Advertisement

کراچی رہنے کے قابل کیوں نہیں رہا؟

وزیر ِ اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کراچی پر اپنی پارٹی کی پندرہ سالہ حکمرانی کے بعد زبردست بات کہی ہے، ان کا کہنا ہے کہ کراچی کو قابل رہائش شہر بنانے کے لیے 3 ارب ڈالرز درکار ہیں، اس سال کراچی کے ترقیاتی کاموں کے لیے 218 ارب روپے رکھے ہیں، ہر سال کراچی پر 1000 ارب روپے خرچ ہونے چاہئیں، ان کے اس مطالبے یا خواہش پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے، لیکن چونکہ ان کی پارٹی مسلسل اس صوبے پر حکمران ہے اور صوبے کا دارالحکومت پاکستان کا اقتصادی دارالحکومت بھی ہے تو ان سے سوال کیا جاسکتا ہے بلکہ سوالات کیے جاسکتے ہیں کہ پندرہ سولہ سال قبل کراچی کیسا تھا، اور یہ کہ اب رہنے کے قابل کیوں نہیں رہا، دنیا کے دسویں بڑے شہر کو دنیا کے گندے شہروں میں اولین نمبروں پر لانے کا ذمہ دار کون ہے۔ خود وزیر اعلیٰ کی گفتگو میں کچھ باتیں ایسی ہیں کہ ان پر بھی سوال اٹھنا چاہیے۔ وہ کہتے ہیں کہ شہر کو رہنے کے قابل بنانے کے لیے تین ارب ڈالر کی ضرورت ہے، یعنی تقریباً ایک ہزار ارب روپے کی ضرورت ہے لیکن کراچی کو کلک اور دوسرے عالمی منصوبوں کے ذریعہ اربوں روپے دیے جارہے ہیں، تو پھر وہ پیسے کہاں جارہے ہیں؟
سرکاری کاموں میں خورد برد تو ایک عام سی بات ہے اور برسوں سے جاری ہے کہیں کم ہوجاتی ہے اور کہیں بڑھ جاتی ہے لیکن کراچی کو اس بھاری فنڈنگ کے بعد بھی شہر کے درجے پر برقرار رکھنا مشکل ہوگیا ہے، اگر وہ یہ کہتے کہ کراچی کو شہر بنانے کے لیے اتنی رقم کی ضرورت ہے تو بات سمجھ میں آتی، محترم آپ کی پارٹی کی حکومت کے دوران یہ شہر کھنڈر بن گیا ہے، کہیں کوئی سڑک سلامت نہیں، اتفاق سے کوئی بچ گئی ہو تو اس کی قسمت وہ بھی پہلے کی بنی ہوئی ہو تو ایسا ہوسکتا ہے، پیپلز پارٹی کے دور میں بننے والی سڑکیں تو راہ گیر ہاتھوں سے توڑ توڑ کر اٹھا کر دکھاتے رہے۔ وزیر اعلیٰ کہتے ہیں کہ ہم نے بڑی جدوجہد کے بعد نالے ٹھیک کروائے، ٹرانسپورٹ سیکٹر میں سندھ حکومت نے کافی کام کیا ہے، گرین لائن بنائی ہے اور اب ریڈ لائن اور یلو لائن پر کام جاری ہے، پیپلز بس سروس سندھ حکومت کا اپنے لوگوں کے لیے تحفہ ہے، خواتین کے لیے پنک بس سروس بھی شروع کی ہے۔ ان کے ایک ایک نکتے کو لیں تو سب کچھ سامنے آجائے گا، نالوں کو ٹھیک کرنے کے دعوے تو ہرسال بارش میں بہتے نظر آتے ہیں۔ ٹرانسپورٹ سیکٹر میں کافی کام میں انہوں نے گرین لائن کا ذکر کیا ہے وہ تو بن گئی ہے لیکن ریڈ لائن تو نہ ختم ہونے والا منصوبہ ہے۔ برسوں تاخیر سے شروع ہونے کے باعث لاگت میں بے پناہ اضافہ ہوگیا جس کی وجہ سے ادائیگیاں رک گئیں اور کام بھی بار بار بند ہوا۔ یہ منصوبہ یونیورسٹی روڈ سے گزرے گا، لیکن اس کی تکمیل کے دوران یونیورسٹی روڈ جان سے گزر گئی، اب لوگ اسے یونیورسٹی روڈ کے بجائے یونیورسٹی گلی کہتے ہیں۔
صفورا سے مزار قائد اعظم تک سڑک کھود ڈالی گئی ہے کہیں کام کا کوئی حصہ مکمل نہیں ہے، یہ اس مسجد کی طرح زیر تعمیر ہے جس کے لیے بیس بیس سال چندہ ہوتا رہتا ہے، مسجد بنتی ہے نہ چندہ رکتا ہے، حکومت سندھ کراچی کی تعمیر بھی اسی نہج پر کررہی ہے۔ پوری ریڈ لائن کا ٹریک تباہ حال ہے روزانہ یہاں سے لاکھوں لوگ گزرتے ہیں اور شدید تکلیف میں گزرتے ہیں، اگر یہ منصوبہ بن بھی گیا تو شاید بھرپور استعمال پر بھی بیس ہزار لوگ اس سے فائدہ اٹھا سکیں گے اور لاکھوں لوگ مستقل تکلیف میں رہیں گے۔ اس منصوبے کی راہ میں کراچی کی علامت اسلامیہ کالج کے سامنے موجود دنیا کا نقشہ ہے، جو اس شہر کے لیے تاریخی حیثیت رکھتا ہے، یہ بھی اس کی لپیٹ میں آئے گا، اس سے آگے پیپلز چورنگی ہے یہ بھی تاریخی جگہ ہے جبکہ اس سے آگے اگر ریڈ لائن کو لے گئے تو مزاز قائد کی دوسری جانب بھی سڑک تنگ ہوجائے گی، ایک طرف پہلے ہی شاہراہ قائدین انڈر پاس نے سڑک پتلی کر دی ہے اور اب کاسموپولیٹن کلب والی جانب سے بھی ریڈ لائن گزرنے سے مزار قائد کا تقدس پامال ہوگا، یہ تقدس سیاسی جلسوں سے پامال ہوتا ہے مزار کے احاطے میں ہونے والی سرگرمیوں سے نہیں ہوتا لیکن ریڈ لائن گزرنے سے ضرور پامال ہوگا اور وی آئی پی نقل حرکت بھی اسی دروازے سے ہوگی ہے، یہ منصوبہ جو پہلے ہی تاخیر کا شکار ہے مزار قائد تک پہنچنے میں تو لگتا ہے کہ ایک سال مزید لگے گا۔ اس پر نظر ثانی کی جاسکتی ہے اسے اسلامیہ کالج کے سامنے سے موڑا جاسکتا ہے۔ اور جو یلو لائن کی بات انہوں نے کی ہے یہ منصوبہ بھی کم و بیش سترہ کلو میٹر کا ہے اور مسلسل صدر تعمیر ہے ہڑتال علمی بینک کے نمائندے کے دورے کے موقع پر اجلاس میں کہا جاتا ہے کہ تاخیر نہیں ہونی چاہیے منصوبہ 2025 میں مکمل ہوتا نظر نہیں آتا۔ اسی طرح پیپلز بس سروس بھی ہے چند ہی مہینوں میں اس کا کرایہ دوگنا کردیا گیا روٹس بدل دیے گئے اور کچھ بند کردیے گئے۔اس بس میں کرائی اس لیے زیادہ رکھا گیا تھا کہ لوگوں کو سیٹوں پر بٹھا کر سفر کرایا جائے گا۔ لیکن لوگ بے تحاشا آنے لگے تو بسوں میں اضافے کے بجائے کرایہ میں اضافہ کر دیا گیا لیکن لوگوں کو بٹھانا بھی بند نہیں کیا۔ اب یہ بھی عام بسوں کی طرح ہے۔ البتہ بیش تر اسے سی اب تک درست کام نہیں کر رہے ہیں۔ یہ تو تھی جاری منصوبوں کی بات آگے آئے گی حکومت کی جانب سے کراچی پر اخراجات کے اعلانات کی۔
وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ ہماری حکومت کراچی پر سالانہ اربوں روپے خرچ کررہی ہے سو ان اربوں روپوں کی تفصیل پر بھی غور کرلیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت سندھ نے مسلسل دوسرے مالی سال کے بجٹ میں کراچی کے لیے کسی نئی بڑی ترقیاتی اسکیم کا اعلان نہیں کیا۔ بلکہ جس رقم کو کراچی کے لیے رقم کہا گیا ہے وہ عالمی بینک یا بین الاقوامی اداروں، پرائیویٹ سیکٹر اور سندھ حکومت کی معمولی شراکت والی رقوم اور جاری منصوبوں پر خرچ ہے۔
