جب ترک رکن پارلیمنٹ علی شاہین نے کہا کہ “اسلام آباد ترکیہ کی ریڈ لائن ہے اور انقرہ کی سکیورٹی اسلام آباد سے جڑی ہے” — تو یہ صرف ایک جملہ نہیں، بلکہ 21ویں صدی کی مسلم عالمی سیاست کا ایک نئی سمت میں بڑھتا اشارہ تھا۔
یہ بات علی شاہین نے ترکیہ کے معروف نیوز چینل چینل 24 (Kanal 24) کو دیے گئے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کہی، جو اس وقت ترکیہ اور پاکستان دونوں میں وسیع پیمانے پر زیر بحث ہے۔
■ ترکیہ کا نیا دفاعی بیانیہ
ترکیہ کے سینئر پارلیمنٹیرین اور اسلامی جغرافیے کے پرجوش وکیل علی شاہین کے اس بیان سے واضح ہوتا ہے کہ انقرہ اب اپنی سلامتی کو محدود جغرافیہ کے بجائے امت مسلمہ کی مشترکہ حفاظت سے جوڑ رہا ہے۔
انہوں نے نہ صرف اسلام آباد کو سکیورٹی فرنٹ لائن قرار دیا، بلکہ یہ بھی باور کرایا کہ پاکستان کی سرحدیں ترکیہ کے لیے اسی طرح اہم ہو گئی ہیں جیسے اپنی داخلی سرحدیں۔
یہ نظریہ کوئی اتفاقی سوچ نہیں، بلکہ ایک بڑی اسٹریٹیجک تھنکنگ کا حصہ ہے۔ ایک ایسا دفاعی بیانیہ جس میں ترکیہ اپنے جغرافیائی تحفظ کو خلیج، مشرق وسطیٰ، قفقاز، اور جنوبی ایشیا کے ساتھ جوڑ کر دیکھ رہا ہے۔
■ پاکستان: مسلم دنیا کی آخری دیوار
علی شاہین نے نہایت واضح الفاظ میں کہا کہ:
“ایران کی جوہری صلاحیت ابھی مبہم ہے، لیکن پاکستان ایک مکمل ایٹمی طاقت ہے اور یہی بات اسرائیل کو سب سے زیادہ کھٹکتی ہے۔”
اس بیان سے دو باتیں سامنے آتی ہیں:
- اسرائیل کی اسٹریٹیجک پریشانی پاکستان سے وابستہ ہے، نہ کہ ایران سے؛
- پاکستان اب بھی اسلامی دنیا کی دفاعی دیوار تصور کیا جا رہا ہے۔
یہ وہی سوچ ہے جو 1970 کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو نے ظاہر کی تھی: “ہم گھاس کھا لیں گے مگر ایٹم بم بنائیں گے۔”
اور آج، وہی ایٹمی صلاحیت امت مسلمہ کے لیے تحفظ کی علامت بن چکی ہے۔
■ اسرائیل کا خوف اور اسلامی خودمختاری
ترک رہنما نے ایک اور تلخ سچائی کی جانب بھی اشارہ کیا کہ اسرائیل کا اصل ایجنڈا تمام مسلم عسکری اور ایٹمی قوتوں کو غیر مؤثر کرنا ہے۔
یہ بات فلسطین، لبنان، شام، لیبیا، سوڈان، ایران اور اب ممکنہ طور پر پاکستان کے حوالے سے اس کی پالیسیوں سے ثابت ہو چکی ہے۔
علی شاہین کا یہ بیان دراصل ایک عالمی انتباہ بھی ہے — کہ اگر مسلم ممالک نے اب بھی متحدہ دفاعی پالیسی نہ اپنائی، تو اسرائیل اور اس کے مغربی اتحادی، مسلم دنیا کو خطوں میں بانٹ کر کمزور کرتے رہیں گے۔
■ ترکیہ-پاکستان: اتحاد کا فطری رشتہ
ترکیہ اور پاکستان کی دوستی صرف اسٹریٹیجک نہیں، بلکہ تاریخی، روحانی اور ثقافتی بنیادوں پر قائم ہے۔
جنگِ آزادی میں ترکیہ کے لیے برصغیر کے مسلمانوں کی مدد ہو، یا موجودہ دور میں ترکیہ کا کشمیر پر موقف، یا پاکستان کی جانب سے آذربائیجان، شام، فلسطین کے حوالے سے کردار — یہ تمام عناصر ایک فطری اتحاد کو جنم دیتے ہیں۔
اب علی شاہین جیسے رہنماؤں کے بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ترکیہ اب اس دوستی کو دفاعی سٹیج پر منتقل کرنا چاہتا ہے۔
■ عالمی سیاست میں ایک نیا موڑ
علی شاہین کے بیان کے دو بنیادی مقاصد نظر آتے ہیں:
- پاکستان کو یہ باور کرانا کہ ترکیہ اس کے ساتھ کھڑا ہے، حتیٰ کہ اپنی سلامتی بھی اس سے جوڑ چکا ہے؛
- اسلامی دنیا کو بیدار کرنا کہ اگر وہ اب بھی متحد نہ ہوئے، تو ان کے ایٹم بم، فوجی قوتیں، اور سیاسی آزادی سب ایک ایک کر کے ختم کر دی جائیں گی۔
یہ بیان ایک نئے اسلامی سکیورٹی معاہدے کی ضرورت کو بھی اجاگر کرتا ہے — جس میں ترکیہ، پاکستان، ایران، سعودی عرب، قطر، آذربائیجان، ملیشیا اور دیگر مسلم ممالک ایک مشترکہ عسکری ڈھانچہ قائم کریں۔
■ نتیجہ: صرف دوستی نہیں، دفاعی برادری
علی شاہین کے بیان نے واضح کر دیا ہے کہ ترکیہ اب پاکستان کو صرف دوست یا بھائی نہیں، بلکہ خود اپنی سلامتی کا ضامن سمجھتا ہے۔
یہ بیانیہ نہ صرف عالم اسلام کے اتحاد کی امید جگاتا ہے بلکہ اسرائیل جیسے جارح ممالک کے عزائم کے سامنے ایک سنجیدہ دفاعی رخ قائم کرتا ہے۔
اگر اس جذبے کو ریاستی پالیسی میں ڈھال لیا جائے، تو وہ دن دور نہیں جب مسلم دنیا صرف ماضی کے تذکروں کی نہیں، بلکہ مستقبل کی عالمی طاقتوں میں گنی جائےگی۔