تحریر: رمیصاء عبدالمهیمین
کیا واقعی ہم اس قابل ہیں کہ جشنِ آزادی منائیں؟ ہر سال 14 اگست کو سبز جھنڈے، ملی نغمے، اور وطن سے محبت کے فلٹرز سوشل میڈیا پر چھا جاتے ہیں جیسے ہم سب کچھ حاصل کر چکے ہوں۔ اسکولوں میں تقریری مقابلے، بازاروں میں رعایتی جھنڈیاں، انسٹاگرام پر ’یونیک کیپشن‘ والی تصویریں سب کچھ ایک مصنوعی ولولے میں ڈھلا ہوتا ہے۔ مگر سچ یہ ہے کہ ہم ابھی تک ایک قوم بننے کے ابتدائی مرحلے ہی میں اَٹکے ہوئے ہیں۔ ہم خوش ہوتے ہیں کہ بچے یومِ آزادی پر نظم پڑھتے ہیں، مگر اس بچی کی نظم پر خاموش ہیں جو بلوچستان میں لاپتا بھائی کے لیے ریاست سے فریاد کر رہی ہے۔
بلوچستان کی گلیوں میں ماؤں کی چیخیں، لاپتا نوجوانوں کے پوسٹر، اور ریاستی سرد مہری یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ ہم صرف جغرافیہ بچا سکے، نظریہ کھو چکے ہیں۔ یہی وہ پاکستان ہے جہاں ایک وکیل کو ایک باشعور، زخم خوردہ شہری نے قتل کر دیا وہ کوئی عام قاتل نہیں تھا، وہ ایک ایسا بیٹا تھا جس کے باپ کو اسی وکیل نے اغوا کروا کر تشدد کا نشانہ بنایا، خاندان کو بدنام کیا، اور پھر عدالت میں قانون کا مذاق بنا کر ہنستا رہا۔ چار سال تک وہ بیٹا دروازے کھٹکھٹاتا رہا، انصاف مانگتا رہا، لیکن عدالت نے اس کے صبر کا، اس کے آئینی یقین کا، مذاق اڑایا۔ آخرکار اس نے وہی کیا جو ایک لاچار، دیوار سے لگا دیا گیا شہری کرتا ہے اس نے خود انصاف کر لیا۔
۔ اور ستم یہ ہے کہ ہم اسے بھی قانون کی “پروسیجرل خامی” کہہ کر فائل بند کر دیں گے۔ تو سوال یہ ہے کہ انصاف کہاں ہے؟ قانون کسے بچا رہا ہے؟ کیا اسی انصاف کے لیے ہم نے خود کو ہندوستان سے الگ کیا تھا؟ یا یہ سب کچھ صرف نقشے کی تبدیلی تھی، ذہنوں کی نہیں؟
اگر ہم عورت کی بات کریں، تو وہی پرانا مگر زندہ سچ سامنے آتا ہے۔ پاکستان کی عورت آج بھی ریاست کا بوجھ اٹھاتی ہے —
وہ گھر چلاتی ہے، بچوں کو تعلیم دیتی ہے، معاشی میدان میں محنت کرتی ہے، اور بوقت ضرورت سڑک پر بھی اپنے حقوق کے لیے کھڑی ہوتی ہے۔ مگر جیسے ہی وہ آواز اٹھاتی ہے، اسے فہم و فراست سے نہیں بلکہ “فیمینسٹ”، “مغرب زدہ”، “دین سے دور” جیسے لیبلز سے نوازا جاتا ہے۔ کیا اس لیے کہ وہ اپنے حق کی بات کرتی ہے؟ کیا صحابہؓ کے نظام کی بات کرنے والی ریاست میں عورت کو فقط اس وقت عزت دی جائے گی جب وہ خاموش رہے؟ اگر وہ بولے تو آپ اس کے لباس، انداز، لہجے سے اس کے نظریات اخذ کر لیں گے؟ یہ معاشرہ نہ صرف عورت کو تقسیم کرتا ہے بلکہ اپنی ذہنی غلامی پر فخر بھی محسوس کرتا ہے۔
اسی ذہنی غلامی نے نوجوانوں کو بھی الجھا رکھا ہے۔ ایک طرف سوشل میڈیا کا تیزاب ہے جو شعور کو خودنمائی میں بدل رہا ہے، اور دوسری طرف ریاستی پالیسیوں کا کھوکھلا پن جو انہیں یا تو بیرون ملک بھاگنے پر مجبور کرتا ہے یا کسی مصنوعی “موٹیویشنل اسپیکر” کے پیچھے لگا کر وقتی سرور میں رکھتا ہے۔ آج کا نوجوان ڈگری کے ساتھ نوکری کے لیے خوار ہے، اور TikTok پر گانے پر لاکھوں ویوز لینے والا کل کا رول ماڈل۔
اگر ہم تعلیمی و عدالتی نظام پر نظر ڈالیں تو صرف المیہ ہی المیہ ہے۔ 2 کروڑ سے زائد بچے اسکول سے باہر ہیں (یونیسف، 2023)، اعلیٰ تعلیم کا بجٹ سال بہ سال کم ہو رہا ہے، اور جو ادارے انصاف فراہم کرنے کے لیے بنے تھے وہ اب طاقتوروں کے وکیل اور کمزوروں کے دشمن بن چکے ہیں۔ میڈیا کا حال بھی مختلف نہیں حب الوطنی ایک ٹی آر پی بن چکی ہے، اور سچائی کمرشل بریک میں دفن ہو گئی ہے۔ جہاں سچ بولنے والا غدار کہلاتا ہے، اور جھوٹ بولنے والا حب الوطن۔
ہم ایک ایسے نظام میں سانس لے رہے ہیں جہاں ظلم عام ہے، مگر عدل نایاب۔ جہاں بےحسی معمول ہے، اور احساس جرم ایک جرم۔ کیا یہی وہ اسلامی ریاست ہے جس کا خواب اقبال نے دیکھا اور قائد نے دنیا کے نقشے پر قائم کیا؟ کیا ہم واقعی اس “نظریۂ پاکستان” کے وارث ہیں؟ یا اب صرف اس کے نعرے کے رکھوالے رہ گئے ہیں؟
اور سب سے اہم سوال: کیا ہم نے کچھ سیکھا؟ کیا ہمیں اس سال بھی صرف جھنڈیاں لگانی ہیں، نغمے گانے ہیں، یا واقعی اس بات پر غور کرنا ہے کہ ہمیں کس مقام پر کھڑا ہونا چاہیے تھا — اور ہم کہاں پہنچ چکے ہیں؟
آج پاکستان ایک پیچیدہ دور سے گزر رہا ہے جہاں نہ صرف داخلی مسائل شدت اختیار کر چکے ہیں بلکہ عالمی منظرنامے میں بھی اس کی جغرافیائی اور سیاسی اہمیت بدل رہی ہے۔ مہنگائی کی بلند شرح، روزگار کے مواقع کی کمی، اور بڑھتی ہوئی غربت نے عام آدمی کی زندگی کو انتہائی مشکل بنا دیا ہے۔ عالمی معیشت میں ہونے والی تبدیلیاں اور سیاسی کشیدگی نے ملک کے اندر بے یقینی کی فضا پیدا کر دی ہے، جس کا سب سے زیادہ اثر نوجوان نسل پر پڑ رہا ہے جو نہ صرف اپنے مستقبل کو لے کر پریشان ہے بلکہ اکثر مایوسی کے باعث منشیات اور دیگر برائیوں کی طرف بھی مائل ہو رہا ہے۔ ایسے میں جب قوم کے اندر اتحاد کے بجائے فرقہ واریت، تعصبات اور سیاسی انتقام کی سیاست بڑھ رہی ہے، تو ہم واقعی کہاں کھڑے ہیں اور کس سمت جا رہے ہیں؟ یہ سوال ہر پاکستانی کو خود سے کرنا ہوگا، کیونکہ یہی حالات ہماری آزادی کے اصل مقصد اور بقاء کی تحریک کی بنیاد ہیں۔
اب وقت آ گیا ہے کہ ہم “جشنِ آزادی” کو محض سالانہ تہوار نہ سمجھیں۔ یہ آزادی اب “یاد” نہیں بلکہ “تحریک” بننی چاہی
تحریکِ بقاءِ پاکستان
کبھی کبھی قومیں جشن مناتے مناتے اپنی سانسیں بھول جاتی ہیں۔ خوشیوں کے نغمے، زخموں کی گونج کو دبا دیتے ہیں، اور پرچم کی چمک ان آنکھوں کی نمی کو چھپا دیتی ہے جو ناانصافی، غربت اور بے یقینی کے سائے میں جیتی ہیں۔ آزادی صرف شناخت نہیں، ایک ذمہ داری بھی ہے۔ اور اگر جشن منانا ہے، تو بقاء کی ضمانت دیجے — ایسی بقاء جو صرف جھنڈے کے رنگ تک محدود نہ ہو، بلکہ عام شہری کی عزت، انصاف اور اختیار تک محیط ہو۔ اور اگر یہ سب نہ ہو… تو پھر اس بار میں آزادی کا جشن نہیں مناؤں گا، میں ارادے کا جشن مناؤں گا — اس ارادے کا، جو مجھے جشنِ بقائے پاکستان کی ایک نئی تحریک کی طرف لے جائے؛ ایک ایسی تحریک جو آزادی کے حقیقی مفہوم کو دوبارہ تلاش کرے، جو ہمیں صرف ماضی پر فخر نہیں بلکہ حال کا احتساب اور مستقبل کی تعمیر کا حوصلہ دے۔ اور ہاں، یہ آزادی، یہ سال — تحریکِ بقائے پاکستان کے نام۔”