بابا جان، ابھی تو صرف چند ہی دن ہوئے ہیں آپ کو بچھڑے ہوئے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے میرا وجود بھی آپ کے ساتھ ہی کہیں گم ہو گیا ہو۔ میری پوری کائنات ویران ہو گئی ہے، ہر سو ایک ناقابلِ برداشت سناٹا چھایا ہے۔ میرے اندر کے احساسات، میری روح کا کرب، انہیں بیان کرنے کے لیے دنیا کے الفاظ کم پڑ گئے ہیں۔ گھر کی ہر دیوار، ہر خاموش کونہ، آپ کی ہنستی، گونجتی آواز کو ترستا ہے۔ ہر چیز سنسان ہو گئی ہے، جیسے زندگی نے اپنا رنگ ہی کھو دیا ہو۔
اب کون ہے جسے ہم کہیں گے کہ “بابا جان، بچوں کو آواز دیں، دیکھیں سن نہیں رہے بات”؟ آپ کا وہ شفقت بھرا اٹھنا کہ “آؤں، میں آؤں” اور بچوں کا بھاگنا، وہ منظر اب کون دیکھے گا؟ ہم کس سے فرمائشیں کریں؟ آپ ہی تو تھے جو ہمارے ہر چھوٹے سے چھوٹے لاڈ کو اٹھاتے تھے، ہماری ہر خواہش کو اپنی خواہش بنا کر پورا کرنے میں خوشی محسوس کرتے تھے۔ اب کون ہمارے اور بچوں کے لاڈ اٹھائے گا؟ جب گرمی نے شدت پکڑی بابا جان کی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی تھی لیکن جیسے ہی آئسکریم والے کی آواز آتی دانیہ کو آواز دیتے اور سب گھر والوں کے لئے آئسکریم منگواتے۔ جب کوئی نئی چیز لاتے یا بچوں کی کوئی کامیابی دیکھتے، تو آپ کی آنکھوں میں وہ چمک دیکھتے جو ہماری خوشی میں انہیں سرشار کرتی تھی۔ اب وہ جوش کہاں سے لاؤں؟
ہسپتال میں جب ہوش میں آئے تو سب سے پہلا سوال تھا کہ دانیہ کا ایک اور پارے کا حفظ مکمل ہوا؟ کس نے جائزہ لیا تھا؟ کس نے سنا؟ اس کو کہیں جلدی جلدی حفظ مکمل کرے اور عالمہ بننے کی تیاری کرے میں خود لانا لے جانا کروں گا ۔ اب کون کرے گا بابا جان ؟ اللہ تعالیٰ ہمارے بچوں کو آپکی خواہش پوری کرنے والا اور آپ کے لئے صدقۂ جاریہ بنائیں۔
آمین یا رب العالمین ۔
آپ کی ذات علم و حکمت کا سمندر تھی۔ہمیں اور بچوں کو ہر پل کچھ نہ کچھ نیا سکھاتے رہتے تھے۔ کبھی قرآن و حدیث کی روشنی میں عربی، حفظ، ترجمہ و تفسیر کے موتی بکھیرتے، تو کبھی پودوں کی دنیا کے راز کھولتے، ان کے فوائد اور نشوونما کے گر سکھاتے۔ آپ کے ہاتھوں کا جادو تو ایسا تھا کہ ہر طرح کے حلوے اور مٹھائیاں، ہر پکوان کا ذائقہ آج بھی زبان پر ہے۔کس دن بابا جان کچن کا رخ کرتے تھے تو عید کا سماں ہوتا تھا ہر کسی کو کچن میں ہونا ضروری تھا۔ ایک ڈش بنتی تھی لیکن ھاتھ سب کے لگتے تھے۔ اس وقت ہم ہنستے تھے جب بابا جان کہتے کہ میں نے بنایا ہے۔
یہ تصویر آخری بار جب بابا جان نے کھانا بنایا تھا مچھلی کا سالن تب کی ہے۔ اور ایک تصویر جب دانیہ کے دو پارے حفظ ہوگئے تھے اسکو تحفہ دیتے ہوئے کی ہے۔ اور ایک عنایہ کی روزہ کشائی، کی بابا جان کے ساتھ آخری بار گئے تھے ہم۔
بابا جان آپ ہم سب کو اپنے ساتھ اس طرح لگا کر رکھتے تھے جیسے کوئی باغبان اپنے پودوں کو محبت سے سنوارتا ہے۔ آپ کے ساتھ گزارا ہوا ہر لمحہ الحمدللہ میری زندگی کا سب سے قیمتی اثاثہ ہے۔ بابا جان کے ساتھ کبھی کوئی بور نہیں ہوتا تھا ۔ ہر ایک کی دلچسپی کی باتیں کرتے اور اس میں بھی کچھ نہ کچھ سکھا دیتے تھے۔
آپ کی خدمت کرنے میں جو سکون اور خوشی ملتی تھی، وہ اب میری یاد بن چکی ہے۔ جب کچھ نئ ڈش بناتے تو بابا جان بہت خوش ہوتے تھے نئے اور مختلف ذائقے ان کو بہت پسند تھے۔
ہر بار جب آپ کو اسپتال لے کر جاتے تھے، دل شدید اضطراب میں ہوتا تھا، سانسیں اٹک جاتی تھیں، لیکن ایک ننھی سی امید کا دیا ہمارے اندر جلتا رہتا تھا کہ آپ صحت یاب ہو کر گھر آئیں گے۔ میری ہر کوشش ہوتی تھی کہ ہر بار آپ کے ساتھ اسپتال جاؤں، ماما کا سہارا بنوں۔ مگر اس بار… اس بار جب آپ کو گھر پر خون کی الٹیاں ہوئیں، اور سانسیں اکھڑنے لگیں… آپ کی وہ تکلیف، وہ کرب میری روح میں پیوست ہے۔ ہسپتال جاتے ہوئے بچے کہہ رہے تھے “آپ چلی جائیں ساتھ،” لیکن میرے اندر ایک انجانا خوف تھا، ایک ایسی دہشت کہ میں اس حقیقت کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں کر سکتی تھی کہ یہ آپ کی آخری سانسیں ہیں۔ میرے الفاظ حلق میں اٹک گئے تھے، میں کسی کو کچھ بتا نہیں پا رہی تھی، بس ایک سناٹا تھا جو میرے وجود پر چھا گیا تھا۔
بابا جان، آپ کی جدائی نے ہمارے دلوں کو وہ زخم دیا ہے جو شاید کبھی نہیں بھریں گے۔ بس اب یہی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے اگلے تمام معاملات آسان فرمائیں، آپ کی قبر کو جنت الفردوس کا باغ بنا دیں، آپ کو بے پناہ سکون اور راحت عطا فرمائیں، اور ہمیں اور ہمارے بچوں کو آپ کے لیے صدقہ جاریہ بنائیں۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین
احباب کے تاثرات
ثروت جمال اصمعی
ہمارے انتہائی عزیز مخلص بے لوث بھائیوں جیسے دوست ، انتہائی مشکل وقتوں کے ساتھی محمود احمد خان انیس جولائی کو تقریباً دس بجے شب اپنے رب سے جاملے۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون ۔ہفت روزہ تکبیر میں ہم لوگ جب اس شہر میں جان ہتھیلی پہ رکھ کر اپنی صحافتی ذمے داریاں انجام دیتے تھے۔
عدالتوں میں آئے دن مقدمات کا سامنا کرتے تھے، کرپٹ اوردہشت گرد عناصر کی خوفناک دھمکیاں روز کا معمول تھیں، تو محمود احمد خان ان ساتھیوں میں سے تھے جو بلا خوف و خطر اپنے محاذ پر ڈٹے رہے اور جن کے قدم سخت ترین حالات میں بھی نہیں ڈگمگائے۔ ۔ تقوی اور تعلق باللہ میں بھی وہ ہم سب میں بہت ممتاز تھے۔ اللّٰہ تعالیٰ ان کی کامل مغفرت کرے ، بلند درجات عطا فرمائے ، تاقیامت اپنی رحمتوں کے سائے میں رکھے اور ہم سب کو دوسری دنیا میں اچھےحال میں ملائے۔
شمس خان
آج ہمارے طالب علمی کے زمانے کے ایک دوست محمود خان کا انتقال ہوگیا ۔
کافی دنوں سے صاحب فراش تھے ، بڑے پیارے آدمی تھے ، صاحب کردار تھے ، سیدھی بات کرتے تھے ۔ جوانی میں تمام طلبہ تحریکوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے ، اسلامی جمعیت طلبہ کے فعال رکن اور ذمہ دار تھے ۔
حسین حقانی کو غربت کے زمانے میں سائیکل پر بٹھا کر اجتماعات میں لے آیا کرتے تھے ، ان کے ایک دوست قیصر جمیل بھی ان کے ساتھ اکثر نظر آیا کرتے تھے ۔ ہماری ملاقات کراچی کے مرکزی اجتماع ارکان میں ہوجاتی تھی یا کبھی لانڈھی کورنگی کے کسی اجتماع میں ہوجایا کرتی تھی ۔
پیشہ ورانہ زندگی میں اور بچوں کے بڑے ہوجانے کے بعد ایک طویل عرصے کے بعد ان سے رابطہ ہوا جب انکی بھتیجیوں سے ہمارے دو بیٹوں کے رشتے ہوئے ، انہیں جب یہ معلوم ہوا کہ شمس خان کے بیٹوں کے رشتے آئے ہیں تو انہوں بھائ سے کہا “ آنکھیں بند کرکے ان کے ہاں رشتہ کردو ، انہیں میں جوانی سے جانتا ہوں”
حیرت ہوئی اس دنیا نے کیسے کیسے جوان رعنا کو بوڑھا کردیا ، بیمار کردیا اور اللہ کی طرف روانہ کردیا ۔
اللہ انکی مغفرت فرمائے ، درجات کو بلند کرے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔ آمین
محمود خان بھی گئے
















