Advertisement

قوم کی ماں| وفات کا تیسرا سال!

وہ سنیچر کا دن تھا اور تاریخ 2 جولائی، 2022 ء تھی جب قوم کی بیٹیوں ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی والدہ عصمت صدیقی کی وفات ہوئی تھی۔میرا ڈیڑھ دہائی سے کچھ زیادہ عرصہ سے اس خاندان سے تعلق رہا ہے۔ جس طرح اس خاندان کی ایک بے گناہ اور معصوم بیٹی ڈاکٹر عافیہ کو اس کے تین کمسن بچوں سمیت اغواء کر کے امریکی حکام کے حوالے کیا گیا ہے وہ پاکستان کی تاریخ کا ہی نہیں ، اسلامی بلکہ دنیا کی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے۔ اغواء کے بعد پانچ سال تک لاپتہ رکھنا اور پھر امریکی عدالت میں مضحکہ خیز طریقے سے مقدمہ چلانا اور پھر جج کا دفاع کا قانونی حق چھین کر چھیاسی سال کی ظالمانہ سزا سنانا ، یہ امریکہ ہی نہیں دنیا کی عدالتی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے۔
عصمت صدیقی ، اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے، وہ حقیقت میں صبر و استقامت کا پہاڑ تھیں۔ انہوں نے اپنے بچوں کی اعلیٰ تربیت کے ساتھ ساتھ انتہائی مصروف سوشل زندگی گزاری جس کا ایک اہم پہلو یہ تھا کہ انہوں نے آخر وقت تک اپنی ذات سے اللہ کی مخلوق کو فائدہ پہنچانے کا فریضہ سرانجام دیا۔ اگرچہ انہوں نے اپنی زندگی کے آخری 19 سال جس دکھ اور کرب میں گزارے اسے لفظوں میں بیان کرنا ہرگز ممکن نہیں ہے۔ مگر پھر بھی ان کی زبان سے کھبی نہ تو شکوہ، نہ ہی مایوسی اور نہ ہی کبھی باغیانہ خیالات کا اظہار ہوا۔ ہمیشہ لبوں پر دعا کہ اللہ تعالیٰ حکمرانوں کو عافیہ کو واپس لانے کی توفیق نصیب فرمادے۔وہ صبرواستقامت کے ساتھ خودداری کا پیکر بھی تھیں۔وہ اکثر یہ اشعار سنایا کرتی تھیں’’جھک کر سلام کرنے میں کوئی حرج نہیں مگر… اتنا نہ سر جھکاؤ کہ دستار گر پڑے…دشمن بڑھائے ہاتھ تو تم بھی بڑھاؤ ہاتھ… ہاں! یہ نہ ہو کہ ہاتھ سے تلوار گر پڑے‘‘۔صبرو استقامت اور خودداری کا یہ سلسلہ رکا نہیں ہے، اب یہ فریضہ ان کی بڑی صاحبزادی ڈاکٹر فوزیہ صدیقی سرانجام دے رہی ہیں۔
میں خود کو اس قابل نہیں سمجھتا کہ ان کی شخصیت پر کچھ لکھ سکوں مگر حجت بھی تو قائم کرنا ہے تاکہ روز محشر کوئی یہ عذر پیش نہ کر سکے کہ ’’یا الٰہی ہمیں تو خبر ہی نہ تھی‘‘۔ہاں اتنا ضرور کہوں گا کہ اگر کسی کو سورہ یوسف کی تفسیر کا عملی نمونہ آج کے دور میں دیکھنا ہو تو وہ اس خاندان پر ڈھائے جانے والے مصائب کو دیکھ لے۔ اپنی سوانح حیات لکھتے وقت بھی انہوں نے ’’ شکوہ، مایوسی اور باغیانہ خیالات‘‘ کو کبھی اپنے قریب پھٹکنے بھی نہیں دیاتھا۔مجھے ان کی سوانح حیات کو مرتب کرنے میں بہت معمولی سا حصہ ڈالنے کی کچھ سعادت ضرور نصیب ہوئی ہے جو کہ ان کی اچانک وفات کے باعث اب تک شائع نہیں ہو سکی ہے۔ ان کی غیر مطبوعہ سوانح حیات میں سے درج ذیل میں کچھ اقتسابات ملاحظہ فرماکر ان کی عظمت کا اندازہ لگائیں۔ میری آپ سے گزارش ہے کہ ان کی مغفرت و درجات کی بلندی ، ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی صحت، ہمت و استقامت اور ڈاکٹر عافیہ کی جلد رہائی کے لیے دعا ضرور کیجئے گا۔
اقتسابات:’’پاکستان کی ابتداء میںجائیداد کی خرید و فروخت کا یہ قانون تھا کہ آپ مکان فروخت کرسکتے ہیں لیکن خالی قطع زمین کسی کو ٹرانسفر نہیں کرسکتے تھے۔ میری امی جان نے ہم سب سے پہلے پاکستان آنے والے بڑے بھائی جان کو گھر لینے کے لیے پیسے بھی بھیجے تھے۔ کے ڈی اے اسکیم ون میں ایک جگہ زمین کا سودا اور ادائیگی کر کے اس پر مکان کی تعمیر بھی شروع کردی تھی مگر مکان کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد چونکہ وہ زمین بھائی کے نام ٹرانسفر نہیں ہوئی تھی ، اس قانون کے باعث زمین کے مالک نے فائدہ اٹھایا اور مکان تعمیر ہونے کے بعد ہمیں دھوکہ دے کرہمارا تعمیر کردہ مکان کسی اور کو فروخت کر کے ملک سے فرار ہو گیا۔ تب ہمارے انڈیا سے پاکستان آ جانے پر بھائی جان نے ناظم آباد میں مکان کرایہ پر لیا۔