ڈان اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق ایک طرف پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے میئر کراچی مرتضیٰ وہاب نے حال ہی میں وفاقی حکومت سے شہر کی بہتری کے لیے جامع پیکیج کا مطالبہ کیا تو دوسری جانب ان کی اپنی ہی جماعت نے اپنے 30 کھرب 65 ارب روپے کے صوبائی بجٹ میں ملک کے تجارتی دارالحکومت کو نظر انداز کر دیا۔
ڈان کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بجٹ دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ کراچی کو سالانہ ترقیاتی پروگرام (اے ڈی پی) میں حکومت سندھ کی جانب سے ’کراچی سٹی کے لیے میگا اسکیموں‘ کی مد میں انفرا اسٹرکچر کی تعمیر و بحالی کی کوئی نئی اسکیم نہیں ملی۔ بلکہ صوبائی حکومت نے مالی سال 25-2024 کے بجٹ میں کراچی میں پہلے سے جاری 11 میگا اسکیموں کے لیے ایک ارب 39 کروڑ روپے مختص کیے ہیں۔ یعنی کوئی نئی اسکیم نہیں ہے اور ایسا گزشتہ بجٹ میں بھی کیا گیا تھا۔ مزید یہ کہ مالی سال 25-2024 میں سب سے زیادہ ایک ارب روپے کورنگی کاز وے کی تعمیر کے لیے مختص کیے گئے ہیں، اس کے بعد ایم 9 سے تھدو نالہ براستہ مہران ڈرین کی تعمیر کے لیے 10 کروڑ روپے مختص کیے ہیں۔ اس کے علاوہ کلفٹن میں نہر خیام کی بحالی، رزاق آباد سے شیدی گوٹھ پاور ہاؤس تک سڑک کی بحالی اور اسے چوڑا کرنے، سچل گوٹھ مین روڈ کی تعمیر، ناصر بروہی ہوٹل سے مبارک ولیج تک روڈ کی تعمیر اور منظور کالونی نالے کی مرمت کے لیے رقم مختص کی گئی ہے۔
وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے سندھ اسمبلی میں اپنی بجٹ تقریر کے دوران کراچی سرکلر ریلوے (کے سی آر)، گریٹر کراچی سیوریج پلان (ایس 3)، گریٹر کراچی واٹر سپلائی اسکیم (ایس 3) (کے 4) جیسی طویل عرصے سے التوا کا شکار اسکیموں کے لیے رقوم مختص کرنے کا اعلان کیا اور واضح کیا کہ آئندہ مالی سال کے سالانہ ترقیاتی پروگرام (اے ڈی پی) کے تحت کوئی نئی ترقیاتی اسکیم نہیں ہے۔
اگر جائزہ لیا جائے تو سندھ حکومت صوبے کے ٹیکس میں سے نوے فی صد سے زیادہ کراچی سے وصول کرتی ہے لیکن جب اس شہر پر خرچ کا وقت آتا ہے تو حکومت خاموش بیٹھ جاتی ہے یا مرکز سے پیسے مانگتی ہے، حالانکہ گزشتہ پندرہ سال میں کراچی کی جو ٹوٹ پھوٹ ہوئی ہے اس کی روشنی میں کراچی سے حاصل شدہ ٹیکس کا ساٹھ فی صد سے زائد اس کے انفرا اسٹرکچر کی بحالی پر خرچ ہونا چاہیے لیکن ایسا نہیں ہورہا ٹیکس کے علاوہ ایم کیو ایم کے تعاون سے کراچی کے درجن بھر اداروں کو سندھ حکومت نے اپنی تحویل میں لے لیا اور اس طرح ان سب کا بجٹ بھی وہی کنٹرول کرتی ہے لیکن ان اداروں میں کراچی کے لوگوں کو ملازمت نہیں ملتی۔
دوسری طرف خرابی کا حال کیا ہے وہ کسی سے ڈھکا ہوا نہیں، شہر کی سڑکیں بمباری سے تباہ شدہ کسی شہر کا منظر پیش کرتی ہیں، کوئی علاقہ ایسا نہیں جہاں گٹر نہ بہہ رہے ہوں، ٹیکس لینے کے لیے کے ایم سی، کے ڈی اے، کنٹونمنٹ، ڈی ایچ اے، ایکسائز، کے الیکٹرک واٹر بورڈ سب تیار ہیں، کوئی شہری بل نہ جمع کرائے تو سرچارج لگ کر آتا ہے۔ ساٹھ دن جمع نہ کرائے تو بجلی کا کنکشن کاٹا جاسکتا ہے بلکہ کے الیکٹرک تو پہلے ہی کاٹ دیتی ہے، پانی کا بل ادا نہ کیا جائے تو واٹر بورڈ ڈسکنکشن نوٹس دیتا ہے، گیس کا بل نہ دیں تو گیس کٹ جاتی ہے۔ لیکن اگر واٹر بورڈ پانی، سوئی گیس والے گیس نہ دیں تو ان پر کیا جرمانہ ہوتا ہے؟ بجلی والے بجلی نہ دیں تو ان پر کوئی جرمانہ نہیں۔ کے ایم سی سڑکیں نہ بنائے تو کوئی جرمانہ نہیں تو پھر ٹیکس کس بات کا؟ پانی ٹینکر سے، بجلی جنریٹر سے، سیکورٹی پرائیویٹ گارڈز سے، صفائی چینی کمپنی یا افغان بچوں سے، سڑکیں اپنی مدد آپ کے تحت بنائی جائیں اور سرکار کی خدمت میں ٹیکس پیش کیا جائے یہ کہاں کا انصاف ہے۔ شہر بھر میں کچرے کے ڈھیر ہیں، بے تحاشا بیماریاں ہیں، تعفن ہے، ان ڈھیروں کا مرکز مسجد، اسکول اسپتال یا پارک وغیرہ کے ساتھ دیواریں ہوتی ہیں۔ اور جو اسپتال صوبائی حکومت اور بلدیہ کے زیر انتظام اور زیر کنٹرول ہیں ان کا جو حال ہے وہ کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں، عمارت ہے تو ڈاکٹر نہیں، ڈاکٹر ہے تو دوائیں نہیں، کہیں جنریٹر نہیں، کہیں ضروری عملہ غائب اور اتائی تو کہیں بھی بیٹھ جاتے ہیں، سرکاری اسپتالوں میں تو نان میٹرک ایم ایس اور ڈائریکٹر میڈیکل سروسز بنا دیا جاتا ہے۔
سرکاری اسپتالوں کی دوائیں مارکیٹیں میں فروخت ہونے کی خبریں تو عام ہیں۔ لیکن اسپتالوں میں ملازمتیں، ترقی اور پوسٹنگ وغیرہ سب کچھ تباہ ہے۔ جسارت ہی کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج جسے درجہ بڑھ کر یونیورسٹی بنادیا گیا ہے میں‘ میڈیکل یونیورسٹی میں آئوٹ نہیں کرلیا جارہا۔ یہی حال عباسی شہید اسپتال کا بھی کردیا گیا ہے۔ البتہ قومی ادارہ برائے امراض قلب کے معاملے میں صوبائی حکومت خاصی مستعد ہے کیونکہ مراکز میں کچھ قوتیں اس ادارے کو واپس لینے کی خواہش رکھتی ہیں۔
یہی حال تعلیم کا بھی کہا گیا ہے۔ شعبہ تعلیم بھی صوبائی معاملہ قرار پاچکا ہے اور یہاں صوبائی حکومت کے زیر انتظام تعلیمی اداروں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں بھی ملازمت، تقرر ترقی تنزلی سب کچھ سیاسی بنیادوں پر ہورہا ہے۔ پارٹی کے اہم عہدیدار تمام کام کی نگرانی کرتے ہیں۔ میٹرک کے امتحانات میں جو دھاندلی کی گئی نتائج خراب کیے گئے ہیں۔ اس پر کوئی ٹھوس کارروائی نہیں ہوئی۔ پبلک سروس کمیشن کے امتحانات اور نتائج بھی متنازع ہوجاتے ہیں۔ باقاعدہ امتحان پاس کرکے پرائمری اور سیکنڈری اسکول ٹیچرز کو ملازمت نہیں مل رہی اور سندھ کے اسکولوں کا تو رونا کیا کراچی جیسے شہر کے اسکولوں میں بھی جانور بندھے نظر آتے ہیں۔ پھر بھی کہتے ہیں کہ کراچی کو رہنے کے قابل بنایا جائے گا۔ اگر وزیر اعلیٰ کراچی کو رہنے کے قابل بنانا چاہتے ہیں اور شہر کے درجے پر واپس لانا چاہتے ہیں تو ایک کام کریں۔ وزیراعلیٰ خود اورنگی میں رہیں، صوبائی وزیر بلدیات لانڈھی یا نیو کراچی میں رہیں، تمام وزرا اور سرکاری ارکان اسمبلی بھی لیاقت آباد، فیڈرل بی ایریا، کورنگی شاہ فیصل کالونی میں رہیں۔ سرکاری بسوں میں سفر کریں، سرکاری اسکولوں میں بچوں کو پڑھوائیں اور سرکاکاری اسپتالوں میں اپنا اور گھر والوں کا علاج کروائیں۔ کراچی شہر بھی بنے گا اور رہنے کے قابل بھی ہوجائے گا۔
کراچی رہنے کے قابل کیوں نہیں رہا اس کا جواب تلاش کرنا ہو تو کسی بھی علاقے میں کسی پارک میں چلے جائیں، باہر کچرا اور ٹھیلے والے، اندھیرا، اور اندر بھرپور تجارتی سرگرمیاں، ہر چیز کے پیسے، جھولے وغیرہ سب کے پیسے ہوتے ہیں۔ ہر چیز ٹھیکے پر چل رہی ہے، کسی سڑک پر پیدل چلنا چاہیں تو سڑک کم اور گڑھے زیادہ ملیں گے، گڑھوں سے بچ گئے تو آوارہ کتوں کی بہتات، کمال یہ ہے کہ اسٹریٹ لائٹس پورے شہر میں لگی ہوئی ہیں لیکن روشن صرف ضرورت کے مطابق کی جاتی ہیں، کسی سرکاری شخصیت کے دورے، سیاسی رہنما کے جلسے وغیرہ کے موقع پر لائٹ روشن ہوجاتی ہے۔ اور اس کیفیت میں اگر سڑک پر حکومت کے پالے ہوئے آوارہ کتے، جی پالے ہوئے اس لیے کہ نام نہاد سول سوسائٹی کی فرمائش پر کتے نہیں مارے جاتے آدمی کتے کے کاٹنے سے مرجائے تو خیر ہے، ان کتوں کو نہ مارنے کے لیے جو منصوبہ بنایا گیا تھا وہ تو کبھی روبہ عمل نہیں آیا اور کتوں کو مارنے کی دوا اور وہ مٹھائی جس میں رکھ کر دوا دی جاتی تھی وہ پتا نہیں کون کھا جاتا ہے، کم از کم کتے تو نہیں ورنہ مرجاتے، اس سے بڑی کوئی مخلوق ہے جو یہ سب کھا جاتی ہے۔ اور حکومت کے ان انتظامات کی وجہ سے کوئی کتا کسی کو کاٹ لے تو سرکاری اسپتالوں میں ویکسین ندارد، یہ ویکسین کہاں جاتی ہے، یہ بھی سرکاری ٹیکا ہے۔ تازہ واقعہ کراچی کے پوش کہلائے جانے والے علاقے پی ای سی ایچ ایس میں ایک سینئر ڈاکٹر صنور علی پر بیک وقت تین آوارہ کتوں نے حملہ کر دیا، ان سے بچنے کی کوشش میں وہ ٹوٹی ہوئی سڑک پر گرگئے، جس سے ان کے دونوں بازو ٹوٹ گئے، یہ ایک واقعہ نہیں ہے کراچی کے بیش تر علاقے اس مسئلے کا شکار ہیں، اس میں کچی آبادی اور پوش علاقے کی کوئی تخصیص نہیں۔
