Advertisement

میرا برانڈ پاکستان

تحریر: نبیلہ شہزاد

چند دن پہلے مجھے بحریہ ٹاؤن لاہور ہسپتال کے کیفٹیریا میں جانے کا اتفاق ہوا۔ مجھے فروٹ جوس چاہیے تھا۔ فریش جوس نہ مل سکا اس لیے ڈبے والے جوس کی طرف جانا پڑا ،اس فرج میں صرف نیسلے کے جوس پڑے تھے۔ نیسلے کی مصنوعات کا بائیکاٹ کی وجہ سے میں وہ جوس خریدنے کے حق میں نہ تھی۔ سوچا کہ پانی خرید لیتی ہوں مگر پانی بھی صرف نیسلے کمپنی کا تھا۔ جب میں نے اس کیفٹیریا کے ذمہ دار سے پوچھا “جوس اور پانی جس کی ہسپتال میں سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے، کیا نیسلے کے علاوہ کسی اور کمپنی کا نہیں ہے؟” تو وہ کہنے لگا” میڈم! ہمیں تاکید ہے کہ ہم یہاں ڈرنکس صرف نیسلے کے ہی رکھیں”۔ میں نہیں جانتی کہ یہ تاکید کس کی طرف سے ہے، ہسپتال مینجمنٹ کی طرف سے یا کسی اور طرف سے مگر دکھ صرف اس بات کا ہے کہ یہ تاکید اس وقت ہے جب فلسطین سے محبت رکھنے والے مسلمانوں کا عالمی سطح پر اسرائیل سپورٹر ملٹی نیشنل کمپنیوں سے بائیکاٹ ہے۔ اب تو اس بائیکاٹ سے مصنوعات کے ناموں سمیت مسلمانوں کا بچہ بچہ واقف ہو چکا ہے۔ اسی زمرے میں لوگوں کو آگاہی دینے اور پاکستانی مصنوعات متعارف کروانے کے لیے الخدمت نے کچھ پاکستانی کمپنیوں کے ساتھ مل کر ایکسپو سینٹر لاہور میں “میرا برانڈ پاکستان” کے نام سے ایک نمائش کا انعقاد کیا۔ یہ نمائش 14 اور 15 اگست کو منعقد ہوئی۔ یہ دیکھ کر اچھا لگا کہ وہاں بڑی تعداد میں لوگ اس نمائش کو دیکھنے کے لیے آ رہے تھے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستانی اپنی مقامی مصنوعات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ یہ نمائش صرف پاکستانی مصنوعات کا تعارف ہی نہ تھا بلکہ اس سے حاصل ہونے والی آمدن فلسطین کے لیے مخصوص تھی۔ اس نمائش میں پاکستان کی دوسری مصنوعات کے ساتھ ساتھ کھانے پینے کی مصنوعات بھی تھیں جن میں کچھ پرانے نام تھے اور کچھ نئے نام بھی سامنے آئے۔ یہ مصنوعات اپنی کوالٹی کے لحاظ سے غیر ملکی کوالٹی سے کم نہیں تھیں اور قیمتیں بھی مناسب۔ اگر ہم پاکستانی مجموعی طور پر اس چیز کا ارادہ کر لیتے ہیں کہ ہم صرف پاکستانی مصنوعات کا ہی استعمال کریں گے تو اس کا ہماری ملکی معیشت پر واضح فرق پڑے گا جس طرح حالیہ بائیکاٹ میں لوگوں نے صابن، سرف سے لے کر کھانے پینے کے برانڈ تک کا متبادل مارکیٹ میں لانے کی کوشش کی اور بائیکاٹ کی وجہ سے مارکیٹ میں پاکستانی برانڈز کو پذیرائی بھی حاصل ہوئی جس سے نہ صرف کمپنی مالکان کی حوصلہ افزائی ہوئی بلکہ ان کے ڈسٹریبیوٹروں کو بھی حوصلہ ملا۔

اگر ہم عالمی سطح پر دیکھیں تو جو ممالک اپنی مصنوعات پر زیادہ انحصار کرتے ہیں ان میں شمالی کوریا جس میں درآمدات پر سخت پابندیاں ہیں۔ ایران مغربی پابندیوں کی وجہ سے زیادہ تر اپنی مصنوعات پر زور دیتا ہے۔ کوبا بھی امریکہ اور کئی ممالک کی پابندیوں کے بعد زیادہ تر اپنی لوکل اشیاء پر انحصار کرتا ہے۔ روس نے بھی یوکرین جنگ کے بعد یورپ اور امریکہ سے درآمدات کم کر دی ہیں۔ روس زرعی مصنوعات اور دفاعی آلات میں زیادہ تر خود کفیل ہے۔ چین بھی زیادہ تر خود کفیل ہے بڑی تعداد میں اپنی مصنوعات تیار کرتا ہے اور دنیا کا سب سے بڑا مینوفیکچرر ملک ہے۔ ان کے علاوہ بھی اور کئی ممالک ہیں جن کی عوام مقامی مصنوعات کو ترجیح دیتی ہے جس کا مشترک نتیجہ یہ ہے کہ ان ممالک کی معیشت دن بہ دن ترقی کر رہی ہے۔

اگر ہم بھی اپنی مقامی انڈسٹریز کو سپورٹ اور پروموٹ کریں تو ہم ان مصنوعات کے بارے میں خود انحصار ہو جائیں گے۔ ہماری درآمدات کم ہوں گی اور جو ہم قرض لے کر درآمدات پر خرچ کرتے ہیں تو اس قرض کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی۔ مقامی کمپنیوں کے درمیان ایک مقابلے کی فضا قائم ہوگی اور وہ ہمیں ایک دوسرے سے بہتر کوالٹی دینے کی کوشش کریں گے پھر ان کی یہ کوشش ہمیں بہتر سے بہترین چیز مہیا کرنے کا سبب بنے گی۔ اگر ایک طرف یہ بات افسوسناک ہے کہ ابھی تک ہمارے بڑے بڑے ہسپتالوں کی کنٹینیں، ہمارے سپر سٹور سے لے کر محلے گاؤں کی دکان تک بائیکاٹ کی گئی مصنوعات سے بھرے پڑے ہیں تو اس کی وجہ بھی ہم خود ہیں کیونکہ ہم میں سے اکثر لوگ جانتے ہوئے بھی یہ چیزیں خریدتے ہیں۔ اگر سب لوگ یہ چیزیں خریدنا بند کر دیں اور بائیکاٹ پر جم کر رہیں تو یہ مصنوعات سٹوروں میں ہی پڑے پڑے ایکسپائر ہو جائیں گی اور پھر سیلر کبھی ان مصنوعات کو خریدنے کی طرف نہیں آئیں گے کیونکہ دکاندار چاہے کسی گاؤں کی چھوٹی سی دکان کا مالک ہو یا امتیاز جیسے کسی بڑے سپر سٹور کا مالک، اس کا مقصد صرف پیسہ کمانا ہے۔ وہ ہمیشہ وہی چیز رکھے گا جو لوگ خریدتے ہیں کیونکہ جب ان بڑے سٹورز مالکان سے اسرائیلی فنڈڈ کمپنیوں کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کا کہا گیا تو انہوں نے صاف انکار کر دیا۔ یہ ایک نہایت تکلیف دہ چیز ہے کہ مسلمان ہی دوسرے مسلمانوں کا درد نہ سمجھ سکیں۔

ہم فلسطین کے لیے کچھ کر سکیں یا نہ کر سکیں، اتنا تو کر سکتے ہیں ناں ؟کہ جو کمپنیاں اسرائیل کو فلسطین پر ظلم برپا کرنے کے لیے فنڈ بھیجتیں ہیں، ان کا بائیکاٹ کر کے، اپنی مقامی انڈسٹریز کو پروموٹ کر کے اپنے ملکی معیشت پر مثبت اثر ڈالیں۔ بس ہمارا بائیکاٹ کا یہ قدم ہی سپر سٹورز کے مالکان کو بھی اس بائیکاٹ کے لیے مجبور کر سکتا ہے۔ موجودہ بائیکاٹ سے واضح فرق پڑا ہے مگر ابھی اس میدان میں مزید کوششوں کی بہت ضرورت ہے کیونکہ مقامی صنعتیں تب ہی ترقی کریں گی اور ہمیں بہترین کوالٹی دیں گی جب ہم انہیں سپورٹ کریں گے اور ان کی حوصلہ افزائی کریں گے۔ پاکستانی اور مسلمان ہونے کا ثبوت دیں اور “میرا برانڈ پاکستان” کے لوگو پر عمل کریں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریر، تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ bisaat.mag@gmail.com پر ای میل کردیجیے۔
error: