیاں کرنے والا ملک” قرار دیا جائے، جیسا کہ “بین الاقوامی مذہبی آزادی ایکٹ” (IRFA) میں درج ہے۔
مذہبی آزادی کی سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث افراد اور اداروں، جیسے وکاس یادو بھارتی انٹیلیجنس ایجنسی RAW، پر پابندیاں عائد کی جائیں، جن میں ان کے اثاثے منجمد کرنا اور امریکہ میں داخلے پر پابندی شامل ہو۔
امریکی سفارت خانہ اور قونصل خانے مذہبی آزادی کو اپنی عوامی تقاریر اور بیانات کا حصہ بنائیں، جیسا کہ امریکی محکمہ خارجہ کی “سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کے محافظوں کی حمایت” سے متعلق ہدایات میں درج ہے۔
رپورٹ میں امریکی کانگریس کو سفارش کی گئی ہے کہ:
“بین الاقوامی جبر رپورٹنگ ایکٹ 2024” پر عمل درآمد کیا جائے تاکہ بھارتی حکومت کے اقلیتوں کے خلاف اقدامات کی سالانہ رپورٹنگ کو یقینی بنایا جا سکے۔
جائزہ لیا جائے کہ آیا بھارت کو اسلحہ کی فروخت معاہدوں، مثلا “MQ-9B ڈرونز” وغیرہ، کو کس طرح مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں کی روک تھام کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
امریکی کانگریسی کے وفود کے بھارت کے دوروں کے دوران مذہبی اقلیتوں اور مذہبی اقلوں کی تنظیموں سے ملاقاتوں کو ترجیح دیں۔
بھارت میں مذہبی آزادیوں کی صورتحال