جہاں تک کچی آبادیوں کا تعلق ہے تو کچی آبادی میں تو لوگ ان کتوں کی نفسیات سے واقف ہوتے ہیں اور کتے بھی اوقات میں رہتے ہیں لیکن کیا کریں کراچی کے بہت سے علاقوں کے لوگ اس غلط فہمی میں ہیں کہ وہ عبدالستار افغانی یا نعمت اللہ خان کے کراچی میں ہیں اور یہ اب تک شہر ہے، گزشتہ پندرہ برس میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے بڑی محنت سے اس شہر کو اجاڑا اور پیپلز پارٹی نے تو وہ کمال کیا کہ اپنے منشور پر بھرپور عمل کیا، سندھ کے گائوں دیہات کو کراچی کے برابر کرنے کے دعوے پر اس طرح عمل کیا کہ تمام شہروں اور دیہات پر توجہ دینے کے بجائے کراچی پر پوری توجہ مرکوز کی اور دیکھتے ہی دیکھتے کراچی ان دیہات کے برابر ہوگیا ہے، وہاں بھی بجلی، سڑک، صاف پانی، روشنی، پارکس، تعلیمی ادارے، اسپتال اور ڈاکٹر نہیں ہیں اور کراچی میں یہ سب کچھ تھا اس سے بھی لے کر پورے صوبے کو برابر کردیا ہے۔
سب سے بڑا جرم بلدیاتی نظام کا بیڑا غرق کرکے کیا گیا ہے۔ کئی برس قبل جناب مرتضیٰ وہاب کو کراچی کا ایڈمنسٹریٹر بنایا گیا تھا۔ پھر جب انتخابات ہوئے تو کراچی کے عوام سے ان کے نمائندوں کا حق چھین کر پی پی پی کی جھولی میں ڈالا گیا۔ بلدیاتی حلقہ بندیوں سے لے کر کونسلرز کی تعداد، انتخابی دھاندلیوں، جعلی نتائج سمیت ہر دھاندلی کرکے درجنوں یوسیز چھین لی گئیں۔ جماعت اسلامی سے چھے ٹائون چھینے گئے۔ اس پر بس نہیں کیا گیا ہے بلکہ انتخابات کے بعد بلدیاتی قوانین میں تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ جو اختیارات یوسز اور ٹائون کو تھے وہ بھی ہڑپ کرلیے گئے۔
چونکہ سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس کی مدد سے سارے کام ہورہے تھے اور اس کے نگراں وزیر بلدیات سعید غنی صاحب ہیں۔ چنانچہ الیکشن سے قبل یہ دھاندلی کی گئی کہ ایک یوسی جو عموماً پچاس ساٹھ ہزار ووٹرز پر مشتمل ہوتی ہے پیپلز پارٹی نے درجنوں یوسیز دس دس ہزار ووٹوں والی بنالیں جہاں پندرہ سو ووٹ لینے والا بھی جیت رہا تھا۔ اس طرح چیئرمین اور وائس چیئرمین ان کے بڑھنے لگے۔ پھر بھی گنتی پوری نہیں ہورہی تھی تو پی ٹی آئی کے 30 لوگ خریدے اور جو بک نہیں سکے ان کو یا تو آنے نہیں دیا یا خوفزدہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس طرح میئر شپ پر قبضہ کرلیا گیا۔ طرح طرح کی ترامیم کرکے مخصوص نشستوں پر من پسند لوگوں کو منتخب کرایا گیا۔ ٹائون اور یوسیز کے چیئرمین کے اختیارات اس قدر کم کردیے گئے کہ اب سویپر، نائب قاصد، مالی، چوکیدار وغیرہ کی تنخواہ کی شیٹ پر بھی یوسی یا ٹائون چیئر مین کے بجائے پارٹی کے بھرتی کردہ سیکرٹری کے دستخط ہوتے ہیں۔ جبکہ سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان نے تمام یوسی ناظمین کو بااختیار بنایا تھا ان کے دستخط کے بغیر عملے کو تنخواہ جاری نہیں ہوسکتی تھی جس کی وجہ سے ایم کیو ایم کے بھرتی کردہ عملے کو بھی کام پر آنا اور کام کرنا پڑتا تھا لیکن اب تمام اختیار یوسی سیکرٹری کو دے دیا گیا ہے اور کئی یوسیوں میں تو پارٹی کے لوگ حاضری اور ڈیوٹی لگاتے ہیں جس کی وجہ سے پورے شہر میں خصوصاً پیپلز پارٹی کے مخالفین کی یوسیوں میں کچرا اٹھانے کا کام بند کردیا گیا ہے۔ عملہ ٹائون کے حوالے کیا جارہا ہے جو پارکس یا ٹائون آفس میں ان کو بٹھا کر اپنی مرضی کی ڈیوٹی دے رہا ہے۔
کراچی رہنے کے قابل کیوں نہیں رہا۔ وزیراعلیٰ یہ سوال اپنے میئر مرتضیٰ وہاب سے بھی پوچھ سکتے ہیں کیونکہ مرتضیٰ وہاب میئر ہیں پارٹی کے اہم رہنما ہیں۔ وزیر بلدیات کے پسندیدہ ہیں۔ کچرا صفائی کا کام کرنے والے ادارے سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ ان کے ماتحت ہے۔ کراچی میں واٹر بورڈ کے ذمے دار میئر صاحب ہیں ان کے ماتحت سب کچھ ہے۔ پانی نہیں آرہا تو وزیر اعلیٰ سے پوچھیں، سڑکوں گلیوں میں گٹر بہہ رہے ہیں تو ان سے پوچھا جائے کہ شہر رہنے کے قابل کیوں نہیں۔ فائر بریگیڈ ان کے اختیار میں ہے تمام بڑے پارکس میئر کے کنٹرول میں ہیں۔ پھر بھی شہر سے کچرا صاف ہورہا ہے نہ بہتے گٹر ٹھیک ہورہے ہیں۔ تو اہل کراچی کو بتایا جائے کہ کراچی رہنے کے قابل کیوں نہیں رہا اور جتنی رقم وزیراعلیٰ نے مانگی ہے یا بتائی ہے مختلف منصوبوں کے نام پر وہ رقم بلکہ اس سے زیادہ حکومت کو ملتی ہے۔ پھر بھی وزیراعلیٰ فرما رہے ہیں کہ کراچی کو رہنے کے قابل بنانے کے لیے اتنی ساری رقم چاہیے۔ وزیراعلیٰ صاحب کسی کام کے لیے رقم بنیادی چیز نہیں ہے عزم بنیادی چیز ہے۔ عزم کریں رقم فراہم ہوجاتی ہے۔ لیکن ایسا محسوس ہورہا ہے کہ کراچی کو تو جان بوجھ کر تباہ کیا جارہا ہے۔ سڑکیں، گٹر لائنیں، پانی کی فراہمی، کچرا اٹھانے کا نظام، سڑکوں پر روشنیاں، آوارہ کتے، اندھیری سڑکیں یہ سب کس کی ذمے داری ہے۔ اس سارے نظام کو خراب اور تباہ کرنے میں دو چیزیں سب سے زیادہ ذمے دار قرار دی جاسکتی ہیں۔ ایک پارٹی کی بنیاد پر تقرر اور دوسرے بدعنوانی۔ پارٹی کی بنیاد پر تقرر بھی اہل لوگوں کا نہیں ہوتا بلکہ پیسوں اور تعلقات کو زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ پھر جو لوگ پیسے کھلا کر کلرک سے ڈائریکٹر تک کوئی بھی عہدہ سنبھالتے ہیں وہ پیسہ کھانا شروع کردیتے ہیں۔ پھر بھتے کا نام ٹیکس رکھ دیا جاتا ہے۔ ٹیکس لینے پر مامور عملہ ٹیکس کے بجائے خرچی لیتا ہے اور چلا جاتا ہے، سرکاری آمدنی میں کمی ہورہی ہے اور عملے کی بڑھ رہی ہے۔ تیسری بڑی خرابی یہ ہے کہ کراچی کے میئر اور ان کی پارٹی اپنے مخالفین کو نقصان پہنچانے یا ان کے علاقوں میں کام روکنے کے چکر میں بھی کراچی میں تباہی پھیلا رہے ہیں۔ جب صفائی کا عملہ مخالفین کے علاقوں سے اٹھالیا جائے تو صفائی کیسے رہے گی۔ اس طرح وہ سمجھ رہے ہیں کہ جماعت اسلامی کے یوسی چیئرمین کے خلاف فضا بنے گی لیکن ایسا نہیں ہوا اور جماعت اسلامی کے کارکنوں نے دن رات ایک کرکے اپنے وعدے کو پورا کیا اور کام شروع کردیا۔ جبکہ پیپلز پارٹی نے شہر میں 18 سے بڑھا کر 25 ٹائون کردیے لیکن بیش تر ٹائونز کے پاس دفاتر نہیں، شہر کی 223 یوسیز کے پاس دفاتر نہیں، سارا اختیار سیکرٹری کو ہے جو پارٹی کے کوٹے پر آتا ہے۔ چنانچہ وہ جہاں چاہے عدالت لگا کر بیٹھ جاتے، اب بیش تر جگہ سیکرٹری منتخب نمائندے سے زیادہ بااختیار ہے۔
پیپلز پارٹی سے پہلے متحدہ کا کنٹرول تھا تو انہوں نے اپنا عملہ بھرتی کر رکھا تھا اب بھی ہر ٹائون کے میڈیا کے شعبے میں متحدہ کے بھرتی کردہ لوگ موجود ہیں یا پی پی کے۔ اب ان کے پاس کام بھی نہیں ہے، جس یوسی میں اختیارات کے بغیر کام ہورہا ہے وہ اس کی خبر بھی جاری نہیں کرتے۔
کراچی کو رہنے کے قابل نہ رہنے دینے کی ذمے داری حکومت سندھ ہے اس نے ہر وہ کام کیا کہ کراچی رہنے کے قابل نہ رہے۔ اس کے لیے اپنا ایڈمنسٹریٹر بٹھایا، پھر انتخابات سے فرار ہوئے، اب یہاں تک کہ عدالت سے حکم آگیا پھر بھی ٹالتے رہے، بالآخر پوری دھاندلی کی بھرپور تیاری کے ساتھ الیکشن کرایا نمبر پھر بھی پورے نہیں ہوئے تو دھونس دھاندلی اور مال خرچ کرکے سرکاری مشینری کی مدد سے اپنا میئر بنا ہی لیا۔ لیکن اب یہ معاملہ بھی الٹا ہورہا ہے۔ جماعت اسلامی کے منتخب یوسی چیئرمین، کونسلر اور ٹائون کے چیئرمین اختیارات اور وسائل کے بغیر کام کررہے ہیں۔ اس بے سروسامانی کے عالم میں بھی شہر کو مختصر عرصے میں سو سے زائد پارکس کا تحفہ دے دیا ہے اور دیکھتی آنکھوں کے سامنے شہر میں پارک جگمگا رہے ہیں۔ جماعت اسلامی سے سابق میئر کے دور سے بھی زیادہ اختیارات چھینے گئے ہیں لیکن اس نے اختیارات کا رونا نہیں رویا بلکہ منتخب نمائندوں کے اختیارات کے حصول کی جنگ قانونی طور پر لڑ رہی ہے اور میدان میں اپنی مدد آپ، الخدمت اور مخیر حضرات کے تعاون سے کام میں مصروف ہے۔ ۱۰۰ سے زیادہ ایسے پارک بحال اور تیار کیے گئے ہیں جن میں کوئی تجارتی سرگرمی نہیں ہے۔ پورا پورا پارک عوام کے لیے مفت تفریح کا ذریعہ ہے۔ اس طرح ایک اور بڑا کام کیا گیا ہے اور وہ جاری ہے، شہر کے 31 سرکاری اسکولوں کو جو تباہ کردیے گئے تھے نئے سرے سے بحال کرکے وہاں تعلیم کا سلسلہ بحال کردیا ہے۔ اب ہر روز نئے داخلوں کے لیے لوگ آرہے ہیں اور اچھے نمبروں سے یہاں کے بچے پاس ہورہے ہیں۔ اسی طرح گلبرگ ٹائون کے سرکاری اسکول کے بچے نے 28 برس میں پہلی مرتبہ سرکاری اسکول سے ٹاپ کیا ہے۔ یعنی محض خانہ پری کے لیے اسکول بحال نہیں کیے گئے ہیں وہاں معیاری تعلیم بھی دی جارہی ہے۔ ان گزارشات کو مختصر حوالہ ہی سمجھا جائے ورنہ اگر کراچی کی تباہی کے اسباب تحریر کرنا شروع کردیں تو دفتر کے دفتر بھرے جاسکتے ہیں۔ اور ہر شعبے کی تباہی کے پیچھے وہی لوگ ملیں گے جو آج کل حکمراں ہیں یا پہلے متحدہ کے ساتھ حکمران رہے۔ پھر بھی پوچھتے ہیں کہ کراچی کو رہنے کے قابل کیسے بنایا جائے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریر، تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ bisaat.mag@gmail.com پر ای میل کردیجیے۔
error: