بابا سردی میں گرمی لگنے لگی اب تو۔۔ زہرا نے کار کا شیشہ کھول کر باہر جھانکا۔۔ بیٹا رش کی وجہ سے آج کچھ زیادہ ہی ٹریفک جام ہے۔۔لگتا ہے پورا شہر ہی ’’میرا برانڈ پاکستان‘‘ کے لیے چل نکلا ہے اویس نے مسکرا کر جواب دیا۔۔شکر ہے آج ٹریفک میں دیر تک پھنسے رہنے کے باوجود آپ کا موڈ بگڑا نہیں، اریبہ نے خوش دِلی سے کہا، جناب ابھی تو بہت ٹائم لگے گا ایکسپو تک پہنچنے میں۔۔کیا۔۔؟ زہرا اور اریبہ بیک وقت چیخیں، اویس آپ تھکے ہوئے ہیں اس ٹریفک میں آپ کی چھٹی برباد ہوگی چلیں واپس چلتے ہیں اریبہ فکرمندی سے بولی۔۔؛ایسے کیسے چلتے ہیں بھئی تمہیں معلوم ہے اس نمائش کی عوام کی طرف سے کتنی زبردست پزیرائی ہورہی ہے اور پہلی بار کسی نے ملکی معیشت کی بہتری کے لیے سوچا اور یہ قدم اٹھایا ہے۔۔وہ تو رش دیکھ کر اندازہ ہورہا ہے مجھے اریبہ مسکرائی۔۔
چلو پہنچ گئے بس۔۔واؤ اتنے سارے اسٹالز،زہرا حیران تھی،بیٹا یہاں 500 پاکستانی برانڈز اور 400 مقامی اسٹالز موجود ہیں۔۔اریبہ رمضان قریب ہے یہ اچھا موقع ہے ’’اپنے‘‘ برانڈز کی خریداری کا اویس پرجوش تھا۔۔آپ فکر ہی نہ کریں خریداری میں،میں پیچھے رہوں،پھر وہ اسٹالز کی طرف چل دی۔۔بھائی یہ چائے کڑک ہے نا اور ٹیسٹ۔۔؟ اریبہ نے پیکٹ الٹ پلٹ کیا باجی آپ پی کر چیک کریں پہلے۔۔واہ کیا ٹیسٹ ہے اور قیمت بھی مناسب، ویری گڈ۔۔؛ گروسری میں غیر ملکی اشیاء کا ہر متبادل موجود تھا جس کا ہر گاہک نے فائدہ اٹھایا۔۔اریبہ نے تینوں کے لیے عید کی شاپنگ بھی کی جو مناسب قیمت پر موجود تھیں،اشیاء کا انبار دیکھ کر ایک شخص نے دکاندار سے پوچھ ہی لیا پہلے کہاں تھے آپ لوگ ،جب ہر چیز اپنے ملک کی موجود ہے تو آپ کی پروڈکشن اتنی کم کیوں ہے۔۔؛جناب مواقعوں کی کمی ہے مینو فیکچررز کو اگر ایسے میدان ملتے رہے تو پاکستانی معیشت چاند کو چھولے گی ایک دن۔۔؛ان شاءاللہ سب نے بیک وقت کہا،دل کی آواز تھی شائد۔۔؛
بابا کیٹل فارم کی طرف چلیں،ہاں کیوں نہیں۔۔کتنے خوبصورت پرندے ہیں نا اور وہ سفید بکری کتنی کیوٹ ہے زہرا بہت خوش تھی۔۔ہر طرف گہما گہمی تھی اور پرجوش عوام کا سمندر خاص کر دکاندار خوش کن اور امید بھرے چہروں کے ساتھ گاہکوں سے مصروف تھے،دکاندار کتنے خوش ہیں نا اویس۔۔اریبہ بولی۔۔ ہاں۔۔ تمہیں معلوم ہے اریبہ اس نمائش کا کیا مقصد ہے۔۔؟اویس نے واپسی کے لیے گاڑی گھماتے ہوئے کہا یہی کہ ملکی معیشت اپنے پیروں پر کھڑی ہو خود انحصاری اور مقامی پروڈکٹس کو فروغ ملے کاروباری اداروں کو قومی فخر محسوس ہو،اور پاکستان کو بیرونی قرضوں سے نجات ملے۔۔ پاکستان بزنس فورم کی اس کاوش سے ایسا ہوکر رہے گا،بابا فون بج رہا ہے،ہیلو اویس بھائ ،آپ کا بہت شکریہ آپ کی گائڈ لائن سے میں نے بھی ’’میرا برانڈ پاکستان ‘‘ میں اسٹال لگایا یقین کریں اتنے کانٹیکٹ ملے ہیں کہ مجھے پروڈکشن کے لیے ملازم کی ضرورت پڑ گئی ہے۔۔؛ اویس نے آسمان کی طرف نظر کی اس کی مسکراہٹ تشکّر لیے ہوئے تھی۔۔؛
ویسے کمائی تو بہت ہوئی ہوگی،اریبہ نے پوچھا۔۔ ہاں ہوئی ہے اور وہ تمام آمدنی فلسطین کو جائے گی۔۔ اچھا، اریبہ حیران ہوئی۔۔؛لو اب واپسی میں بھی ٹریفک جام، اتنا رش تو ٹی ٹونٹی میچ ہوا تب بھی نہیں تھا،زہرا کے کہنے سے وہ دونوں ہنس دیے۔۔اویس نے کہا،صرف ٹریفک جام نہیں بلکہ کراچی کی تاریخ میں اطراف کی سڑکیں بند کرنی پڑرہی ہیں اور لوگوں کو واپس کیا جارہا ہے، تم عوام کا جذبہ تو دیکھو، اگر مواقع ملیں تو یہ قوم کسی سے پیچھے رہنے والوں میں سے نہیں ہے۔۔؛پیچھے تو آپ بھی نہیں رہے آج خرچ کرنے میں اریبہ مسکرائی، میں کیوں پیچھے رہوں جبکہ معلوم ہوکہ اس سودے میں نفع دوجہانوں کا ہے۔۔، اور دیکھو ناں! اس نمائش سے اندھیرے میں روشنی کی ایک کرن دکھائی دی ہے اللہ اس کرن کو چمکتا دمکتا روشنی کا مینارہ بنادے جس سے پورے پاکستان کی معیشت منوّر ہوجائے، آمین۔۔
سب نے یک زبان ہوکر کہا۔۔۔
روشنی کی کرن میرا برانڈ پاکستان
