ابھی فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم پر اس کا ہاتھ روکنے اور اسے اوقات میں رکھنے کی ضرورت پر باتیں ہورہی تھیں کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ہلہ شیری اور دھمکی آمیز بیانات کے ساتھ ہی اسرائیل نے بھی ایران کو دھمکیاں دینا شروع کیں، اور ایران نے بھی براہ راست امریکا کو دھمکیاں دیں اور اسرائیل کو بھی متنبہ کیا ،اور پھر تیزرفتاری سے اسرائیل نے حملہ بھی کردیا ، توقع کی جارہی تھی کہ ایران بیان بازی اور اب کے مار کے دیکھ ، والا مسلم حکمرانوں کا رویہ اختیار کرے گا اقعام متحدہ اور او آئی سی کی طرف دیکھے گا لیکن ایران نے اسرائیل اور دنیا کو وہ منظر دکھادیا جو دنیا عرصے سے دیکھنا چاہتی تھی ، تل ابیب میں اگ اور بارود کی بارش نے اسرائیل کو غیر متوقع طور پر ہلا کر رکھ دیا، یہی کام امریکا کے ساتھ بھی ہوا ۔
اس سارے معاملے پر غور کیا جائے تو صاف نظر آرہا ہے کہ ایران پر اسرائیلی حملے کا مقصد اسے تباہ کرنا یا اس پر قبضہ کرنا نہیں تھا بلکہ اصل مقصد بھی ڈونلڈ ٹرمپ نے واضح کردیا کہ امریکا اور اسرائیل کا اصل مقصد ایران میں اپنے مطلب کی قیادت لانا ہے ،یہ رجیم چینج امریکا کا مرغوب مشغلہ ہے ،چنانچہ ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو راستے سے ہٹانے کا کھلم کھلا دہشت گردانہ اعلان کردیا گیا ۔ یہ اعلان کرکے ٹرمپ نے دہشت گردی کا ارتکاب کیا ہے کھلم کھلا قتل کی دھمکی دی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ایرانی انقلاب کے بعد سے جو نظام وہاں رائج ہے اس میں کسی بیرونی مداخلت کا بہت کم امکان ہے ،لیکن سازشی عناصر اپنے منصوبے بناتے رہتے ہیں ، اب یہ منصوبہ بنایا گیا ہے کہ سابق ایرانی بادشاہ رضا شاہ پہلوی کے بیٹے کو تاریخ کے کچرے سے کھود کر نکالا گیا ہے۔
امریکا، اسرائیل اور یورپی طاقتیں کئی برسوں سے ایران میں تبدیلی کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کر رہی ہیں جس میں انہیں مختلف سیاسی، لسانی اور نسلی گروہوں کی حمایت حاصل ہے ۔
تبدیلی کا محور بنائے جانے والے امریکا میں مقیم شہزادہ رضا پہلوی خود کو ایک سیکولر اور جمہوری ایران کا علمبردار قرار دیتے ہیں۔ان کی پشت پر کئی یورپی تنظیمیں اور امریکا واسرائیل ہیں۔اس کے علاوہ
ایران کے اندر مریم رجاوی کی زیر قیادت مجاہدین خلق (ایم ای کے) ہے، ماضی میں عسکری کارروائیوں کے حوالے سے متنازع جانی جانے والی یہ تنظیم آج کل ایک منظم سیاسی و سفارتی مہم چلا رہی ہے۔ امریکہ اور یورپ میں انہیں خاصی پذیرائی حاصل ہے، تاہم ایران کے اندر ان کی عوامی مقبولیت نہیں ہے۔
ایک اور دھڑا ایران میں شاہی نظام کی آئینی بحالی کے حق میں سرگرم ہے۔ اس کا نام کانسٹیٹیوشنلسٹ پارٹی ہے، تاہم ایران کے اندر اس گروہ کا بھی سیاسی اثر محدود ہے، یہ بھی یورپ میں سرگرم ہے۔ غرض ایران میں قیادت کی تبدیلی کے لئیے دو ہی راستے ہیں یا تو وہاں ولایت فقیہہ کا نظام بدل دیا جائے ،یا ایرانی علما میں امریکی اور مغربی خیالات والے علما شامل کرکے رفتہ رفتہ تبدیلی پیدا کی جائے ،لیکن امریکا یہ ٹرین بھی مس کرچکا ،اگر وہ احمدی نجات کے وقت کچھ منصوبہ بناتا جنہیں اصلاح پسند سمجھا جاتا تھا تو ممکن ہے کہ آج کچھ تبدیلی ہوجاتی لیکن فی الحال سوائے کچھ بے چینی اور اور انتشار پیدا کرنے کے کچھ نہیں ہوسکے گا۔خدانخواستی علی خامنہ ای کو راست سے ہٹا بھی دیا گیا تو ایرانی نظام پہلے سے سخت موقف والا لیڈر چن لے گا۔
اسرائیل امریکا گٹھ جوڑ کے مقاصد کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ اس کا مقصد یہ ہے کہ ایران میں امریکا واسرائیل نواز حکومت قائم کی جاسکے۔ تاکہ چین اور پاکستان کے سر پر امریکی اڈا موجود ہو اور یہاں سے،عرب دنیا اور ترکی کو بھی کنٹرول کیا جاسکے، لیکن ایران کے زوردار جواب کے نتیجے میں ایسے کسی منصوبے پر عمل کا امکان معدوم ہوگیا ہے ،اب یہ لوگ صرف شرارت ہی کرسکتے ہیں ۔
امریکا کا اصل منصوبہ تو خود رضا پہلوی نے سامنے رکھ دیا۔ رضا پہلوی نے دعویٰ کیا ہے کہ ملک فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکا ہے اور موجودہ نظام کے خاتمے کے بعد عبوری حکومت کا خاکہ تیار کر لیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے کنٹرول کھو دیا ہے اور اسلامی جمہوریہ ایران کا خاتمہ قریب ہے۔ ٹوئٹر پر جاری ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ ایرانی عوام کو اسلامی جمہوریہ کے خاتمے کے بعد کے دور سے متعلق فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں، کیونکہ ایک مکمل منصوبہ تیار ہے۔ خامنہ ای کے بعد ملک میں 100 دن کی عبوری حکومت قائم کی جائے گی، جس کے بعد قومی جمہوری حکومت کی تشکیل عمل میں لائی جائے گی۔ عبوری دور کے لیے تمام انتظامات مکمل کر لیے گئے ہیں تاکہ ملک کو استحکام کی راہ پر ڈالا جا سکے۔
انہوں نے فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے اپیل کی کہ وہ ایسی حکومت کی حمایت نہ کریں جو عوام میں اپنی ساکھ کھو چکی ہے اور جس کا انجام قریب ہے۔
یہ بیان ظاہر کررہا ہے کہ امریکا اسرائیل منصوبہ کیا تھا۔ لیکن ایرانی جوابی کارروائی نے اسے ناکام بنادیا۔امریکا اسے موخر سمجھ رہا ہے۔
اسی دوران ایران پر امریکی حملے کی بات بھی کی گئی تھی لیکن ایران کے دوٹوک جواب اور اسرائیل میں کارروائیوں نے امریکا کو اس کی ہمت کرنے سے روک دیا ۔ان حالات میں خطے کی صورتحال اور پاکستان کی پوزیشن بھی زبان زدعام ہے،اس تناظر میں پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کادورہ امریکا بڑا اہم سمجھا جارہا ہے اس دورے کے حوالے سے پاکستانی حکومت اور فوج مخالف حلقوں میں تو یہی کہا جارہا ہے کہ پاکستان کو امریکا کوئی نیا ہدف دینےوالا ہے ،لیکن اس دورے کے ساتھ ہی کچھ اشارے ملے ہیں مثال کے طور پر امریکا نے ایران پر براہ راست حملے کا ارادہ موخر کردیا ہے۔بظاہر یہ خبر سفارتی ہے اور سفارتی خبروں کا معاملہ بھی کچھ یوں ہوتا ہے کہ جب کبھی دو دشمن ملکوں کے حکام یا حاکم و محکوم ملک کے حکام ملاقات کرتے ہیں تو خبر یوں ہی نشر ہوتی ہے کہ،دونوں رہنماوں نے نہایت خوشگوار ماحول میں ملاقات کی،دوطرفہ تعلقات کو مزید فروغ دینے پر اتفاق کیا گیا اورتنازعات کو افہام وتفہیم سے طے کرنے کا فیصلہ کیا گیا ، ملاقات انتہائی خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ وغیرہ وغیرہ۔ خواہ ملاقات میں ایک دوسرے کے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجادینے کی باتیں ہوئی ہوں یا یہ پوچھا گیا ہو کہ بتاو دوست ہو یا دشمن ۔ ابھی بتاو۔ لیکن سفارتی بیان ایسا ہی جاری ہوتا ہے اس لئیے آگے کے اقدامات سے اندازہ لگایا جاتا ہے کہ بات ہوئی کیا تھی۔ اس مرتبہ آئی ایس پی آر نے بیان جاری کیا ہے،بیان یوں ہے!!
“ترجمان پاک فوج کے مطابق امریکا کی طرف سے ملاقات میں صدر ٹرمپ کے ساتھ سیکرٹری خارجہ مارکو روبیو اور خصوصی نمائندہ برائے مشرق وسطیٰ اسٹیو ویٹکوف بھی موجود تھے۔ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کے ساتھ نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر اس ملاقات میں شریک تھے ۔
فیلڈ مارشل نے پاکستان اور پاکستانی عوام کی جانب سے پاک بھارت کشیدگی کے بعد جنگ بندی میں مثبت اور نتیجہ خیز کردار ادا کرنے پر صدر ٹرمپ کا شکریہ ادا کیا ۔
انہوں نے صدر ٹرمپ کی اقوام عالم کو در پیش متعدد چیلنجز کو سمجھنے اور اُن سے نبرد آزما ہونے کی قائدانہ صلاحیتوں کی تعریف کی جب کہ صدر ٹرمپ نے پاکستان اور امریکا کے درمیان انسداد دہشت گردی کے حوالے سے جاری تعاون اور خطے میں پاکستان کی قیام امن کی کوششوں کو سراہا۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق صدر ٹرمپ کے ساتھ فیلڈ مارشل کی ایران اسرائیل تنازع پر بھی تفصیلی گفتگو ہوئی۔ صدر ٹرمپ نے فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی قائدانہ اور فیصلہ کن صلاحیتوں کو سراہا۔
فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے صدر ٹرمپ کو حکومت پاکستان کی جانب سے دورۂ پاکستان کی دعوت بھی دی۔ پہلے سے طے شدہ ایک گھنٹہ دورانیہ کی یہ اہم ملاقات 2 گھنٹے تک جاری رہی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کے درمیان ہونے والی یہ اہم ملاقات پاکستان اور امریکا کے درمیان دیرینہ شراکت داری کو مزید مضبوط بنانے کے لیے ایک اہم پیشرفت ہے، جس کی بنیاد مشترکہ مقاصد،امن، استحکام اور خوشحالی پر رکھی گئی ہے””
اس بیان میں بھی سب اچھا ہی ہے اور اللہ کرے یہ محض سفارتی زبان والا بیان نہ ہو بلکہ حقیقتا ایساہی ہو۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ ایران اسرائیل جنگ میں کیا موڑ آتا ہے ،پاکستان ایران کے ساتھ کیا رویہ رکھتا ہے ،کیا وہاں رجیم چینج میں پاکستان بھی اپنا حصہ ڈالے گا،کیا اسرائیل کو خطے میں قدم جمانے کا موقع مل جائے گا؟؟ ان تمام سوالات کا جواب آنے والا وقت دے گا۔
فی الحال ایرانی جوابی حملوں نے مشرق وسطی کی سیاست میں ہلچل مچادی ہے ،جس طرح حماس کے سات اکتوبر کے حملوں نے پورے مشرق وسطی کی سیاست پلٹ دی تھی اور آج تک یہ مخالف سمت میں چل رہی ہے، اور اسرائیل سے سفارتی تعلقات کو تیار ممالک کو بریک لگ گیا تھا ، اسی طرح ایران کے خلاف محاذ بنانے والے،عرب وعجم کی تفریق پر تعلقات بنانے بگاڑنے والے ممالک امریکا کو کھربوں ڈالر دینے والے ممالک بھی ایران کی حمایت اوراسرائیل کہ مذمت میں بیان دینے پر مجبور ہوگئے ہیں ۔امریکا کی جانب سے رجیم چینج کا منصوبہ بھی ناکام ہوتا نظر ارہا ہے ،اس ساری صورتحال کو تماشے کے طور پر دیکھنے کے بجائےاسلامی ممالک کو مشترکہ متحدہ حکمت عملی اختیار کرنی ہوگی ورنہ ایک ایک کرکے سب کی باری آئے گی ۔خصوصا پاکستان کو وہی رول اختیار کرنا ہوگا جو اس نے افغانستان پر روسی جارحیت اور امریکی قبضے کے دوران اختیار کیا پاکستان کے پڑوس میں اسرائیل و امریکا کی پٹھو حکومت کسی طور بھی پاکستان کے لئیے سود مند نہیں ہوگی، خواہ اس کام کے عوض کھربوں ڈالر مل جائیں، ایسے خطرات کو سرحدوں سے دور رکھنا ہی بہتر ہوگا۔
ایران نے خِطے کی سیاست پلٹ دی
