مولانا مودودیؒ 25 ستمبر 1903 میں اورنگ آباد حیدرآباد دکن موجودہ مہاراشڑبھارت میں پیدا ہوئے۔ وہ سید گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ ان کے والد سیداحمد حسن نے ان کی پرورش پر خاصی توجہ فرمائی چونکہ ان کی خواہش تھی کہ ان کا فرزند دینی علوم میں مہارت حاصل کر کے عالم بنے۔ اس لیے ان کی ابتدائی تعلیم گھر ہی ہوئی۔جس دوران انہوں نے فقہ حدیث اور منطق کے ساتھ ساتھ عربی فارسی اور ہندی زبانوں پر بھی عبور حاصل کیا۔مولانا مودودیؒ نہ صرف قانون دان، تاریخ دان، صحافی اور ایکٹوسٹ تھے بلکہ ایک پائے کے اسلامک سکالر بھی تھے۔ انہوں نے قرآنی تفاسیر حدیث قانون فلسفہ اور تاریخ پر انتھک کام کیا ان کی پہلی کتاب”الجہادفی الاسلام“ انہوں نے 1930 میں لکھی۔26اگست 1941 میں انہوں نے منعقدہ اجتماع میں جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی۔ نظیم کی تاسیس اسلامیہ پارک لاہور میں مولانا ظفر اقبال کی کوٹھی سے متصل مسجد کے سامنے مولانامودودیؒ کی رہائش گاہ میں ہوئی جس میں پورے ہندوستان سے ۷۵ افراد نے شرکت کی.اس عرصے میں آپ لاہور میں مقیم رہے۔ علامہ اقبال کی دعوت پر جنوبی ہند سے شمالی ہند اور پھر شمالی ہند کے اہم مرکز لاہور کو اپنی تحریک کے صدر مقام کے طور پر آپ نے منتخب کیا۔ بعد ازاں ۱۹۴۲ء میں دوسری جنگ عظیم کے بعد پیدا ہونے والے حالات پر یہ فیصلہ کیاگیاکہ بہتر تحقیقی اور تربیتی کام کے لیے مرکز جماعت کو دارالاسلام پٹھانکوٹ منتقل کردیاجائے۔تفہیم القرآن لکھنے کی ابتداء تو 1942 میں ہی کر دی تھی لیکن مکمل 1972 میں ہوئی اور اور یہ وہ تفسیر ہے جو نہ صرف یہ کہ جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے بلکہ دنیا کی کئی زبانوں میں اس کا ترجمہ ہو چکا ہے اور بھی بے شمار کتابیں ہیں جیسے کہ پردہ، towards understanding Islam سمیت کئی کتابوں کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہو چکا ہے۔ مودودی کو 1979 میں اسلام کی بے پناہ خدمات انجام دینے کے سلسلے میں سعودی عرب میں King faisl international award سے نوازا بھی گیا۔یہ پہلی شخصیت تھے جنہیں یہ ایوارڈ ملا۔ اس کے علاوہ مودودی ؒ اسلامک یونیورسٹی آف مدینہ کے قیام اور انتظام کا حصہ رہے۔آپ کی آخری کتاب سیرت سرور عالم ﷺہے جو دو جلدوں میں ہے۔ 1953 میں احمدیوں (قادیانیوں) کے بارے میں کتاب لکھنے پر سزائے موت ہوئی جو بعد میں قید میں تبدیل ہوگی اور پھر انہیں بری کر دیا گیا۔4نومبر1972 میں مولانا نے جماعت اسلامی کی امارات سے استعفی دے دیا۔1979 میں امریکہ انتقال ہوا۔وہ لاہور میں اپنے گھر اچھرہ میں دفن ہیں۔ اللہ مغفرت فرمائے آمین۔
قارئین یہ تو تھا ان کا مختصر تعارف
لیکن میں آپ کو اپنا محسن مانتا ہوں حالانکہ مجھے ان کی زندگی میں کبھی ملاقات کا شرف حاصل ہوا اور نہ ہی کبھی مرشد کو دیکھا ہے۔ان کی تحریریں بشمول تفسیر القرآن کا مطالعہ بھی بہت کیا۔ میرے قارئین سوچ سوچ رہے ہوں گے کہ میں نہ ان سے ملا اور نہ ہی کبھی دیکھا، تو وہ کیسے میرے محسن ہو گئے۔؟ یہی بتانے کے لیے یہ تحریر لکھنے پر مجبور ہوا ہوں کیونکہ میری زندگی میں بدلاؤ ان کی صرف ایک کتاب کے مطالعہ کے بعد آیا اور اس کا ذریعہ میرا چھوٹا بھائی تجمل حسین بنا۔یہ 1970کی بات ہے جب یہ پرو پیگنڈا زبان زد عام تھا کہ یہ جماعت لوگوں کا برین واش کرتی ہے جو ان کے زیر سایہ آ جائے وہ کسی اور کی نہیں سنتا اور اس پروپیگنڈے کو تقویت ان نوجوانوں جو جماعت کے سٹوڈنٹ تنظیم میں تھے کے شدت پسندانہ رویوں اور مختلف موقع پر توڑ پھوڑ کے واقعات نے بخشی۔(بعد میں پتہ چلا کہ ایسی کوئی ہدایت مودودیؒ نے نہیں دی)۔ اس وجہ سے برین واشنگ کا تاثر اور بھی مضبوط ہوا۔اگر اس وقت میں ان کی تحریروں کا مطالعہ کر لیتا تو شاید یہ تاثر زائل ہو جاتا لیکن سچی بات ہے کہ اس زمانے میں مجھے مطالعے کا شوق نہیں تھا۔اس تاثر کی وجہ سے میرے دل میں ان کے لیے بہت نفرت تھی اس نفرت میں مزید اضافہ تب ہوا جب میرے بھائی تجمل کچھ دن غائب رہ کر نمودار ہوئے تو ایک مکمل بدلے ہوئے انسان تھے۔چہرے پر خوبصورت داڑھی نماز کی پابندی اور تلاوت قرآن کے عادی، یقین جانیے اس بدلے ہوئے تجمل کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی یہ ایک لا ابالی طبیعت کا انسان صحیح راستے پرآگیا۔لیکن یہ خوشی جلد ختم ہو گئی جب پتہ چلا کہ موصوف جماعت اسلامی میں شامل ہو گئے ہیں جسے میں نہیں پسند کرتا تھا۔ پھر جب تجمل کے رویے میں شدت پسندی کو نوٹ کیا تو خدشہ پکا ہو گیا کہ یہ برین واش ہو گیا ہے یا ہو جائے گا۔اس خدشے کا عملی ثبوت(اس وقت میری نظر میں) جب ملا جب بھٹو صاحب کے دور میں الیکشن بے ضابطگی کے خلاف پی این اے کے احتجاج کے دوران بھائی نے بھی گرفتاری دے دی۔ تجمل کوبار بار سمجھانے پر بھی اس نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ اس وقت ہی باہر آوں گا جب مولانا مودودیؒ کہیں گے یا تنظیم حکم دے گی۔اچھا ایسا نہیں تھا کہ میں مذہبی نہیں تھا لیکن بس نماز اور روزہ کرتا تھا پر دین کا اتنا مطالعہ نہیں تھا۔قصہ مختصر، میرے دل میں مولانا مودودی ایسی جگہ نہ پا سکے جیسے لاکھوں کروڑوں کے دلوں میں بستے تھے اور اس بات کو لے کر میرے دل میں ان کی نفرت شدت اختیار کر گئی۔وقت گزرتا گیا اور میں سویڈن ہجرت کر گیا لیکن نفرت برقرار رہی پھر غالبا 1985 آگیا۔تجمل وزٹ پر آ یا تو بڑے احترام سے مجھے ایک کتاب دی اور درخواست کی کہ میں دل پر پتھر رکھ کر ایک بار پڑھ لوں۔ میں نے کتاب تو لے لی لیکن تین سال تک اسے نہیں پڑھ سکا،یا یوں کہیں کہ پڑھنا نہیں چاہتا تھا۔آخر ایک دن کتاب نظروں کے سامنے آئی تو ایسے ہی دل میں خیال آیا کہ دیکھوں تو سہی کہ اس میں کیا ایسا لکھا ہے جو تجمل اصرار کر رہا تھا۔کتاب تھی”خطبات“پہلا صفحہ کھولا تجمل کی تحریر تھی بھائی جان آپ یہ کتاب پڑھ لیں اور آپ اگر پھر بھی سمجھتے ہیں کہ میں غلط ہوں تو میں جماعت چھوڑ دوں گا اور میرے پیارے بھائی نے مولانا مودودی کا نام کاٹ دیا تھا کہ کہیں میں ان کا نام پڑھ کر مشتعل ہو کر کتاب ہی نہ پڑھوں لیکن بحرحال مجھے نظر آیا آگیا تھا کہ یہ ان کے ہی خطبات کا مجموعہ ہے۔ آپ یقین کریں میں اس کتاب کو شروع کرتے ہی اتنا کھو گیا اسے پڑھنے میں کہ وقت کا پتہ ہی نہیں چلا اور میں نے دو نشستوں میں کتاب ختم کر لی اور جوں جوں پڑتا گیا میں اپنے اندر تبدیلی محسوس کرنے لگا۔ اتنا نفیس اور شائستہ انداز بیاں تو تھا ہی لیکن اتنے عام تفسیر الفاظ میں انہوں نے اسلام کے پانچ ارکان کی تشریح کی تھی کہ دل میں اترتی چلی گئی ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے میں کتاب نہیں پڑھ رہا بلکہ وہ میرے سامنے گفتگو فرما رہے ہیں۔تب یہ احساس ہوا کہ میں عبادت کرتا تو تھا لیکن یہ کیا معنی رکھتے تھے انہی عبادات کی اہمیت کیا ہے اس سے بالکل لاعلم تھا۔ یہی نہیں کہ میں اپنے آپ میں تبدیلی محسوس کر رہا تھا بلکہ ندامت بھی ہو رہی تھی،شرم سے پسینہ پسینہ ہو رہا تھا کہ میں ان کو کیا سمجھتا تھا اور یہ کیا ہیں۔
میں اپنے آپ کو ملامت کرتا رہا۔ اللہ سے دعا ہے کہ اللہ پاک تجمل کو بھی اس کا اجر عطا فرمائے آمین۔
تو قارین یہ وجہ ہے کہ میں مولانا سید ابو علی مودودی ؒکو بغیر دیکھے بغیر ملے اپنا محسن سمجھتا ہوں۔ان کو اپنا محسن سمجھنے کی ایک وجہ اور بھی ہے کہ ان کی ہرکتاب پڑھنے کے بعد مجھے دینی مطالعہ کا شوق پیدا ہوا۔ اللہ پاک نے مجھے نہ صرف ان کی مختلف موضوعات پر تحریر کی ہوئی کتابیں پڑھنے کا شوق ہوا بلکہ دوسرے علماء کی کتابوں کی طرف بھی رجحان ہوا۔ پھر تفہیم القران بھی پڑھی۔ تفسیر عام فہم زبان میں ہے۔ میری نظر میں مولانا مودودی ؒایک اعلیٰ پائے کے عالم ہیں ان کا شمار نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے بڑے علماء میں ہوتا ہے۔ مولانا نے معاشرے کوسدھارنے، دینی علم سے روشناس کرانے کے مشن کو جس حکمت،نرمی اور عام فہم زبان میں ایمانداری اور صدق دل سے پہنچانے کی کوشش کی وہ قابل تحسین ہے۔مولانا کو سمجھنے کے بعد میں جتنا شرمندہ تھا وہ میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا، مجھے ان سے ملنے کی بے چینی تھی لیکن یہ ممکن نہیں تھا کیونکہ وہ رحلت فرما چکے تھے، اپنے خالق حقیقی سے جا ملے تھے۔ اللہ ان کے درجات بلند فرمائے لیکن دل بہت بے چین تھا کہ میں ان سے منسوب اپنے خیالات کی تلافی کیسے کروں۔ اچانک اللہ پاک کی طرف سے خیال آیا کہ کیوں نہ خطبات کا سویڈش ترجمہ کیا جائے۔ مجھے معلوم ہوا کہ اس کتاب کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوا ہے لیکن ابھی تک سویڈش میں نہیں ہوا لہذا میں نے سویڈش زبان میں ترجمہ کرنے کا ارادہ کیا۔ اللہ کا نام لے کر شروع کیا اور اللہ کے کرم سے تقریبا چار سال میں ترجمہ مکمل ہوا۔اس ترجمے کا ایک نسخہ منصورہ کی لائبریری میں بھی موجود ہے جو پروفیسر خورشید مرحوم کی وساطت سے پہنچا۔پروفیسر صاحب نے تعریفی کلمات اور تحریری تحسین سے بھی نوازا۔
مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ،میرے محسن
















