ایک چھوٹے سے جرثومے کا تصور بھی کسی نے نہیں کیا ہوگا جس سے شرح اموات کا امکان 26 تک پہنچ جائے ، یا پھر ایسی صورتحال کہ جس میں موت کا تناسب 15 سگریٹ روزانہ پینے والے فرد جتنا ہوجائے! صحت کے حوالے سے ایک بحرانی کیفیت کا منظر پیدا ہوجائے جس کا تقابل کرونا سے پیدا شدہ ہنگامی صورتحال سے بخوبی کیا جاسکتا ہے !
یہ اوون جونز نامی برطانوی نوجوان کے بلاگ کا ابتدائی حصہ ہے جو فروری 2020ء کے پہلے ہفتے میں دی گارجین میں شائع ہوا۔( خیال رہےکہ اس وقت کرونا کی ہلاکت خیزی محض چین تک محدود تھی ۔یعنی انسانی زندگی کو درپیش جس خطرے کا جائزہ لیا جا رہا ہے وہ کرونا سے پہلےکا ہے !)
بلاگر نے جس مرض کی نشاندہی کی تھی، اس کا نام ہے تنہائی ۔۔۔ اس نے برطانوی معاشرے کا جائزہ لیا اور بتایا کہ بیس لاکھ سے زیادہ بالغ افراد دائمی تنہائی کا شکارہیں ۔اگرچہ اس میں بڑی تعداد برطانوی معمر شہریوں کی ہے مگر نوجوان اس سے بہت زیادہ متاثرہیں ۔انسانی جبلت ہے کہ وہ اپنے ہم نفسوں سے جڑا رہنا چاہتا ہے اورجس میں کمی کے باعث جسمانی اور ذہنی امراض کا شکار ہوجاتا ہے ۔ اس وقت ہمارا معاشرہ ٹکڑوں میں بٹا اپنے حصار میں گم بالکل اسی طرح ہے جیسے صنعتی انقلاب کے خاتمے پر تھا ۔” بلاگر نے جو کیفیت بیان کی ہے اس کو پڑھ کر ہمیں اپنے معاشرے کی کیفیت کا جائزہ لینا ہوگا، اس نے لکھا ہے کہ :
“۔۔۔ہمارے مجتمع ہونے کی جگہیں سکڑتی جا رہی ہیں ۔1970ء کے عشرے میں اصحاب کے 4000 سے زائد کلب موجود تھے اب محض 1300 باقی ہیں ۔ 21 ویں صدی کے آغاز سے ہی ایک تہائی شراب خانے بند ہوچکے ہیں ۔ رات گئے تک جاری زندگی کے ہنگامے ختم ہوچکے ہیں ۔ 2018 ء کی رپورٹ کے مطابق ہر پانچ میں سے ایک نائٹ کلب بند ہوچکا ہے ۔ سینکڑوں یوتھ کلب ختم ہونے کے قریب ہیں اور 800 کے قریب کتب خانے تحلیل ہوچکے ہیں ۔ گویا 2010ء کے بعد کاعشرہ حکومتی معاشی پالیسیوں کے نتیجے میں معاشرتی نظام کے لیے کلہاڑی کی ضرب ثابت ہورہا ہے ۔ دینی رحجان کے منکر افراد برطانیہ میں مذہبی رسومات کے زوال کو خوش آئند کہیں گے لیکن چرچز میں کم حاضری سے ہفتہ وار گفت و شنید کے مواقع بھی کم ہوگئے ہیں ۔۔۔””
(ہمارے معاشرے سے موازنہ کریں تو کتب خانے کاتو تصور ہی ختم ہوتا جارہا ہے، وہاں چرچ یہاں مساجد کا مسئلہ ہے، وہاں شراب خانے بند ہونے کا قلق تو یہاں کھلنے کا نوحہ ہے۔ وہاں نائٹ کلب تو یہاں رات بھر کے چائے خانے آگئے ہیں)
یہاں پر یہ نوجوان بلاگر سوال اٹھاتا ہے کہ ” کیا سماجی روابط کا دور ناقابل واپسی ہے؟ “
اس کےجواب میں وہ ایک منظر بیان کرتا ہے جو اس نے مقامی کلب میں دیکھا ” 80 سال کی عمر کے افراد اپنے سے 6 دہائی چھوٹی عمر کی خواتین سے محو گفتگو ہیں ۔۔۔۔یہ ” خاندان کی دیکھ بھال ” Family Care )) ” نامی ایک تنظیم کا تجویز کردہ خیال ہے ۔ یہ اس بات کا ابتدائیہ ہے کہ شہری علاقوں میں مقامی بوڑھوں اور نوجوان کاروباری افراد کے درمیان باہمی تعلقات ہوں ۔یہ موقع ایک پب میں فراہم کیا جارہا ہے جہاں فری ڈرنک پیش کیا جاتا ہے ۔۔”
وہ خود اپنا تجربہ بیان کرتا ہے ” ۔۔۔میں نے خود ایک ایک ایسی خاتون سے گپ شپ کی جو 1939ء کی پیدائش تھی اور جس نے 60ء کی دہائی میں یکساں شرح اجرت کی جنگ میں حصہ لیا تھا ۔ ۔ اسی طرح ایک خاتون جس نے اپنی بیمار ماں کی تیمار داری کئی سال تک تنہا رہ کر کی تھی اب خوف زدہ ہے کہ بڑھاپے میں اس کی دیکھ بھال کے لیے کوئی نہیں مل سکے گا ۔۔۔” بلاگر کے خیال میں دو نسلوں کے درمیان فرق اور فاصلوں کو کچھ کوششوں سے دور کیا جا سکتا ہے ۔
ایک 26 سالہ رضاکار اینی کا کہنا ہے کہ ” میرے خیال میں تنہا ہونا lonely اور تنہا کردینا isolation دو مختلف چیزیں ہیں ۔ بہت سے نوجوان افراد اپنے معاملات زندگی میں مصروف ہوکر تنہا ہوجاتے ہیں جبکہ معمر افراد تنہا کردیے جاتے ہیں ۔ ان کی سماجی حیثیت ختم ہوچکی ہے ۔ ان کے ارد گرد نہ خاندان ہے اور نہ دوست ۔۔”
اس صورتحال میں کئی ادارے اٹھے اور انہوں نےبڑی محنت کے بعد یہ بات دہرائ کہ ” تنہائی ناقابل برداشت ہے ۔ ہم سب کو دوسروں سے منسلک رہنے کی ضرورت ہے جو سماجی طور پر ہم سے چھن چکی ہے ۔علیحدہ علیحدہ ٹکڑیوں میں بٹ کر رہنا ایک غمناک تاثر ہے بلکہ ایک مہلک مرض بن کر سامنے آتا ہے ۔ تنہائی ہماری ذہنی اور جسمانی صحت کو تباہ کرنے والی چیز ہے جو رفتہ رفتہ موت کے منہ میں پہنچا دیتی ہے ۔ لیکن شکر ہے کہ ہم اس سے کسی نہ کسی طرح صحت یاب ہوسکتے ہیں ! بس ہمیں صرف قوت ارادی کی ضرورت ہے ۔۔۔”
یہ مضمون میں نے فروری 2020ء میں پڑھا تو اس کے حوالے سے اپنے معاشرے کا جائزہ لیتے ہوئے اس فکر کو مفید پایا ۔ یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ اس کے فورا بعد کرونا کا زمانہ آگیا جس میں آئسولیشن ہی کو علاج سمجھا گیا تو اس مضمون کی افادیت محسوس ہوئی ، بہرحال یہ میرے ڈیسک ٹاپ پر محفوظ رہا اور آج 5 سال بعد دوبارہ دیکھا تو بعد از کرونا کے زمانے میں اس مسئلے کی شدت میں اضافہ پایا ۔ اب آن لائن کاروبار زندگی نے سماجی روابط کو بری طرح متاثر کیا ہے ۔ ایک باپ بیٹے کا مکالمہ ذہن میں لائیں ! جس میں بیٹا اپنے باپ کو بنک جاکر رقم نکلوانے کو وقت کا ضیاع سمجھتا ہے لیکن باپ اس کو یہ کہہ کر خاموش رہنے پر مجبور کردیتا ہے کہ اس طرح میری کچھ لوگوں سے ملاقات ہوجاتی ہے ۔واقعی اس نظریہ سے دیکھا جائے تو آن لائن منتقلی رقم میں گھر بیٹھے منٹ بھرمیں کام ہوجاتا ہے لیکن فرد سے فرد کا رابطہ ختم ہوجاتا ہے ۔
( امریکا، کینیڈا، برطانیہ وغیرہ میں کرونا کے بعد سے ورک فرام ہوم کا تصور اور طریقہ بہت مقبول ہوا لیکن تین سال بعد ہی ان ممالک میں دفتر حاضری، فرد سے فرد کے رابطوں کی اہمیت کے پیش نظر ہفتے میں ایک دودن دفتر حاضری کا طریقہ بحال کردیا گیا ۔)
شہری آبادیوں کے بیرون ملک انخلا سے ہمارا سماجی ڈھانچہ بھی بری طرح متاثر ہے ۔ بظاہر ہماری آبادیاں گنجان نظر آتی ہیں لیکن تنہائی کا مسئلہ یہاں بھی موجود ہے ۔ ہمارا خاندانی نظام کسی حد تک محفوظ ہے ، معاشرتی اور سماجی ڈھانچے بھی نظر آتے ہیں کیونکہ مذہبی تعلیمات بھی اس طرف اشارہ کرتی ہیں لیکن ان سب کے باوجود ایک ذہنی و سماجی تنہائی کا عنصر موجود ہے ۔ جس کے لیے فکر مندی ہی نہیں بلکہ درستگی کی اشد ضرورت ہے ۔
مغرب اپنے تجربات سے سیکھ رہا ہے ہم اپنے تجربات سے سیکھیں۔
کوئی تو چارہ گر بنے !
















