Advertisement

’’پیکرِ نغمہ‘‘ کے خالق ڈاکٹر سید نعیم حامد علی الحامد سے ملاقات

گذشتہ دنوں سعودی میڈیا کی معروف شخصیت اور سعودی بزنس وومن سمیرا عزیز اور ماہنامہ بساط انٹرنیشنل کے نمائندے سعودی عرب سید مسرت خلیل کی ملاقات ارضِ حرمین شریفین سے شائع ہونے والے اردوزبان کے پہلے شعری مجموعے ” پیکرِ نغمہ” کے خالق ڈاکٹر سید نعیم حامد علی الحامد سے ہوئی۔ جس کا احوال قارئین کی خدمت میں پیش ہے:
میرا نام سید نعیم حامد علی الحامد ہے اور والد کا نام سید حامد علی الحامد۔ میری ہیدائش ہندوستان کے شہرمرادآباد محلہ مغلپورہ میں یکم جنوری 1945 کو ہوئی۔ 1954 میں والدہ ، میرا بھائی سلیم اورمیں سعودی عرب آگئے۔ والد پہلے ہی 1952 میں سعودی عرب آ چکے تھے۔ ہم لوگ 9 بھائی اورایک بہین ہیں۔ جن میں سے 5 سعودی نیشنل ہیں۔ جن کی پیدائش سعودی عرب ہی میں ہوئی تھی۔ 1968میں رحیم یارخان پاکستان میں میری پہلی شادی ہوئی۔ ان سے ایک بیٹا اور دو بیٹی ہیں۔ وہ بقید حیات ہیں لیکن ان سے میری شرعی علیدگی ہوچکی ہے۔
میری تعلیم گھرپرہی ہوئی۔ اور حصول علم میں اب تک منہمک ہوں۔ میں کبھی اسکول کی شکل نہیں دیکھی لیکن میں نے ذاتی مطالعہ سے عربی، اردو، فارسی اورانگریزی سیکھی۔ مرزا عبدل القادر بیدل کے فارسی کلام کا اردو میں ترجمہ کیا جس پرہمدرد یونیورسٹی کراچی نے 5 مارچ 2011 پی ایچ ڈی کی ڈگری دی۔ محسن پاکستان ڈاکٹرعبدالقدیرخان تقریب کے مہمان خصوصی تھے۔
ادبی کاوشوں کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ مجھے مطالعہ کا شوق تھا پاکستان جاتا تھا تو صندوق بھر بھر کتابیں لاتا تھا۔ میرے استادِ محترم حضرت احمد جمال صادق ہیں۔انھوں نے میری اس طرح ذہنی تربیت کی کہ پھر شاعری شروع ہوگئی۔ استاد نے کہا فارسی کے بغیر تو شاعری مکمل نہیں ہوتی ۔ تو میں فارسی شعراء کا تمام دیوان دیکھنا شروع کردایا۔ اسی سلسلے مین بیدل کا بھی دیوان منگوایا۔ دیکھتے دیکتھے فارسی ایسی ہوگئی کہ میں بیدل جیسے شاعر کے کلام کا اردو میں ترجمہ کرڈالا۔ سعودی عرب میں اردو کے مستقبل کے بارے میں اپنے خیا لات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر لوگ اردو سے دلچسپی رکھیں گے تو روشن ہے۔ ورنہ بظاہر مجھے ایسا نظر نہیں آتا۔ اس وجہ اول تو یہ ہے کہ یہاں اردو بولنے والے روز بروز کم ہو رہے ہیں۔ یہاں کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی میں شعبہ اردو کھولا گیا تھا جس میں صرف دو آدمی داخل ہوئے اور شعبہ بند ہوگیا۔ یہاں پر پہلے عالمی مشاعرے ہوتے تھے۔ اب مشاعرے نہیں ہو رہےہیں۔ نہ تو اسپانسر ہیں اور نہ سامعین۔ اکژ لوگ تو سعودی عرب سے واپس چلے۔ اس سوال کے جواب میں کہ وژن 2030 کی روشنی میں بیرونی زبانوں کو اہمیت دی جا رہی ہے جیسا کہ چائنا کی زبان کی تعلیم شروع ہوگئی ہے۔ اسی صورت میں آپ اردو کا کیا مستقبل دیکھتے ہیں؟ تو انھوں نے کہا کہ زبان کا مستقبل اقتصاد سے وابستہ ہے۔ چینی زبان وہ اس لئے سیکھنا چاہتے ہیں۔ سعودی عرب میں تقریبا 25% سامان چین سے آتا ہے۔ اس لئے وہ چینی زبان سیکھنے پر مجبور ہیں۔ پاکستان سے کیا آتا ہے؟۔ زبانیں سیکنھے کا اصل میں تعلق ہے اقتصاد سے۔ ہندوستان مین انگزوں نے اردو کو ترقی کیوں دی ۔اس کہ اردو بولنے والے بےتحاشہ تھے۔ اور ہندوستان سونے کی چڑیا کہلاتا تھا۔ اس لئے اردو کی ترقی مین انگریزوں کا بہت حصہ ہے۔ اردو زبان کے فروغ کے لئے کیا پیغام دیں گے تو انھوں نے کہا بچوں کے ساتھ اردو بولیں، اردو پڑھیں اور اردو لکھیں۔ (جاری ہے)

اگر آپ بھی ہمارے لیے لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریر، تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ bisaat.mag@gmail.com پر ای میل کردیجیے۔
error: