دنیا کے چند ممالک ایسے بھی ہیں جوجدیدیت اور ماحولیاتی تحفظ کے درمیان توازن قائم کرنے میں کامیاب رہے ہیں اور جاپان کا شماران ہی ممالک میں ہوتا ہے، جاپان جس نے اپنی صنعتی ترقی کے دوران ماحول کو پہنچنے والے نقصان کو نہ صرف پہچانا بلکہ اسے حل کرنے کے لیے عالمی مثال قائم کی۔
یہ کہانی جاپان کے صنعتی انقلاب سے شروع ہوتی ہے، جہاں ماحولیاتی تباہی کے باوجود جاپانیوں نے آلودگی پر قابو پانے کے لیے سنجیدہ اقدامات کیے اور دنیا کو ماحولیاتی پائیداری کے اصولوں کی جانب راغب کیا۔
اس دلچسپ کہانی کو جاپان میں آلودگی کے مسائل کی تاریخ کے تناظر میں سمجھنا ضروری ہے ۔
جاپان 1950 اور 1960 کی دہائی میں صنعتی ترقی کی معراج کو پہنچا اور انتہائی تیزرفتاری کے ساتھ اپنے معاشی خواب کو حقیقت بنایا لیکن یہ ترقی اپنے ساتھ سنگین ماحولیاتی مسائل بھی لائی۔
کیمیکل فیکٹریوں سے مرکری کا فضلہ پانی میں شامل ہوا، جس نے ہزاروں افراد کو نیورولوجیکل بیماریوں میں مبتلا کر دیا۔
فیکٹریوں کے دھوئیں نے فضائی آلودگی پیدا کی، جس کے نتیجے میں سانس کی بیماریاں عام ہو گئیں۔
صنعتی فضلے نے جاپان کی ماہی گیری صنعت کو تباہ کر دیا اور مقامی معیشت پر گہرے اثر ات مرتب کیے۔
1970 کی دہائی تک عوامی مظاہروں اور میڈیا کے ذریعے حکومت پر یہ دباؤ بڑھا کہ ماحولیاتی مسائل کو ترجیح دی جائے اور اس دباؤ نے ماحولیاتی پالیسیوں کے آغاز کی راہ ہموار کی۔ جس نےماحولیاتی ایجنسی کے قیام کی راہ ہموار کی اور جاپان میں ماحول دوست قانون سازی کی جانب پیش رفت ہوئی ۔
1971 میں جاپانی حکومت نے ایک خصوصی ماحولیاتی ایجنسی قائم کی تاکہ ماحولیاتی مسائل کے حل کے لیے جامع پالیسیز بنائی جا سکیں۔ جس کے تحت بنیادی ماحولیاتی قانون (1993) کی تشکیل ہوئی اور 1993 میں بنایا گیا بنیادی ماحولیاتی قانون جاپان کی ماحولیاتی پالیسیز کا مرکز بنا۔ یہ قانون نہ صرف آلودگی پر قابو پانے کے لیے تھا بلکہ اس نے پائیدار ترقی کے اصولوں کو بھی متعارف کرایا۔ اس قانون کے کلیدی اجزاء میں فضائی اور آبی آلودگی کے خاتمے، قدرتی وسائل کےتحفظ اور ماحولیاتی تعلیم کی ترویج جیسے اہم فیصلے شامل تھے۔ اس سلسلے میں جاپان کی جانب سے کیوٹو پروٹوکول (1997) کی میزبانی بھی ایک اہم قدم سمجھا جاتا ہے۔
جاپان نے ماحولیاتی تحفظ کے میدان میں اپنی قیادت کا ثبوت دیتے ہوئے کیوٹو پروٹوکول کی میزبانی کی، جس کا مقصد گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنا تھا۔
یہ معاہدہ جاپان کی عالمی ماحولیاتی ذمہ داری کا اظہار تھا، جس نے دیگر ممالک کو بھی اقدامات پر مجبور کیا۔
اس سلسلے میں ای ایس گیپ (ESGAP) فریم ورک ماحولیاتی ترقی کا ایک نیا انداز تھا ۔ جاپان نے ای ایس گیپ فریم ورک کے ذریعے ماحولیاتی کارکردگی کا جائزہ لیا اور مستقبل کی پالیسیز بنائیں۔
موجودہ صورتحال کا تجزیہ
SESI
یہ جز جاپان کی موجودہ ماحولیاتی حالت کا جائزہ لیتا ہے، جیسے کہ فضائی اور آبی معیار اورقدرتی وسائل کا تحفظ۔
اسی طرح SESPI مستقبل کی منصوبہ بندی اورجاپان کے ماحولیاتی اہداف کی منصوبہ بندی کے لیے کام کرتا ہے، جیسے کہ کاربن نیوٹرل معیشت اور قابل تجدید توانائی کا فروغ وغیرہ
ان اسٹینڈرڈز اور قوانین کے زریعے جاپان نے کئی ماحولیاتی کامیابیاں حاصل کیں جن میں صاف ستھری ہوا اور پانی کا حصول ممکن ہو سکا۔ماحولیاتی قوانین اور ٹیکنالوجی کی مدد سے جاپان نے اپنی فضائی اور آبی آلودگی کو کنٹرول کیا۔
اسی طرح جاپان نے صنعت اور ماحول کے درمیان بھی توازن قائم کیا، جس نے نہ صرف معیشت کو مضبوط کیا بلکہ قدرتی وسائل کو بھی محفوظ رکھا۔
جاپان کی یہ پالیسیاں قدرتی آفات سے تحفظ کے لیے بھی کارگرثابت ہوئی ہیں،ماحولیاتی تحفظ نے جاپان کو زلزلوں اور سونامی جیسی قدرتی آفات کے اثرات کو کم کرنے میں مدد دی۔
فی زمانہ جاپان کو مختلف نوعیت کے ماحولیاتی چیلنجز کا سامنا بھی ہے جن میں کاربن اخراج، قدرتی وسائل کی کمی بھی شاملِ ہیں ۔
جاپان کی معیشت میں توانائی کے لیے ایندھن کا استعمال اب بھی ایک بڑا مسئلہ ہے، جو کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کو بڑھاتا ہے۔
اسی طرح ایک جزیرہ نما ملک ہونے کی وجہ سے، جاپان کو محدود قدرتی وسائل کے چیلنجز کا سامنا ہے۔
اس کے باوجود اگر ایک عالمی موازنہ کیا جائے توجاپان کی ماحولیاتی حکمت عملی دنیا کے لیے ایک مثال ہے مثلاً
1 چین اپنی توانائی کی ضرورتوں کے باعث دنیا میں سب سے زیادہ آلودگی پھیلانے والا ملک ہے۔
2 بھارت: ترقی پذیر معیشت کے ساتھ ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے کے لیے ابھی ابتدائی مراحل میں ہے ۔
اسی طرح پاکستان ماحولیاتی مسائل کا شکار ہے، جیسے کہ جنگلات کی کمی، آلودہ پانی، اور فضائی آلودگی، تاحال بنیادی سطح پر موجود ہیں۔
موجودہ صورتحال میں پاکستان جاپان سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے جیسے کہ :
1 ماحولیاتی قوانین کا مضبوط نفاذ اور جاپانی طرز پر سخت قوانین
2 قابل تجدید توانائی کی جانب پیش رفت اور شمسی اور ہوائی توانائی میں سرمایہ کاری ۔
3 سرکلر اکانومی کے فروغ کے زریعے وسائل کا بہتر استعمال اور فضلہ کی کمی پر توجہ ۔
4 عوامی شعور کی بیداری کے مقصد کو سامنے رکھتے ہوئےتعلیمی نظام اور میڈیا کے ذریعے ماحولیاتی آگاہی کیمپین۔
5 ماحولیاتی مسائل کے حل کے لیے دیگر ممالک خصوصاً جاپان سے مدد ۔
جاپان کی ماحولیاتی حکمت عملی دنیا کو یہ پیغام بھی دیتی ہے کہ ترقی اور ماحولیاتی تحفظ کے درمیان توازن ممکن ہے۔
جاپان نے اپنے محدود وسائل کے باوجود ماحولیاتی تحفظ کے اقدامات میں سبقت حاصل کی۔ پاکستان جیسے ممالک کو جاپان سے سیکھ کر اپنے مسائل حل کرنے ہوں گے۔
جاپان نے ماحولیاتی تحفظ میں مثبت پیش رفت کے زریعے خود کو ایشیائی قیادت کا اہل ثابت کیا ہےاور ایشیا کو ایک مثال دی ہے، جسے دیگر ایشیائی ممالک کو اپنانا چاہیے۔ اس سلسلے میں مجوزہ اقدامات کے ذیل میں ماحولیاتی تحقیق کے زریعے جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے ماحولیاتی مسائل کا حل تلاش کیا جانا چاہیے۔
تعلیمی اصلاحات کے زریعے ماحولیاتی تحفظ کو تعلیمی نصاب کا حصہ بنایا جانا چاہیے اور پائیدار ترقی کے منصوبوں کے تحت حکومت اور نجی شعبہ کو مل کر کام کرنا چاہیے۔
جاپان کی ماحولیاتی کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ ترقی کے ساتھ ماحول کی حفاظت کیسے کی جا سکتی ہے۔ یہ صرف جاپان کی نہیں، بلکہ ہر اس قوم کی کہانی ہے جو پائیدار ترقی چاہتی ہے۔
پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک کے لیے جاپان کا تجربہ ایک سبق ہے، جسے اپنانے سے ماحولیاتی اور اقتصادی مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ جاپان نے دنیا کو دکھایا ہے کہ مضبوط ارادوں اور جامع حکمت عملی سے کسی بھی چیلنج کو موقع میں بدلا جا سکتا ہے۔