Advertisement

لولی لنگڑی عدلیہ اور عوام کو بھی پیج پر لائیں

بالآخر حکومتی اتحاد نے نمبر پورے کرلیے، حکمرانوں کے بقول انہوں نے کالے ناگ یا سانپ کے دانت توڑ دیے ہیں جبکہ امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ پی ڈی ایم اتحاد نے کالے ناگ نہیں عدلیہ کے دانت توڑ دیے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ آئینی ترامیم کے بعد عدلیہ پر حکومت کا کنٹرول ہوجائے گا چیف جسٹس کا تقرر سینیارٹی کی بنیاد پر نہیں ہوگا بلکہ حکمرانوں کی مرضی پر ہوگا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگلے چیف جسٹس منصور علی شاہ نہیں ہوں گے، یہ ہے ہمارے حکمرانوں کی جمہوریت اور انصاف پسندی۔
گزشتہ ماہ بھی آئینی عدالت بناکر عدلیہ کو معذور بنانے کی کوشش کی گئی تھی جو بوجوہ ناکام ہوگئی تھی، شاید نمبر کم تھے یا مخصوص نشستوں کے بارے میں عدالتی فیصلے کی وضاحت تھی جس کے بعد مذاکرات اور اتفاق رائے کا ڈراما چلایا گیا لوگوں کا ملنا جلنا روٹھنا منانا سب کچھ ہوا اس دوران اسٹیبلشمنٹ کے مضبوط ہاتھوں نے نمبر پورے کرلیے، جن لوگوں کو اپنی پارٹی کے لوگوں کے دین ایمان کا پتا نہیں ہوتا وہ بڑے اعتماد سے نمبر پورے ہونے کے دعوے کررہے تھے، کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ جو لوگ 45 کو 47 سے بدل سکتے ہیں وہ کچھ بھی کرسکتے ہیں، اور انہوں نے کر ڈالا، صاف نظر آرہا ہے کہ جلدی کسی نہ کسی بندو بست کی ہے، شنید ہے کہ وہ جسٹس منصور کا راستہ روکنے کے لیے ہو یا کسی اور مقصد کے لیے لیکن ہے جلدی۔ اور 25 اکتوبر کو یونہی نہیں کہا جارہا تھا کہ اس کے بعد کچھ نہیں ہوسکے گا۔ جان بوجھ کر نئے چیف جسٹس کا نام نہیں دیا گیا حتیٰ کہ جسٹس فائز کی ریٹائر منٹ کا وقت آگیا۔
اب پارلیمانی کمیٹی اور جوڈیشل کمیشن نئے چیف جسٹس کا تقرر کریں گے۔ اس سارے ڈرامے میں سب سے بڑا جھوٹ یہ بولا گیا کہ عوام کے مسائل کے حل کے لیے یہ سب کچھ کیا جارہا ہے، لاکھ گھما پھرا کر بات کریں یہ نہیں بتا سکتے کہ کون سی شق سے عوام کو کوئی فائدہ ہوجائے گا۔ جتنے بڑے بڑے دماغ اس کام میں لگے ہوئے تھے وہ یقینا یہ جانتے ہوں گے کہ جس مغربی یا انگریز کے عدالتی نظام سے یہ انصاف کے حصول کی کوشش کررہے ہیں وہ کبھی کامیاب نہیں ہوگی، اگر کسی آئینی ترمیم سے کچھ بدل رہا ہے تو لنگڑی لولی عدلیہ سے بھی وہ یہ کام لے سکتے تھے لیکن خوفزدہ حکمرانوں نے لولی لنگڑی عدلیہ کے دانت بھی توڑ ڈالے ہیں، اس عدالت سے انہیں کیا خوف تھا کیوں وہ دن دہاڑے آئین پاکستان کا حلیہ بگاڑنے پر اتر آئے اگر صرف چیف جسٹس کے تقرر کا معاملہ لیں تو وہ سب براہ راست حکومت کے کنٹرول میں آگیا ہے، اگر ہائی کورٹس سے اچھے اور مبنی برعدل فیصلے آرہے تھے تو اب ہائی کورٹس کے جج سپریم جوڈیشل کونسل کی تسلی کرائیں گے فیصلے نہیں دیں گے کیونکہ اب سپریم جوڈیشل کونسل جس کا کنٹرول حکومت کے ہاتھ میں ہوگا ہائی کورٹس کے ججوں کی کارکردگی کا جائزہ لے گی اور اسے تسلی بخش نہ پاکر جج کو ہٹایا جاسکے گا۔
لیجے قصہ پاک اس ترمیم کے تحت عدالت عظمیٰ کے جج کو بھی ہٹایا جاسکے گا۔ اسی طرح عدلیہ میں جج بننے کی بھی آسانی کردی گئی ہیں کہ حکومت جس کو مناسب سمجھے گی اسے جج بنانے گی، یعنی تقرر، تبادلہ اور برطرفی حکومت کے ہاتھ میں، تو کون سا جج عدل کرے گا سب حکومت کی خوشنودی کے چکر میں پڑ جائیں گے، البتہ یہ فرق ضرور پڑے گا کہ کوئی شوکت عزیز صدیقی یہ شکوہ نہیں کرے گا کہ آئی ایس آئی کا فلاں افسر میرے پاس آیا اور فلاں فلاں فیصلہ کسی کے حق میں دینے کے لیے دبائو ڈالا، کیونکہ اب دبائو میں فارم 47 والے ہوں گے، ذرا ادھر ادھر ہوئے، نکال باہر کردیا جائے گا۔ اب ہدایات حکومت اور سپریم جوڈیشل کونسل کو ملیں گی اور وہ ججوں کو ہانکیں گے، اب ذرا اس ترمیم کے حامی اور اسے منظور کروانے کے بعد بغلیں بجانے والے یہ بتائیں کہ عوام کو کیا ملے گا سارا اختیار تو حکومت کو مل گیا عوام کو کیا ملا۔ کیا مہنگائی کم ہوگئی، روزگار میں اضافہ ہوگیا، امن و امان میں بہتری ہوگئی، تھانے بکنا بند ہوگئے سرکاری اداروں میں رشوت خوری بند ہوگئی، ایسا تو کچھ نہیں ہوا البتہ لولی لنگڑی عدلیہ کے رہے سہے دانت بھی توڑ دیے گئے، حالانکہ یہ دانت عوام کو نقصان نہیں پہنچارہے تھے۔ بلکہ ان کا سارا نقصان یا تکلیف غیر آئینی کام کرنے والوں کو ہوتی تھی۔
اب کسی عدالت میں لاپتا افراد کو بازیاب کرنے کے لیے کسی جج کی آواز نہیں گونجے گی، بلکہ شاید جج بھی بینر لے کر مطالبہ کرنے والوں کی طرح مطالبہ کریں گے، تاکہ بد تمیزی کا الزام لگنے سے بچ سکے جج یہ کہے گا کہ میری گزارش ہے کہ جس ایجنسی نے لاپتا کیا ہے برائے مہربانی وہ ان لوگوں کو بحفاظت ان کے گھروں کو پہنچادیں۔ عدالت اس ایجنسی کی ممنون ہوگی۔ ممکن ہے مزید حکم آجائے کہ کسی خفیہ ادارے کے بارے میں ریمارکس بھی نہ دیے جائیں اور عدالت اس پر بات بھی نہ کرے۔ اس طرح وزیر اعظم اور کابینہ کی صدر کو کسی تجویز پر سوال نہیں اٹھا یا جاسکے گا۔ بلکہ اصل الفاظ یہ ہیں کہ کوئی عدالت، ٹریبونل یا اتھارٹی سوال نہیں اٹھاسکتی گویا کابینہ اور وزیر اعظم احتساب سے بالا تر ہوگئے۔ چیف جسٹس کا از خود نوٹس کا اختیار بھی ختم کردیا گیا ہے۔یہ ہے اس آئینی ترمیم کے نتائج کا مختصر نتیجہ، تفصیل تو ان ترامیم کے بروئے کار آنے کے بعد سامنے آئے گی، اس ترمیم کے خلاف اب بھی قانونی جدوجہد ہوسکتی ہے اگلے دو روز میں عدلیہ کوئی ایکشن لے، وکلا میدان میں آئیں اور سول سوسائٹی کہاں ہے جو ہر معاملے میں کود پڑتی ہے۔ اسی طرح سود کے خاتمے کے لیے یکم جنوری 2028 کی تاریخ مقرر کی گئی ہے۔ یہ تاریخ مقرر نہیں کی گئی بلکہ مزید تین سال کی مہلت دی گئے ہے۔ یہ حکمران اگر سود ختم کردیں تو کیا ہی اچھی بات ہوگی۔
ابتدائی طور پر یہ خبریں آئی ہیں کہ صوبہ کے پی کے کے وزیراعلیٰ گنڈاپور اور حامد خان نے مل کر وکلا کے ساتھ تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے لیکن وکلاء کی یہ تحریک اسی وقت موثر اور کامیاب ہوسکتی ہے جب تمام بار ایسوسی ایشنز ایک پیج پر ہوں اور آئین پاکستان بچانے کے لیے نکلیں۔ اس وقت اسٹیبشلمنٹ کا مقابلہ پی ٹی آئی سے ہے اور اس کے نام کے ساتھ ہی وہاں آگ لگ جاتی ہے۔ وکلاء اس تحریک کو پہلے اپنے حلقوں میں منظم کریں اور دیکھیں کہ وہ وہ کہاں تک جاسکتے ہیں اس کے بعد فیصلہ کریں کہ تحریک چلانی ہے یا آئینی جدوجہد کرنی ہے۔ ویسے بات اتنی آگے نکل گئی ہے کہ دو تین دن کے بعد آئینی اور قانونی جدوجہد تو ہونہیں سکے گی کیونکہ ہر اھتجاج غیر آئینی ہوجائے گا۔ لیکن اس سارے معاملے میں عدالت عظمیٰ بالکل خاموش ہے کیا اسے نہیں معلوم کہ اس کے اختیارات سلب کیے جارہے ہیں۔ یا معلوم سب کچھ ہے کہ اس کے ساتھ کیا ہورہا ہے لیکن وہ خود کچھ نہیں کرنا چاہتی۔
وزیراعظم میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ میں ،صدر مملکت آصف علی زرداری اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر ،ملک کے سیاسی اور معاشی استحکام کے معاملات میں ایک پیج پر ہیں ،اور حالیہ آئینی ترامیم سیاسی استحکام کو یقینی بنائیں گی اور یہ ملک کے معاشی استحکام کے لیے بھی ضروری ہے،انگریزی اخبار دی نیوز کے مطابق انہوں نے نئے چیف جسٹس کے بارے میں پارلیمانی کمیٹی کا حوالہ دیا یعنی پہلے جس چیف جسٹس کا نام تھا اب وہ نہیں بنیں گے ، بلکہ پارلیمانی کمیٹی جو نام دے گی اور صدر مملکت جسے بنانا چاہیں بنائیں گے ، تاہم اخبار نے یحییٰ آفریدی کے نام کا حوالہ دیا ہے گویا یہ آئینی ترمیم کا پہلا اثر ہے یا جس مقصد کے لیے ترمیم کی گئی تھی یہ اس کے حصول کی جانب پہلا قدم ہے۔وزیر اعظم کا فرمان بجا ہے صدر وزیر اعظم اور آرمی چیف کا ایک پیج پر ہونا اچھی بات ہے لیکن اس پیج پر کہیں ملک کے 25 کروڑ عوام نظر نہیں آرہے ، جولوگ عوام کی نمائندگی کے دعویدار ہیں ان میں تو بہت سے فارم 47 کی وجہ سے نمائندہ قرار پائے ہیں اور بہت سے نمائندہ ہونے کے باوجود پیج پر نہیں ہیں۔
پہلے ارکان پارلیمنٹ کسی درجے میں عوام کے نمائندے ہوتے تھے اس طرح عوام بھی پیج کے حاشیے میں تو نظر آتے تھے لیکن اب حاشیے میں بھی نظر نہیں ارہے۔ کیونکہ اب سیاسی رہنما اور حکمران کھل لر اعتراف کرتے ہیں کہ ہم اسٹیبلشمنٹ کے نمائندہ ہیں، تو ان ترامیم سے عوام کو کیا ملا ،کیا ان میں سے کوئی آئینی ترمیم عوام کو براہ راست فائدہ پہنچارہی ہے ان ترامیم کے نتائج یا فوائد حاصل کرنے والے کچھ ہی لوگ ہونگے۔یہ جھگڑا ہی چند لوگوں یا اداروں کا ہے اور وہی فائدہ یا نقصان اٹھائیں گے عوام کو کیا ملے گا ، اچھا ہوتا کہ ایسا کوئی پیج بناتے جس میں سب موجود ہوں اورمساوی حیثیت میں ہوں۔شاید ایسا کوئی پیج کبھی نہیں رہا جس میں عوام بھی بھرپور طور پر موجود ہوں ان کا نام ضرور ہوتا ہے ، جس قسم کی گفتگو خواجہ آصف نے اسمبلی میں کی ہے اس سے واضح ہورہا ہے کہ جھگڑا اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ میں تھا۔خواجہ آصف نے کہا کہ یہ 8 آدمی 24 کروڑ عوام کی خواہشوں کے مرکز ایوان کے خلاف گینگ اپ ہوگئے تھے ،انہوں نے اچھا سوال اٹھایا ہے کہ کیا میثاق جمہوریت یہ سبق دیتا ہے کہ 8 آدمی پورا جمہوری سیٹ اپ یرغمال بنالیں،اور ہم تابع ہوجائیں، کیا یہی ایک ادارہ رہ گیا ہے جس میں سترہ اٹھارہ افراد بیٹھے ہیں ، اس سے قبل وہ جب راندہ درگاہ تھے تو آرمی چیف اور فوج کے بارے میں بھی یہی سوال اٹھا چکے تھے کہ کیا ایک ادارہ پورے جمہوری سیٹ اپ کو یرغمال بناسکتا ہے ،یہ سوال اب اسٹیبلشمنٹ سے بھی پوچھا جانا چاہیے کہ کیا اسے پورا جمہوری نظام یرغمال بنانے کا اختیار ہے۔
خواجہ صاحب نے عدالت عظمی کے ڈیم بنانے کے اختیار یا ذمہ داری پر بھی سوال درست اٹھایا ہے کہ کیا ڈیم بنانا ان کا کام تھا ، یہی سوال وہ تمام اداروں سے پوچھیں ملک چلانا، معاشی معاملات چلانا خارجہ پالیسی چلانا یہ سارے کام تو پارلیمنٹ اور سیاسی حکومت کے ہیں ، حکومت پھر فوج کو ان معاملات میں کیوں گھسیٹتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ یا فوج کیوں جمہوری سیٹ اپ کو یرغمال بناتی ہے۔ چند ججوں کی جانب سے کسی ادارے کے اقدام پر فیصلہ دینا یرغمال بنانا کیسے ہوگیا، ہوسکتا ہے اس ادارے نے اسٹیبلشمنٹ کے حکم پر غلط قدم اٹھایا ہو، اگر دیکھا جائے تو درحقیقت سارا جمہوری نظام بلکہ پورا ملک ان اداروں کے جھگڑوں میں یرغمال بنا ہوا ہے یہ اپنے جھگڑوں کو عوام کا جھگڑا، عوام کا مفاد قومی مفاد وغیرہ نہ کہا کریں ہمت ہے تو صاف کہا کریں کہ فلاں جگہ سے آرڈر آیا ہے کہ فلاں کے خلاف عدم اعتماد منظور کرلو، یا عدلیہ کو حکم آئے تو وہ کہے کہ ہمیں باوقار ادارے نے کہا ہے کہ فلاں کے خلاف فیصلہ دو ،یا الیکشن کمیشن یہ کہے کہ ہمیں فارم 45 کو 47 سے بدلنے کا حکم فلاں ادارے نے دیا تھا، یہ عوام کا نام لینا چھوڑ دیں ان اداروں کا نام لیا کریں جہاں سے ڈوریاں ہلتی ہیں تو عوام بھی اسی پیج پر نظر آئیں گے، لیکن ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ان اداروں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ اپنی لڑائی میں ملک کو ڈبو کر چھوڑیں گے۔
اور ایک بات سمجھ سے بالا ہے حالانکہ بہت واضح ہے لیکن قوم شاید سمجھنا نہیں چاہتی کہ ہر معاملہ معیشت سے کیوں جڑا ہوا ہے ، چین سے دوستی معیشت کے لیے ،امریکا سے دوستی معیشت کے لیے ،روس سے دشمنی معیشت کے لیے اب روس سے دوستی معیشت کے لیے ،اب امریکا سے لڑائی معیشت کے لئے ،آئی ایم ایف کی شرائط معیشت کے لیے اور اب آئینی ترامیم معیشت کے لیے ، سب ایک پیج پر ہیں تو معاشی استحکام کیلئے، الیکشن کا منشور معاشی استحکام، حکومتوں کا مقصد معاشی استحکام، لیکن یہ معاشی استحکام اس ملک میں آکر نہیں دے رہا قوم بھی سوچے کہ اس پر یہ ذلت اور غربت کیوں مسلط ہے اللہ کی کیا نافرمانی کی ہے کہ ہم پر بھوک اور خوف مسلط ہے ،اسی وجہ سے جو مداری آتا ہے معاشی استحکام کی ڈگڈگی بجاتا ہے اورقوم اس پر ناچنے لگتی ہے۔لیکن ہر بار یہ معاشی استحکام ہم سے دور ہوجاتا ہے ، یہ سودا بیچنا بھی اب بند ہونا چاہیے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریر، تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ bisaat.mag@gmail.com پر ای میل کردیجیے۔
error: