رواں سال مون سون سیزن کے بارے میں مختلف قومی اور بین الاقوامی اداروں نے انتباہی نوٹس جاری کئیے تھے ،کہ اس سال غیر متوقع طور پر زیادہ بارشیں ہونگی اور یہ سب کچھ متوقع ہی تھا ،اس بارے میں انتظامات کرنا حکومت کا کام تھا لیکن اگست میں ملک بھر میں جو تباہی ہوئی اس محض قدرتی آفت قرار دیکر فرار نہیں ہوا جاسکتا ۔پہلے کے پی کے میں تباہی ہوئی پنجاب میں ریلے بہت کچھ بہاکر لے گئے اور پھر سندھ خصوصا کراچی میں زوردار بارش نے تباہی مچادی۔ اور پیپلز پارٹی کی سترہ برس کی کارکردگی ایک ہی ریلے میں بہہ گئی۔ خیبرپختونخوا کے ضلع بونیر کے بارے میں سرکاری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کلاؤڈ برسٹ اور سیلاب سے اموات کی تعداد 400 سے تجاوز کر چکی( اب مزید ہوگئی )۔ 671 زخمی ہوئے ،اور4 ہزار 54 مویشیوں کے نقصان کی تصدیق ہو چکی ہے۔ابتدائی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2300 مکانات مکمل طور پر تباہ ہو گئے، جب کہ 413 گھروں کو جزوی نقصان پہنچا ہے، تعلیمی ڈھانچہ بھی شدید متاثر ہوا ہے، اور 6 سرکاری اسکول اور 2 تھانے سیلاب میں بہہ گئے، 639 گاڑیاں تباہ ہوئیں، 127 دکانیں مکمل طور پر صفحہ ہستی سے مٹ گئیں اور 824 کو نقصان پہنچا۔ 2 بڑے پل مکمل طور پر بہہ گئے، جب کہ 4 پلوں کو جزوی نقصان ہوا ہے، صحت کی سہولیات بھی متاثر ہوئیں اور تین سرکاری اسپتالوں کو جزوی نقصان ہوا ہے۔
اسے قدرتی آفت کہا جارہا ہے یہ بات درست ہے کہ بارش اور طوفان انسانوں کے بس میں نہیں لیکن ابادیوں کو محفوظ رکھنا تو حکومتوں کا کام ہے، جو نہیں کیا گیا ،اس میں غفلت اور نااہلی دونوں شامل ہیں ۔ یہ بات اب سب کو معلوم ہوچکی ہے کہ دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلی سے سمندری طوفان غیر معمولی بارشیں معمول بن چکیں اور لوگ نئی اصطلاح کلاؤڈ برسٹ سے آشنا ہوئے ہیں۔ پاکستان بھی دیگر ممالک کی طرح موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی آلودگی کے باعث موسمی تغیرات کا سامنا کر رہا ہے، کہیں غیر معمولی بارشیں تو کہیں قیامت خیز گرمی، سیلاب، گلیشیئر پگھلنے کی رفتار میں اضافہ اور دیگر کئی موسمی تبدیلیاں شدید متاثر کر رہی ہیں۔ اس وقت بھی پاکستان بالخصوص پنجاب اور کے پی میں شدید بارشوں کا سلسلہ جاری ہے۔لیکن ندی نالوں دریاؤں کے پاٹ پانی کے راستوں پر آبادکاری حکومت ہی کو روکنی ہوتی ہے ۔ آجکل کلاوڈ برسٹ کی بات عام ہوگئی ہے ،دستیاب معلومات کی بنیاد پر بتایا جاسکتا ہے کہ کلاؤڈ برسٹ کیا ہوتا ہے، کیوں ہوتا ہے اور کب ہوتا ہے؟
کلاؤڈ برسٹ ہماری زمین کو متاثر کرنے والی ماحولیاتی تبدیلی کا ایک نیا مظہر ہے،اس میں نام کی طرح عملاً بادل نہیں پھٹتے تاہم بہت کم وقت میں ایک چھوٹے سے علاقے پر اچانک اتنا پانی برستا ہے کہ زمین اور نکاسی کا نظام اس کو سنبھال نہیں پاتا اگر ایسی صورتحال ہو تو یہ برساتی پانی سیلابی ریلے کی صورت اختیار کر لیتا ہے جب کہ مٹی کے تودے گرنے اور انفرااسٹرکچر کی تباہی جیسے حادثے پیش آ سکتے ہیں۔ موسم کی ایسی صورتحال میں ’’کلاؤڈ برسٹ یا بادلوں کا پھٹنا‘‘ کی اصطلاح ان معنوں میں استعمال کی جاتی ہے کہ جیسے بادل پانی سے بھرا غبارہ ہیں جو اچانک پھٹ جاتے ہیں۔ کلاؤڈ برسٹ عام طور پر پہاڑی علاقوں میں ہوتا ہے جہاں پانی کے بخارات سے لدی ہوا تیزی سے اوپر اٹھتی ہیں کیوں کہ پہاڑ کی ڈھلوانی سطح اسے اوپر اٹھنے میں مدد دیتی ہے،میدانی علاقوں میں عام طور پر ہوا نسبتاً آہستگی سے اوپر اٹھتی ہے۔ جب نم ہوا بلندی پر پہنچ کر ٹھنڈی ہوا سے ٹکراتی ہے تو بخارات پانی کے قطروں میں تبدیل ہو جاتے ہیں، ایسے میں بادل ان کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا تو اچانک ہی بڑی مقدار میں پانی برس پڑتا ہے،اس لیے کہ یہ بہت چھوٹی سی جگہ پر اچانک ہی ہوتا ہے اور اس کی پیشگوئی کرنا مشکل ہےتاہم کلاؤڈ برسٹ کا مطلب عام موسلادھار بارش یا طوفانی بارش نہیں بلکہ اس لفظ کی ایک خاص تعریف یہ ہے کہ چھوٹی سی جگہ پر ایک گھنٹے یا اس سے بھی کم وقت میں 100 ملی میٹر کے قریب پانی برسنا۔ویسے تو کلاؤڈ برسٹ عام طور پر پہاڑی علاقوں میں ہوتے ہیں تاہم ماحولیاتی تبدیلی کے باعث جیسے جیسے زمین کا درجۂ حرارت بڑھتا چلا جا رہا ہے تو میدانی علاقوں میں بھی کلاؤڈ برسٹ کے واقعات بڑھتے چلے جا رہے ہیں، اب یہاں مسئلہ یہ ہے کہ حکمران سارا ملبہ کلاوڈ برسٹ پر ڈال کر امدادی کاموں یعنی لاشیں نکالنے اور ملبہ ہٹانے میں لگ جائیں گے اور،اسے ریسکیو آپریشن کا نام دیا جائے گا ، جبکہ ریسکیو بچانے کو کہتے ہیں لاشیں نکالنے اور ملبہ ہٹانے کو نہیں۔کراچی میں اربن فلڈنگ کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ لیکن یہ کیوں ہوتی ہے اس کا ذمہ دار کون ہے، وہ دنیا سے فنڈ مانگنے لگ گئے ہیں ۔
کیا سب بارش اور کلاؤڈ برسٹ نے کیا ؟
