اصل سرمایہ لٹ گیا: آج میں سوچتی ہوں کہ ہمارا سب سے بڑا سرمایہ عزت ہی تو تھا۔ یہ آزاد وطن جو ہماری آبرو محفو ظ رکھنے کے لئے وجود میں آیاتھا، افسوس ! اس دیس کے حکمرانوں کے ہاتھوں ہمارا یہ سرمایہ لٹ گیا ۔ پاکستان کی بیٹی عافیہ کو غیروں کے حوالے کردیا گیا ۔ہمارے خاندان کو جاننے والے آج بھی جب اعتراف کرتے ہوئے ہمیں کہتے ہیں کہ آپ کے خاندان نے پاکستان کے لئے مال وجائیداد کی لازوال قربانیاں دیں تو میں یہی سوچتی ہوں کہ کاش میری عافیہ واپس آجائے تو ہمیں اپنی جاگیریں اوراپنا سرمایہ سب واپس مل جائے گا۔(بے مروت، بے وفا تیرا بھی کیا افسانہ ہے … جس نے اپنی ہی شمع کو گُل کیا تو وہ پروانہ ہے)
عافیہ کی جدائی میں گذرے ہوئے اٹھارہ برس ایسی چیز نہیں تھی کہ میں برداشت کرجاتی، عافیہ پر ایسے ایسے مظالم سنے کہ زمین و آسمان لرز جاتے اور مجھ پر کب کا ہارٹ اٹیک ہوجاتا لیکن یہ قرآن ہی ہے جس نے آج تک میری یہ ہمت ٹوٹنے نہیں دی۔
یہی عافیہ کی سوچ بن گئی: میری ماںنے پاکستانی ہونے پرفخر کرنا ہماری سرشت میں شامل کردیاتھا۔ میرے شوہر جو تحریک علی گڑھ کے سرگرم رکن رہے تھے۔محب وطن اور سچے پاکستانی تھے، بیٹی عافیہ کو بھی ہم دونوں سے یہی میراث ملی۔ امریکہ میں رہنے کے باوجودعافیہ نے امریکی شہریت حاصل نہیں کی۔ وہ امریکہ سے حاصل کردہ تعلیم پاکستان کے لیے استعمال کرناچاہتی تھی۔ وہ یہ بھی چاہتی تھی ملک میں ایسا تعلیمی نظام برپاکرے اورایسے ادارے قائم کرے جو ہماری نوجوان نسل کی تعلیم ان خطوط پر استوارکرسکیں کہ وہ دنیا کے کسی بھی ترقی یافتہ ادارے کے ہم پلہ ہوں بلکہ ہر نوجوان خود کو’’فخرپاکستان‘‘ کہلوائے۔ بدقسمتی سے عافیہ کی یہ ترقی پسند سوچ، پاکستان مخالف قوتوں کو ایک آنکھ نہ بھائی۔ اسے اس کے بنائے گئے تعلیمی منصوبے کے لیے سہولتیں دینے کی بجائے میری بچی کو اغواء کرلیاگیا اور غیروں کے حوالے کردیا گیا۔
آنکھوں کے تارے: میری آنکھوں کے تارے میرے بچے محمد علی ،فوزیہ اور عافیہ ۔ان تینوں نے ہم ما ں باپ کی آنکھوںمیں سجے خوابوں کو تعبیر دی۔ بیٹا محمد علی آرکیٹکٹ بنا،امریکہ میں اپنے ہنروصلاحیتوں سے ایک عالم کو گرویدہ کیا،پاکستان کے اس ہونہار بیٹے نے نامور بین الاقوامی خلائی سائنسی ادارے ’’ناسا‘‘ میں خدمات انجام دی ہیں ۔بڑی بیٹی فوزیہ صدیقی نے والد کی پیروی میں میڈیکل لائن اپنائی اوراب وہ ملک و بیرون ملک کے معروف نیوروفزیشنز اور ماہر امراض مرگی میں شمار کی جاتی ہے۔فوزیہ ، عافیہ کے اغواء کے بعد اپنا مستقبل اور ترقی کے شاندار مواقع چھوڑ کر پاکستان آگئی ہے اور عافیہ موومنٹ کی روح رواں ہے۔ ہماری سب سے چھوٹی لاڈلی عافیہ صدیقی نے ایم آئی ٹی گریجویٹ بن کر نیوروسائنسزمیں پی ایچ ڈی کیا ،40 سے زائد عالمی ایوارڈز حاصل کیے ۔ میرے بچوں نے دنیا کے نامور اورجدید ترین تعلیمی اداروں سے ڈگریاں حاصل کیںلیکن انہوں نے اپنے برتائو سے کبھی میری تربیت کو شرمندہ نہیں ہونے دیا۔عافیہ پر جو کچھ بیت رہی ہے اس پر تو الگ سے ایک نہیں کئی کتابیں آسکتی ہیں اور یہ ایسی داستان ہے کہ تاریخ کا حصہ بن کر کبھی ختم نہ ہوگی۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریر، تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ bisaat.mag@gmail.com پر ای میل کردیجیے۔
error: