تحریر: خیر النسا بلوچ
پیڑ پودوں سے گھرا یہ ایک سو بیس گز کا نیا مکان تھا۔ جس کی ہر اینٹ مالکان کی اعلٰی ذوق ان کی محبت اور نفاست کو ظاہر کر رہا تھا۔ شام کا وقت ہوا کے ٹھنڈے جھونکے ساتھ لایا تھا۔ یہ اوائل دسمبرکی شام تھی۔ گھر کے خاموش اور پرسکون ماحول میں اچانک ارتعاش پیدا ہوا۔ اس گھر کے درو دیوار نے آج سے پہلے اپنے مالکان کو اتنا اونچا بولتے نہیں سنا تھا اور لگ رہا تھا کہ گھر میں موجود پیڑ پودوں اور ان میں بنے گھونسلوں میں رہنے والے چڑیاوں کو بھی یہ آوازیں ناگوار گزر رہی تھی۔ سب نے یک دم خاموش ہو کر ہو کر ان آوازوں کا پس منظر ڈھونڈنے کی کوشش کی یہ آوازیں ٹی وی لاونج سے آرہی تھی ۔تمہیں پتہ ہے تم کیا کہہ رہے ہو تم دوبارہ اس عورت کو بسانا چاہتے ہو جو پورے خاندان کے سامنے تمہیں ٹھکرا کر چلی گئی تھی۔ شادی کے محض ایک سال بعد تمہاری مردانگی کو تمہاری عزت نفس کو سوالیہ نشان بنا کر طلاق کے کاغذات پر بڑی نخوت سے تم سے سائن کروا گئی اور تم ابھی بھی اسے نہیں بھولے ۔اکبر صاحب غصے اور افسوس کے ملے جلے لہجے میں اپنے اکلوتے بیٹے اویس کو سمجھا رہے تھے ۔اکبر صاحب ایک پرائیویٹ ادارے میں کلرک تھے ان کے بیٹے اویس نے ایم بی اے کیا اور ایک فرم میں پرکشش تنخواہ پر ملازم ہوا ۔تب انہوں نے اپنی بیگم سے کہا کہ اویس کے لیے لڑکی ڈھونڈیں مگر اپنے جیسے متوسط گھرانے میں ڈھونڈیں۔ تعلیم اور خوبصورتی سے زیادہ لڑکی کی تربیت اور ماحول کو دیکھیں کیونکہ ہمارا ایک ہی بیٹا ہے آپ کوئی ایسی لڑکی لائیے جو رشتوں کو برتنا جانتی ہو ۔منزہ بیگم کی ایک جاننے والی نے انہیں اشرف صاحب کے گھر کا بتایا کہ ان کی بڑی بیٹی غزل جس نے حال ہی میں بی اے کیا ہے ان کے گھر کے لیے مناسب انتخاب ہوگی ۔منزہ بیگم ان خاتون کو لے کر اشرف صاحب کے گھر گئی یہ گھر بھی عام گھروں جیسا ہی تھا جس میں اپنی کم آمدنی کو سلیقے کی چادر سے ڈھانپنے کی کوشش کی گئی تھی ۔بہرحال انہیں خوبصورت نین نقش اور دھیمے لہجے میں بولنے والی غزل پسند آگئی تھی اور انہوں نے بیگم اشرف کو اپنے ہاں کھانے پر بلایا جو انہوں نے خوشی سے قبول کیا ۔اتوار کو اویس کی چھٹی کا دن تھا جس میں منزہ بیگم نے اشرف صاحب کے گھر والوں کو دعوت دے رکھی تھی ۔اشرف صاحب ان کی بیگم کو یہ سادہ اور با اخلاق لوگ اچھے لگے خاص طور پر اویس جس میں آج کل کے نوجوانوں جیسی بناوٹ اور دکھاوا نہ تھا .دونوں خاندانوں کی باہمی رضامندی سے رشتہ طے ہوا دونوں گھرانوں میں طے پایا کہ منگنی ایک گھریلو تقریب میں کی جائے گی اور شادی سات ماہ کے بعد مقرر کی گئی ۔اکبر صاحب نے جہیز کے لیے سختی سے منع کر دیا تھا کیونکہ اشرف صاحب کی غزل کے علاوہ بھی تین بیٹیاں تھیں ۔مگر اس کے باوجود انہوں نے حت المکان غزل کے لیے خریداری کی ۔