Advertisement

جدہ کے معروف صحافی سید مسرت خلیل بتاتے ہیں’’میں نے سعودی عرب میں کیا دیکھا؟‘‘

صدرسعودی عالمی اردو نشریات ڈاکٹرمحمد لئیق اللہ خاں نے جدہ کے معروف صحافی سید مسرت خلیل کا خصوصی انٹرویو نشرکیا۔ جو قارئین کی خدمت میں پیش ہے:
لیئق اللہ خاں: اپنوں کے سنگ پروگرام کے اس مقبول ترین گوشے میں ہمارے مہمان جدہ کے معروف صحافی جناب سید مسرت خلیل صاحب ہیں۔ سعودی میڈیا ریگولیشن اتھارٹی کےیہاں رجسٹرڈ ہیں اورایسوسی ایٹڈ پریس اف پاکستان اے پی پی کےاعزازی نمائندے کا اعزاز بھی رکھتے ہیں۔ یہا ں عرصہ دراز سے انگریزی اوراردو صحافت میں سرگرم ہیں۔( آجکل ماہنامہ بساط کے بیورو چیف بھی ہیں۔)
سوال:آپ نے تعلیم کا سفرکہاں سے شروع کیا اورعملی زندگی کیسے شروع کی اور اب کہاں کھڑے ہوئے ہیں؟
جواب: پہلے تو میں پروگرام کے اس مقبول ترین گوشے میں مدعو کرنے پرآپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میں نے اپنی تعلیمی سفرکا آغازجدہ میں پاکستان ایمبیسی اسکول سے 1959 میں کیا۔ اس وقت میرے والد سید خلیل احمد مرحوم نیشنل بینک آف پاکستان جدہ میں تعنیات تھے۔ جب 1962 ان کی ڈیپوٹیشن مکمل ہوئی تو تعلیم کا سلسلہ کراچی میں شروع ہوا۔ 1968 مقبولِ عام ہائی اسکول سے میٹرک سائنس گروپ سے کیا۔ انٹرفرسٹ ائر نیشنل کالج، سیکنڈ ائر پی ای سی ایچ ایس ایجوکیشن فاؤنڈیشن سنائس کالج سے پاس کیا۔ 1975 میں کراچی یونیورسٹی سے زولوجی، بوٹنی اورکیمسٹری میں بی ایس سی کیا۔ ستمبر 1976 میں روزگار کے سلسلے میں سعودی عرب آ گیا اور جدہ کو اپنا مسکن بنایا۔ یہاں ہی سے عملی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ پہلے معروف کمپنی زاہد ٹریکٹر اینڈ ہیوی مشینری میں چارسال کام کیا پھراپریل 1980 میں سعودی وزارتِ دفاع و طیران المدنی۔ائرویزانجیئرنگ کی ٹیکنیکل پبلیکیشن لائبریری میں نوسال لائبریرین کی حثیت سے پھرمختلف شعبوں میں خدمات انجام دیتے ہوئے 2003 ملازمت سے فارغ ہوگئے۔ ملازمت کے ساتھ ساتھ فارغ اوقات میں صحافت اور کرکٹ کا شوق بھی بھرپورطریقہ سے پورا ہوتا رہا۔ الحمداللہ اب تک بہت اچھا وقت گزرا اورانشا اللہ آگے بھی باقی وقت اچھا گزرے گا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے میں کامیابی کے زینہ پر کھڑا ہوں۔
سوال: سامعین جاننا چاہیں گے کہ اپنے خوابوں کی سرزمین سعودی عرب کو اپ نے کن کن حوالوں سے دیکھا ؟ اور کیسا پایا ؟
جواب: سعودی عرب سب کے لئے خوابوں کی سرزمین ہے۔ بالخصوص مسلمانوں کے لئے نہ صرف خوابوں کی بلکہ دینی اور روحانی حوالے سے بھی خوابوں کی سرزمین ہے۔ سعودی عرب اسلامی تاریخ اورمقدس مقامات کے حوالے سے زیادہ معروف ہے، امن و امان کا گہوارا ہے،جب میں یہاں ایا تو جدید تعمیرو ترقی کے نئے دورکا آغازہورہا تھا۔ ملازمت کےمواقع بہت اور آسان تھے۔ دفاتر اور کمپنیوں میں مقامی لوگ بہت کم نظر آتے تھے۔ اس حوالے سے وہ دور فارنرز کے لئے بہت آئیڈیل تھا۔ سعودی نوجوان تعلیم کی طرف زیادہ رجحان رکھتے تھے۔ میرے مشاہدے میں یہ بات آئی کہ میں جس کمپنی میں تھا اس کا حارس ڈیوٹی کے بعد شام کی کلاسیں اٹینڈ کرتا تھا کہ ابتدائی کا سرٹیفکٹ مل جائے تو اس کی ترقی ہوجائے گی۔
سوال: یہاں آپ کے کام کا بڑا میدان صحافتی سرگرمیاں ہیں، اپ یہ کام ،سعودی گزٹ،اردو نیوز،اردو میگزین کے توسط سے کرتےرہے ہیں ، اس کا قصہ کیا ہے ,؟
جواب: صحافت ایک وسیع میدان ہے۔ جہاں معلومات کی ترسیل، عوامی مسائل کو اجاگر کرنا اور حقائق کی تحقیق بنیادی کام ہوتا ہے اور یہ کام سعودی گزٹ، اردو نیوز،اردو میگزین کے توسط سے خاص طورپر اردو بولنے والوں کےلئے بخوبی انجام دیتا اورمعلومات فراہم کرتا۔ چونکہ صحافتی سرگرمیاں کو میں اپنے فارغ اوقات میں کرنے کواہمیت دیتا تھا۔ لہذا ان ہی ذرائع سے میں اہنے دائرے میں رہتے ہوئے یہ اہم کردار ادا کرتا رہا۔
سوال: آپ کی پہچان پاکستانی میڈیا میں پاکبانوں کے شب وروز کی رپورٹنگ بھی ہے ، اس حوالے سے اپنی صحافتی سرگرمیوں کاتعارف کرائیں۔
جواب: یہ میرے لئےبڑا اہم اور دلچسپ سوال ہے۔ میں سعودی عرب میں مقیم اوورسیز پاکستانیوں کی ادبی، سماجی،ثقافتی اور کھیلوں کی سرگرمیوں کو اجاگر کرتے اور اسے کمیونٹی کے دیگر لوگوں سے متعارف کرنے کے لئے شب وروز محنت کرتا اور اپنی مصروفیات کے باوجود رپورٹنگ کو ترجیع دیتا تاکہ کمیونٹی تک جلد از جلد معلومات پہنچ جائے۔
سوال: سعودی صحافیوں سے ملنے جلنے کے مواقع حاصل ہوےہونگے , اس حوالے سے کیا بتائیں گے؟
جواب: سعودی عرب میں صحافت زیادہ تر ریاستی نگرانی میں ہوتی ہے۔ صحافیوں کوحکومت کے قوانین کی سخت پابندی کرنی ہوتی ہے۔ معاشرہ زیادہ روائتی اور مذہبی ہے اور یہ صحافت کے انداز پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔
سوال: سعودی عرب میں صحافت کی دنیا اور پاکستان میں صحافت کے ماحول میں کیا فرق ہے ؟
جواب: بہت بڑا فرق ہے۔ سعودی صحافیوں کے لئے صحافت کے کا ماحول پرسکون اور صاف ستھرا ہے جبکہ پاکستان میں صحافیوں کو دھونس، دھمکیوں اور جسمانی خطرات کا سامنا رہتا ہے۔
سوال: ایسوسی ایٹڈ پریس اف پاکستان کا اعزازی نمائندہ بنائےجانے پر مبارکباد قبول فرمائیں ،اس اعزاز کا قصہ کیا ہے ؟
جواب: مبارکباد کا شکریہ۔ یہ میرے لئے ایک اعزاز کی بات ہے۔ میں مشکور پریس قونصل جدہ محمد عرفان صاحب اور قونصل جنرل پاکستان جدہ جناب خالد مجید صاحب کا جنہوں نے سعودی عرب میں پاکستانی صحافت کا معیار بہترکرنے کےلئے میرے کام اور تجربہ کو دیکھتے ہوئے اے پی پی ادارے کو میرا نام تجویز کیا جسے ڈائریکٹر جنرل صاحب نے منظوری کرلیا۔
سوال: سعودی میڈیا ریگولیشن اتھارٹی کے یہاں رجسٹریشن کب ،کیسے ہوئی ؟
جواب: مختصراّ عرض ہےکہ جب میں 2020 میں سعودی گزٹ میں تھا تو سعودی میڈیا پرسن سینئرصحافی ڈاکٹر سمیرہ عزیزنے میری محنت اور تجربہ کو دیکھتے ہوئےآن لائن اپلائی کرنے کا مشورہ دیا تو میں آن لائن درخواست دی اورالحمداللہ فوراّ ہی میری رجسٹریشن منظور ہوگی۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریر، تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ bisaat.mag@gmail.com پر ای میل کردیجیے۔
error: