Advertisement

کیا صرف ٹرین اغوا ہوئی ہے

پاکستان میں اغوا برائے تاوان کا دھندا تو پرانا ہے اور بہت چلتا ہے بلکہ اب حکومت نے بھی اعتراف کیاہے کہ یہ کامیاب بزنس بن گیا ہے، لیکن انسانوں کے علاوہ کچھ ایسی چیزیں بھی اغوا ہوجاتی ہیں جن کا تذکرہ اس حوالے سے نہیں ہوتا ، بلکہ اسے اغوا تسلیم ہی نہیں کیا جاتا اسے تو قابل فخر قرار دیا جاتا ہے۔ اس ملک کا ہر ادارہ اغوا ہوچکا ہے ، لیکن پھر بھی اسے ادارہ کہنے پر اصرار کیا جاتا ہے ۔
مارچ کے وسط میں بلوچستان میں جعفر ایکسپریس کے اغوا کی خبر آئی تو بالکل حیرت نہیں ہوئی کیونکہ یہاں تو ہر چیز اغوا شدہ نظر آرہی ہے کون سی چیز ہے جو اغوا نہیں ہوئی،پارلیمنٹ، ائین ، عدلیہ،سیاسی پارٹیاں، سیاسی لیڈر ،اور ہاں ، سب کے اغوا میں آلہ کار بننے والا میڈیا ۔ سب کچھ تو اغوا ہوچکا ہے، ابھی زیادہ دن تو نہیں گزرے ایک الیکشن ڈراما ہوا تھا ،ڈراما کیا تھا اب تک ٹراما بنا ہوا ہے ۔میڈیا کے ذریعہ عوام کے ذہن اغوا کئیے جارہے ہیں سوشل میڈیا کے ذریعہ نوجوانوں کے ذہن اغوا ہورہے ہیں ، چونکہ( مرکزی دھارے کے) مین اسٹریم میڈیا میں اتنا جھوٹ بولا گیا ہے کہ اب سوشل میڈیا کے جھوٹ کو لوگ سچ سمجھنے لگے ہیں ،اور اس نے مزید تباہی پھیلادی ہے ۔سوشل میڈیا سے سچ کو چھان کر نکالنا بھی ایک مشکل مرحلہ ہے اور وہ بھی اس صورت میں کہ کوئی حق کا متلاشی ہو ،ورنہ جو پوسٹ دل کو بھا گئی وہ سچ تصور کی جائے گی،کیونکہ اس میں میرے موقف کو فائدہ ہے۔ اسی وجہ سے نہیں اسی نام پر پیکا ایکٹ لایا گیا ہے ۔ لیکن قانون پر قانون لانے سے کیا فرق پرتا ہے ،قوم کا ضمیر اغوا ہوچکا قومی سوچ اغوا ہوچکی نظریہ پاکستان اغوا ہوچکا، تو قوانین کی بھرمار سے کیا ہوگا۔
اب ذرایہ دیکھتے ہیں کیا کیا اغوا ہو چکا ہے، 1977میں پولیٹکل سائنس کے ایک استاد محترم فقیر محمد نذیرنے ایک دن بتایا کہ 1956 کے دستور کااصل مسودہ اغوا ہوچکا ہے ۔ بیان کیا جاتا ہے کہ 1962 میں کراچی سے دارالحکومت اسلام آباد منتقل ہوا تو بہت سارا ریکارڈ بھی بذریعہ ٹرین اسلام اباد روانہ کیا گیا، اسلام آباد کے اثرات تواس کے بسنے سے پہلے ہی ظاہر ہونا شروع ہوگئے کہ 1956 کے دستور کا اصل مسودہ اسلام آباد میں نہیں پہنچا ، فقیر محمد صاحب جن دنوں یہ لیکچر دیا کرتے تھے ان دنوں میں جنرل ضیاالحق نے نیا نیا ملک اغوا کیا تھا، ہم نے ان سے پوچھا کہ آپ کو کیا لگتا ہے کہ 90 دن میں انتخابات کرواکر ملک میں نظام مصطفٰی نافذ کردیا جائے گا۔ تو انہوں نے کہا کہ یہ مارشل لاء تو پہلے بھی آچکے ہیں۔لیکن یہ ذرا مختلف لگ رہا ہے ، سیاسیات کے طلبہ کو میرا مشورہ ہے ” دیکھیں ، سنیں ، اور انتظار کریں ” اور یوں گیارہ سال بعد پتا چلا کہ نظام مصطفی کی تحریک ہی اغوا ہوگئی تھی ،اس عرصے میں آئین میں دھڑادھڑ ترامیم کرکے اسے بھی اغوا کرلیا گیا ۔اور اہم سیاسی پارٹیوں کے ٹکڑے یا دھڑے بنادئیے گئے، جے یوپی کے دو، جے یو آئی کے دو، پی پی پی کے دو، مسلم لیگ کے دو بلکہ زیادہ اور جماعت اسلامی میں بھی کراچی اور لاہور گروپ بنانے کی کوشش کی گئی ۔ جنرل ضیا کے جانے کے بعد سے سیاست کا حال بھی تباہ ہے لیکن یہ لوگ بار بار کسی نہ کسی عنوان سے جمع ہوکر کچھ بنیادی حقوق کی بات کرتے ہیں تو اس مسئلے کا حل بھی نکال لیا گیا ، ضلعی انتظامیہ کی نکیل تو پہلے ہی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں ہوتی ہے الیکشن کمیشن وہیں سے عملہ حاصل کرتا ہے پھر بھی کوئی سفید بھیڑ نہ رہ جائے اس کے لئیے الیکشن کمشنر اغوا کرلئیے گئے ، لیکن اب بھی اڑچن رہ گئی تھی تو عدالتی تریبونلز مرضی کے بنائے جانے لگے ، اس میں بھی سب کچھ کھل جانے کا خدشہ رہتا تھا چنانچہ عدلیہ ہی کو اغوا کرلیا گیا ،آئینی ترامیم کی زنجیروں سے عدلیہ کا قلم باندھ دیا گیا ۔ویسے بھیاب اب تقرر اورتبادلہ بھی اغوا شدہ پارلیمنٹ کے پاس ہے ۔ایسے میں ٹرین اغوا ہوگئی تو کیا ہوا ، جس ملک میں قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو سر عام اغوا کرکے بچوں سمیت امریکا کو بیچ دیا جاتا ہو،اسے واپس لانے کے لئے قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ نہ ہونے کا بہانہ کیا جاتا ہےاور اسی دوران شریف اللہ کو کسی معاہدے کے بغیر امریکا کے حوالے کر دیا جاتا ہے، عافیہ صدیقی کی واپسی کے لئیے مقدمے کی سماعتیں بھگتا کر حکومت ہی تھک گئی یا فرار ہورہی ہے ، بلکہ اب تو حکومت مقدمے ہی سے جان چھڑانا چاہتی ہے، کہہ فیا کہبہم نے عافیہ کے لئیے بہت کچھ کرلیا اب مقدمہ بند کیا جائے۔ہمارا عدالتی نظام بھی اس قدر پیچیدہ ہے کہ عام مقدمات ہی کو طویل کیا جاسکتا ہے۔ اور عافیہ جیسا مقدمہ توخوب گھمایا جاتا ہے۔ہر پیشی پر سرکار کا کوئی نہ کوئی ادارہ بے نقاب ہوجاتا ہے ،پتا چلتا ہے کہ کس کس نے عافیہ کو بیچا تھا ۔اس ایک اغوا کے حقائق چھپانے کے لئے کس کس ادارے کو اغوا کیا گیا ۔
تو پھر ایک ٹرین کے اغوا پر تشویش کیوں ؟ اور اس واقعے کے حقائق جس طرح پیش کئیے گئے ہیں اس کا مقصد خواہ کچھ بھی ہو بلوچستان کے بارے میں خدشات میں اضافہ ہی ہوتا آرہا ہے۔لوگ کہیں گے کہ آپ تو ملک کے ٹوٹنے بات کررہے ہیں ،لیکن جب مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی سازش ہورہی تھی اس وقت یہی کہا جارہا تھا کہ ملک مضبوط ہاتھوں میں ہے ، ہمارا جرنیل کہہ رہا تھا کہ بھارتی ٹینک میری لاش پر سے گزر کر ڈھاکا میں داخل ہونگے ،اور چند ہی روز بعد ایک زندہ لاش اپنا پستول جنرل اروڑا کے حوالے کررہی تھی ۔اور میڈیا پر نغمے دشمن کی کلائی ضرب گراں سے توڑدی،والے چل رہے تھے ۔اب پھر بلوچستان میں پاکستان کے دشمموں کا منہ توڑنے کے اعلانات ہورہے ہیں، بری نظر ڈالنے والی آنکھیں نکال لینے کی بات ہورہی ہے لیکن لگتا ہے کہ ہماری سیکورٹی کے ذمہ داروں کی یہ خصوصیت بھی اغوا ہوچکی ہے ، اب دشمن کا منہ کوئی پکڑ کر لادے تو ہم اسے توڑدیں گے اور آنکھیں بھی نکال دیں گے ، لیکن یہ سارے اعلانات ہم پہلے سے سنتے آرہے ہیں ، جنرل پرویز سے بھی سنے اور بھٹو صاحب سے بھی۔ پاکستان بچانا ہے تو اس کا ایک ایک اغوا شدہ ادارہ رہا کرنا ہوگا۔ اغوا شدہ قومی ضمیر ،نظریہ پاکستان، پارلیمنت ،عدلیہ، آئین اور سب سے بڑھ کر اورقومی سوچ کو رہا کرنا ہوگا ۔ ورنہ کچھ نہیں بچے گا۔
23 مارچ کو یہی عزم کرلیا جائے تو اچھا ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریر، تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ bisaat.mag@gmail.com پر ای میل کردیجیے۔
error: