گزشتہ دنوں اسرائیل نے ایران پر اچانک حملہ کردیا ، یہ اچانک بھی نہیں تھا متوقع تھا، لیکن اس کے اصل مقاصد کیا ہیں ، کیا اسرائیل ایران کو ختم کرسکے گا ،اس کا جواب نہیں میں ہے،تو کیا قیادت تبدیل ہو جائے گی ؟ اس کا جواب بھی یہی ہے کہ یہ تقریبا ناممکن ہے۔اگر غور کریں تو اسرائیل نے فلسطینیوں کے خلاف اپنے مظالم پر بڑھتے ہوئے عالمی ردعمل کا رخ موڑنے کی کوشش کی ہے۔اخوان کے قائم مقام مرشد عام ڈاکٹر صلاح عبدالحق نے ایرانی رہبر کے نام اپنے پیغام میں کہا ہے کہ یہ اسرائیلی جارحیت دراصل فلسطین کے خلاف جاری ظلم و ستم کا نیا مرحلہ ہے، جس کا مقصد ایران کو اس لیے نشانہ بنانا ہے کیونکہ ایران فلسطینی مزاحمت (حماس، جہاد اسلامی وغیرہ) کی سیاسی، عسکری اور نظریاتی حمایت کرتا ہے۔اب یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ اسرائیل اپنے اس جارحانہ عمل کے پیچھے دو مقاصد رکھتا ہے:
1 فلسطینی مزاحمت کو ختم کرنا
2 مشرق وسطیٰ میں چوٹی کی طاقت بن کر ابھرنا، تاکہ دیگر مسلم طاقتوں کو کمزور کیا جائے۔ دوسری طرف یہ حقیقت بھی واضح ہے کہ اسرائیل کو اس مہم میں امریکا اور مغرب کی کھلی حمایت حاصل ہے، خاص طور پر 7 اکتوبر 2023 کو غزہ میں شکست کے بعد۔ اسی لیے نتن یاہو کی انتہا پسند حکومت کو ہر طرح کی چھوٹ دی گئی ہے تاکہ وہ کسی بھی حد تک جا کر “اپنا کھویا ہوا تحفظ” بحال کرے،ان حالات میں پوری مسلم امہ کے سربراہوں کو متفقہ لائحۂ عمل بنانا ہوگا کہ امت مسلمہ ایک ہے — دینی، روحانی، تہذیبی اور جغرافیائی لحاظ سے بھی۔ دشمن کی گولیاں نہ نسل کو دیکھتی ہیں، نہ فقہ کو، بلکہ صرف اسلام دشمنی ان کا ایجنڈا ہے۔ لہذا عرب وعجم ،شیعہ سنی،و دیگر مسالک کی تفریق مٹانا ہوگی۔ فلسطین کی مزاحمت کو ختم کرنے کی اسرائیلی کوشش اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک وہ اس کے حامی مراکز کو ختم نہ کرے — چاہے وہ ایران ہو یا اسلامی تحریکیں، لہذا تمام اسلامی تحریکیں بھی متفقہ لائحۂ عمل تیار کریں،انہیں بھی اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہماری دشمن صرف اور صرف صہیونی ریاست ہے۔ اور ہمارا سب سے بڑا ہتھیار ہے:
امت کی وحدت
ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ:
آپس کے اختلافات بھلا کر ماضی کی تلخیوں کو نظرانداز کرکے مشترکہ دشمن کے خلاف ایک متفقہ حکمتِ عملی تیار کریں۔ورنہ صیہونیت ہر ایک کو دبوچ لے گی۔
آج فلسطین، لبنان، یمن اور ایران میں جو قربانیاں دی جا رہی ہیں، وہ ہمیں مجبور کرتی ہیں کہ ہم امت کی صفوں کو جوڑیں، لڑائیوں کو ترک کریں، اور ایک عظیم اسلامی اتحاد قائم کریں۔
امت مسلمہ کوئی خواب نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے — جو ایک مقدس پیغام، ایک الہامی وحی، اور ایک عظیم تہذیب پر مبنی ہے، جسے مختلف نسلوں کے مسلمانوں نے مل کر تعمیر کیا۔اسے نہ کوئی فقہی اختلاف جدا کر سکتا ہے، نہ کوئی مسلکی فرق۔ محبت، بھائی چارے اور اتفاق کی بنیاد پر اختلافات کو مٹانا چاہیے ۔
ہمیں یقین ہے کہ ایک دن ایسا آئے گا جب یہ مسلکی اور نظریاتی دیواریں ختم ہو جائیں گی، اور صرف محمدی صف باقی رہے گی:
O صرف ایسے مسلمان، جو اللہ کے لیے کام کرتے ہیں،
O دین کے لیے جیتے ہیں، اور
O راہِ خدا میں جہاد کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’جو اللہ، اس کے رسول اور ایمان والوں کے ساتھ ہوں، وہی تو اللہ کی جماعت (حزب اللہ) ہے اور وہی غالب آئیں گے۔‘‘
(المائدہ: 56)
اسرائیلی جارحیت کے پیچھے کیا ہے؟