منزہ بیگم تو لگتا تھا اپنے سارے ارمان اویس پر ہی نکال رہی تھی جو بھی جوڑا تھا سب نکال کے بیٹھی تھی بری کی خریداری کے لیے بیگم اشرف کی رضامندی لے کر غزل کو ساتھ لے کر بازاروں کے چکر لگا رہی تھی کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ جب ساری چیزیں غزل ہی نے استعمال کرنی ہیں تو پسند بھی اس کی ہونی چاہیے ۔اپنی حیثیت سے بڑھ کر انہوں نے ہونے والی بہو کو خریداری کروائی ۔اس خریداری کے مرحلے میں منزہ بیگم نے ایک بات بہت شدت سے محسوس کی کہ غزل میں خود نمائی اور خود ستائشی کا جذبہ بہت زیادہ ہے جس کا ذکر انہوں نےاکبر صاحب سے بھی کیا مگر انہوں نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ اس عمر کے بچے ایسے ہی ہوتے ہیں عمر اور عقل بڑھنے کے ساتھ سب ٹھیک ہو جائے گا ۔سات ماہ جیسے پلک جھپکتے گزر گئے بالآخر شادی کی تقریبات شروع ہوئی تو دونوں خاندانوں نے اس بات پر رضامندی دی کہ کوئی بھی فضول رسم نہیں ہوگی ۔بس نکاح اور ولیمہ ہوگا اس میں دونوں خاندانوں کے عزیز و اقارب اور دوست شریک ہوں گے ۔مگر جو ہی یہ بات غزل کو پتہ چلی اس نے ماں کے سامنے ہنگامہ کھڑا کر دیا کہ کم از کم اس کی مہندی اور مایوں تو لازمی ہونی چاہیے۔ وہ اپنی سہیلیوں کو بلا کر ڈھولکی نائٹ بھی پلان کر چکی تھی اور یہاں اس کے ماں باپ نے اس کے سارے ارمان مٹی میں ملا دیے ۔اس نے کئی اداکاراوں اور ٹک ٹاکروں کی مایوں مہندی اور ڈھولکی دیکھ کر اپنے لیے بھی ویسے لباس اور رسموں کا سوچا تھا ۔بہرحال منزہ بیگم اور اس کی امی کے سمجھانے پر دونوں گھروں کے مردوں کو رضامند کیا گیا کہ غزل کی خوشی کے لیے چھوٹے پیمانے پر ہی سہی یہ تقریبات رکھی جائیں ۔یہ پہلا موقع تھا منگنی کے بعد جس میں اویس کو غزل کی ڈیمانڈ بری لگی تھی ۔کیونکہ اویس ان چند نوجوانوں میں شامل تھا جو سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلنے والے نئی نئی رسومات اور دکھلاوے کے خلاف تھے۔اویس ایک سیلف میڈ نوجوان تھا جیسا کہ مڈل کلاس کے اکثر لڑکے ہوتے ہیں وہ اپنی تعلیم کے دوران ہی چھوٹی موٹی جاب کرنے لگا تھا تاکہ اس کی تعلیم کے اخراجات کا بوجھ اس کے والدین پر کم سے کم پڑے ۔ایسے میں یہ فضول خرچیاں اسے بری لگ رہی تھی۔بالآخر ان رسومات سے گزر کر نکاح اور ولیمہ بھی بخوبی سے ہو گئے ۔اکبر صاحب اور منزہ بیگم بہت خوش تھے انہیں بیٹی کی جو آرزو تھی وہ غزل کی صورت میں پوری ہوتی ہوئی نظر آئی ۔وہی اویس بھی زندگی میں آنے والی نئی تبدیلی کو لے کر بہت خوش تھا ۔آفس میں اس کی حیثیت مستحکم ہو رہی تھی ۔اس کے پاس کے رہنے والے پیشنگوئیاں کرنے لگے تھے کہ اویس بہت آگے جائے گا ۔زندگی میں جیسے ہر طرف بہار ہی بہار ہو غزل کو کھلا موقع ملا تھا اپنے سارے ارمان نکالنے کا ہفتے کی چھٹی پر وہ اویس کو لے کر کہیں نہ کہیں گھومنے چلی جاتی واپسی میں کسی نہ کسی فوڈ پوائنٹ سے کھانا کھا کر اور سارے دن کی روادات کو سوشل میڈیا پر اپنے دوستوں کے ساتھ شیئر کرتی یہی وہ پوائنٹ تھا جس پر اویس اکثر غزل کو ٹوکنے لگا تھا کہ اپنی ذاتی زندگی کو ہر وقت دوسروں کے سامنے پیش کرنا اچھی بات نہیں یہ سب پانچ ماہ تک تو چلتا رہا بالآخر ایک دن منزہ بیگم نے اویس کو کہا کہ وہ اپنی بیوی کو کہے کہ گھر کے معاملات میں دلچسپی لے کیونکہ وہ گھر کی اکلوتی بہو ہے اور اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنا گھر سنبھالے ۔اویس کی چھٹی کے دن کا آغاز بھی حسب معمول نماز اور پھر واک سے ہوتا تھا اس دن بھی یہی ہوا تھا کہ وہ واک کر کے گھر آیا تو منزہ بیگم اور اکبر صاحب دونوں چائے پی رہے تھے ۔وہ ان کو سلام کرتا وہیں آکے بیٹھ گیا ۔اکبر صاحب اس کے کام کے بارے میں پوچھ رہے تھے تبھی منزہ بیگم نے اویس کو کہا اویس بہو کو سمجھاؤ کہ ہر وقت سوشل میڈیا کا استعمال ٹھیک نہیں اور نہ ہی اس کی دوستیوں پر اعتبار کیا جا سکتا ہے ۔اویس نے ٹھنڈی سانس لی اور کہا کہ امی میں تو بہت سمجھاتا ہوں مگر وہ سمجھتی ہی نہیں الٹا مجھے دقیا نوسی ہونے کے طعنے دیتی ہے ۔ آپ بتائیں کیا کروں اکبر صاحب نے پر سوچ نظروں سے بیٹے کو دیکھا اور کہنے لگے صبر سے کام لو اسے کچھ ٹائم دو سب ٹھیک ہو جائے گا ۔مگر اویس جانتا تھا کہ غزل کا یہ شوق اب جنون بن رہا تھا اس نے اپنی ٹک ٹاک آئی ڈی بھی بنا لی تھی مگر سب کے ڈر کی وجہ سے وہ اس پہ اپنے چہرے کے ساتھ ویڈیوز اپلوڈ نہیں کر رہی تھی ۔مگر کب تک آخر کار ایک دن یہ کام بھی ہو گیا اس کی ویڈیوز پر لائک اور کمنٹ آنے لگے ۔غزل اب خود کو سچ میں کوئی ہیروئن سمجھنے لگی تھی اس کے یہ ویڈیوز خاندان میں کچھ لوگوں نے دیکھے اور یہ بات اس کے والدین تک بھی پہنچی جنہوں نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا ساس سسر کے اعتراضات نے بھی غزل پر کوئی اثر نہیں ڈالا ۔بالآخر اویس کو یہ کہنا پڑا کہ اگر وہ اس رشتے کی سلامتی چاہتی ہے تو یہ سب چھوڑ دے بصورت دیگر وہ کچھ بھی کرنے میں حق بجانب ہوگا ۔مگر جھوٹی تعریفوں اور ستائش کے پھندوں نے اسے امر بیل کی طرح جکڑ لیا ۔سوشل میڈیا کی چمکتی زندگی نے اسے اندھا کر دیا اور وہ گھر کا راستہ بھول گئی اور اویس کی محبت ساس سسر کا پیار گھر کا سکھ چین چھوڑ کر طلاق لے کر میکے آئی ۔جہاں اس کے والدین نے مزید رسوائی سے بچنے کی خاطر اسے گھر میں رہنے کی جگہ تو دی مگر اس کی وہ عزت اور محبت باقی نہ رہی جو پہلے غزل کو حاصل تھی ۔مگر اسے اب اس کی پرواہ نہیں تھی کیونکہ اس کی زندگی میں آنے والے شخص کے خوبصورت لہجے اور انداز نے اسے یہ یقین دلایا کہ اس زمین میں اس سے بڑھ کر اس کو چاہنے والا کوئی نہیں بنت حوا اپنی نادانی یا شاید فطری کمزوری کے ہاتھوں خود کو اس خوبصورت جنگل کا مکین بنانے کے لیے تیار ہو گئی ۔ٹک ٹاک اور فیس بک کی دوستی سے شروع ہونے والے تعلق نے ایک اور گھر اجاڑ دیا ۔غزل نے اپنے ٹک ٹاک پر موجود دوست بدر سے شادی کر لی اور اس کے ساتھ اس کے فلیٹ میں منتقل ہو گئی آنے والے دنوں میں اکثر غزل یہ سوچتی کہ جنت کی زندگی بھی اس کی زندگی کا مقابلہ نہیں کر سکتی آزادی اور اپنی مرضی کا یہ کھیل چند روز ہی چل سکا ۔بدر جیسے کھوٹے سکے پر چڑھا سنہرا پانی جلدی اتر گیا ۔اس کی ویڈیوز میں دکھائی جانے والی گاڑیاں بنگلہ اور امارات سب جھوٹ نکلا وہ اپنے لچھے دار باتوں سے غزل کو گناہ کی نئی دلدلوں میں گرنے کو تیار کرنے لگا مگر اس بار غزل کچھ تھم سی گئی کیونکہ جو بھی تھا اس کی نہ تو حیا پوری ختم ہوئی تھی نہ ہی معاشرے اور مذہب کا خوف مکمل ختم ہوا تھا اس نے بدر کی بات ماننے سے انکار کر دیا بدر نے پیار اور پھر مار کے سارے حربے استعمال کیے مگر جب کوئی گر کام نہ کر سکا تو اس نے غزل کو طلاق دے دی اور غزل ایک بار پھر اپنے ہی ہاتھوں شکست کھا کر ماں باپ کے پاس لوٹ آئی ۔اس کے والد اور بھائیوں نے اسے اپنانے سے انکار کر دیا مگر اس کی ماں کی منت سماجت کرنے پر اسے قبول کیا گیا ۔مگر وہ ہر وقت اپنے کمرے میں رہنے لگی تھی اسے رہ رہ کر اپنی نادانیاں یاد آرہی تھی۔ کبھی کبھی یہ گھٹن اتنی بڑھ جاتی کہ وہ حرام موت کا سوچتی مگر پھر خیال آتا کہ آخرت کا نام ختم ہونے والا عذاب برداشت کرنا کتنا مشکل ہوگا ۔ایک حرام سے نکل کر دوسرے حرام میں جانے کا حوصلہ نہیں کر پا رہی تھی ۔اس کی امی صبح گھر کے کام کرتے ہوئے اکثر ٹی وی پہ تلاوت لگا دیتی ۔ تلاوت کی آواز سن کے وہ اپنے کمرے سے نکلی تو اس کے کانوں میں قرآن کی آیت کا ترجمہ پڑا کہ “اللّہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو” اسے لگا کہ یہ آیت اس کے لیے ہے کہ ابھی اس کے پاس وقت ہے اور وہ لوٹ سکتی ہے اپنے اصل کی طرف اس کامہربان رب اس کی نادانیاں معاف کرنے والا ہے ۔اویس نے ماں باپ کے جوڑے ہوئے رشتے کو پوری ایمانداری سے قبول کیا تھا ۔کالج یونیورسٹی اور پھر آفس اس نے ہر جگہ خود کو خالص رکھا کیونکہ اس کا ماننا تھا کہ ملاوٹ ایک زہر ہے چاہے چیزوں میں ہو یا رشتوں میں ۔اس نے اپنی ساری محبتیں اور اپنا سارا خلوص غزل کو دیا تھا اسی وجہ سے غزل کے رویے اور فیصلے نے اسے ٹوٹ پھوٹ کا شکار کر دیا تھا ۔مگر آج بھی اویس غزل کو بھول نہیں پایا تھا بلاشبہ وہ اس کی پہلی محبت تھی اسے اپنے آس پاس آج بھی غزل موجود محسوس ہوتی ۔والدین کے بہت اسرار پر بھی وہ کسی نئے رشتے کے لیے خود کو تیار نہیں کر سکا اسے سنبھلنے میں کافی وقت لگا آج بھی اس کے اندر اس رشتے کی ادھورے پن کی کسک موجود تھی ۔اس لیے جب اس نے غزل کی طلاق کا سنا تو اسے فطری طور پر دکھ ہوا کچھ وقت گزار کر جب اس نے اپنے ماں باپ سے غزل کو دوبارہ اپنی زندگی میں لانے کا اظہار کیا تو اس کے والدین نے سخت رد عمل ظاہر کیا کیونکہ وہ آج تک اپنے بیٹے کی ناقدری کو بھول نہیں پائے تھے ۔وہ غزل جیسی خود سر لڑکی کو دوبارہ بہو نہیں بنانا چاہتے تھے ان کا دل نہیں مان رہا تھا وہ جانتے تھے کہ یہ معاشرہ بھی یہ بات کبھی قبول نہیں کرے گا ۔یہ معاشرہ اور اس کے وہ لوگ جو سزا دینا تو جانتے تھے مگر معاف کرنا نہیں جہاں دوسروں کی عیب جوئی تو آسان ہے مگر ان کی اصلاح کی کوئی بھی کوشش نہ وہ خود کرتے ہیں نہ کسی کو کرنے دیتے ہیں ۔مگر جب اویس نے ان سے کہا کہ ابو امی اچھوں کے ساتھ تو ہر کوئی اچھا کرتا ہے اصل امتحان تو یہ ہے کہ ہم گرتے ہوئے لوگوں کو اٹھائیں جو ہمیں گرانے کی کوشش میں گرے میں نے غزل کو بھلانے کی بہت کوشش کی مگر میں کامیاب نہ ہو سکا ۔اور مجھے لگتا ہے کہ یہ سارے حادثے غزل کو راہ راست پر لانے کے لیے اس کی زندگی میں آئے ہیں ۔وہ بہت شرمندہ ہے اور زندہ رہنے کی امید چھوڑ چکی ہے اس کی چھوٹی بہن سے کچھ دن پہلے اتفاقًا میری ملاقات ہوئی اس نے بتایا کہ وہ ہم سب سے بہت شرمندہ ہے کہ اس نے ہماری محبتوں کی قدر نہیں کی امی ابو میں اپ کی اجازت کے بغیر کچھ نہیں کروں گا مگر ایک بات ضرور کہوں گا کہ مجھے بہت دکھ ہوگااگر غزل اپنی نادانی کے ہاتھوں ایک اور دھوکہ کھائے آگے جو آپ دونوں کا فیصلہ ۔غزل جیسے مرجھا گئی تھی اس کی وہ خوبصورتی اور تابناکی اور چنچل پن سب ایک خواب ہو گیا ۔سارا وقت کمرے میں منہ لپیٹے پڑی رہتی نماز میں بے نام آنسو اس کی آنکھوں سے بہتے رہتے کہ وہ کتنی نادان تھی۔ چمکتے زہریلے ناگوں کو سونا سمجھ بیٹھی تھی ۔وہ جان گئی تھی کہ مرد کبھی کسی عورت سے مخلص نہیں ہو سکتا مرد صرف انہی عورتوں سے محبت کر سکتا ہے انہی کی عزت کر سکتا ہے جن سے ان کا رشتہ جڑا ہو وہ جس دنیا سے لوٹی تھی وہاں صرف اور صرف فریب تھا نقاب در نقاب چہرے اور خود غرض لوگ جو بس آپ سے اس وقت تک محبت کرتے ہیں جب تک کہ آپ ان کی مرضی کے مطابق چلتے رہیں ۔منزہ بیگم اکبر صاحب کو دودھ کا گلاس دینے آئی تو انہی کے پاس بیٹھ گئی ۔ آپ نے کیا سوچا اب اویس کے بارے میں منزہ بیگم نے اکبر صاحب سےکہا۔ دیکھےبیگم غلطی ہر انسان سے ہوتی ہے اور جب وہ توبہ کر کے اپنے اللّہ کے پاس آتا ہے تو اللّہ بھی اسے معاف کر دیتا ہے پھر ہم کون ہوتے ہیں کسی پر فتوٰی لگانے والے اگر ہمارے بیٹے کی خوشی اسی میں ہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں لوگوں کا تو کام ہے دوسروں پر پتھر پھینکنا آپ اویس کو ہاں کہے کہ ہم راضی ہیں اللّہ ہمارے بیٹے کو اس کی اچھی نیت کا پھل ضرور دے گا انشاءاللہ ۔منزہ بیگم نے دل سے اٰمین کہا اور اویس کے کمرے کی طرف جانے لگی اور سوچنے لگی کہ ہر غزل کی قسمت میں اویس نہیں ہوتا اس لیے ہر لڑکی کو خود کو ان چمکتے ناگوں سے بچانا چاہیے۔ جو ان کو جھوٹی جنت دکھا کر جہنم میں پھینک دیتے ہیں ۔