Advertisement

’’میراپیارا وطن‘‘ پاکستان کی سیاسی تاریخ

پروفیسر عبدالرشید مرزا ، گورنمنٹ کالج لاہور سے کافی عرصہ قبل ریٹائر ہوئے تھے ۔ انہوں نے اپنی سوانح عمری انگریزی زبان میں تحریر کی ہے۔ جس میں انہوں نے اپنے بچپن سے لے کر ابتدائی تعلیم اور تعلیم کے مختلف مدارج کا ذکر کیا ہے۔ ڈاکٹر مرزا 1942 میں تحصیل شکر گڑھ ضلع سیالکوٹ کے گاؤں باجرہ گلی میں پیدا ہوئے۔ ان کا بچپن قیام پاکستان کے ساتھ ہی شروع ہوا۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے علاقے کے سکول سے حاصل کی۔ وہ چھوٹے سے دیہی سکول میں پڑھتے رہے۔ اس کے بعد انہوں نے گورنمنٹ ہائی سکول پسرور سے مڈل کا امتحان پاس کیا بعد ازاں گورنمنٹ ہائی سکول سیالکوٹ سے امتیازی حیثیت سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ اسلامیہ کالج ریلوے روڈ سے ایف ایس سی کا امتحان پاک کیا۔ اسلامیہ کالج سول لائنز سے بی ایس سی کیا۔
ڈاکٹر مرزا نے گورنمنٹ کالج لاہور سے امتیازی پوزیشن کے ساتھ باٹنی میں ایم ایس سی کیا۔ ایم ایس سی کرنے کے بعد کالج میں ڈیمانسٹریٹر کی ملازمت کےلئے درخواست کی اور ڈیمانسٹریٹر کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ بعد ازاں انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور میں لیکچرار کی حیثیت سے طلباءکو تعلیم دیتے رہے۔ اس کے بعد وہ انگلستان چلے گئے جہاں انہوں نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔
ڈاکٹر رشیدمرزا اپنی خود نوشت میرا و طن پاکپتن میں لکھتے ہیں کہ ان کا گاؤں شکر گڑھ میں جموں کے قریب بارڈر کے ساتھ واقع تھا۔ قیام پاکستان کے وقت سکھوں نے جب مسلمانوں پر حملہ کیا اور اس کے بعد صورتحال کشیدہ ہوگئی۔ مسلمانوں میں اشتعال پھیلا اور سکھ گاؤں چھوڑ کر جموں کی طرف چلے گئے۔ وہ اپنے گھروں کو تالے لگا کر چلے گئے ان کا خیال تھا کہ جب امن ہو جائے گا تو وہ واپس آجائیں گے لیکن ۔۔۔مشرقی پنجاب و ہندوستان کے دیگر علاقوں سے بھی بڑے پیمانے پر لوگوں کو ہجرت کرنا پڑی اور ان کا بھی خیال تھا کہ حالات سدھرنے پر وہ اپنے گھروں کو لوٹ آئیں گے۔
1965ءکی جنگ کے دوران ان کا گاؤںاور تحصیل شکر گڑھ کے ساتھ ساتھ دوسرے دیہات بھی بھارتی فوجوں کے حملوں سے بری طرح متاثر ہوئے اور ان کو ایک بار پھر بے گھر ہونا پڑا۔ انہوں نے محفوظ علاقوں میں جا کر پناہ لی تھی۔ 1965 ءکی جنگ میں جب بھارتی فوج نے پانچ اور چھ ستمبر کی درمیانی رات کو حملہ کیا تو تحصیل شکر گڑھ کے سینکڑوں دیہات پر بھارت کا قبضہ ہو گیا۔ پاکستانی فوج نے جوابی کارروائی کر کے کھیم کرن تک بے شمار بھارتی دیہات پر قبضہ کر لیا۔ پاکستانی فوج نے راجستھان کے محاذ پر بھی وسیع علاقے پر قبضہ کر لیا۔
پروفیسر عبدالرشید مرزا کہتے ہیں کہ سترہ دن کی پاک بھارت جنگ میں کافی علاقے متاثر ہوئے۔ 1965 میں یوب خان نے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ کے خلاف الیکشن لڑا اور وہ صدر بن گئے۔ سترہ دن کی جنگ کے بعد کالعدم سوویت یونین کے وزیر اعظم نے صدر ایوب خان اور بھارتی وزیر اعظم لال بہادر شاستری کو تاشقند میں مذاکرات کی دعوت دی ۔ دونوں سربراہوں نے تاشقند کے مقام پر معاہدہ کیا۔ پاکستان کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے عہدے سے استعفی دے کر معاہدہ تاشقند کے خلاف مہم کا آغاز کیا۔ایوب خان 1958میں فیروز خان نون کی حکومت کا تختہ الٹ کر سکندر مرزا کے ذریعے مارشل لاءلگا کر اقتدار میں آئے۔بعد ازاں وہ فیلڈ مارشل بھی بن گئے۔
ڈاکٹر رشید مرزا کا کہنا ہے کہ ایوب خان کے دور میں بہت سے ترقیاتی کام ہوئے۔ نہ صرف پاکستان کی خارجہ پالیسی بہتر ہوئی اور امریکہ کے ساتھ دوستانہ تعلقات بہتر ہوئے ۔ ایوب خان کے دور میں امریکی صدر جانسن نے پاکستان کا دورہ کیا۔
ایوب خان عشرہ ترقی منا رہے تھے تو ان کے خلاف حزب اختلاف بالخصوص طلباءنے تحریک شروع کر دی اور بالآخر ایوب خان کو اعلان کرنا پڑا کہ وہ آئندہ انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے۔ بعد ازاں آرمی چیف جنرل یحییٰ خان نے 25 مارچ کو مارشل لاءلگا کر ایوب خان کو اقتدار سے علیحدہ کر دیا۔ یحییٰ کے دور میں انتخابات ہوئے۔ مشرقی پاکستان میںعوامی لیگ اور مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی نے کامیابی حاصل کی۔ جنرل یحییٰ نے 3 مارچ 1971کو ڈھاکہ میں اسمبلی کا اجلاس بلایا لیکن بھٹو کے مطالبے پر یحییٰ نے قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کر دیا۔ بھارت اور سوویت یونین کے درمیان معاہدہ ہوا اور مکتی باہنی کے نام سے بھارتی فوجیں مشرقی پاکستان میں داخل ہوگئیں۔ پاکستانی فوج کے پاس کافی اسلحہ اور گولہ باورود موجو د تھا لیکن بھارتی مداخلت سے مغربی و مشرقی پاکستان کے درمیان فضائی رابطے ختم ہوگئے۔ بھٹو اور مجیب کے درمیان کوئی معاہدہ نہ ہو سکا۔ بھٹو صاحب وزیر خارجہ و نائب وزیر اعظم بننا چاہتے تھے لیکن مجیب نے یہ بات ماننے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد اس کے بعد مکتی باہنی کے ساتھ بھارتی فوج بھی مشرقی پاکستان میں داخل ہو گئی تو پاکستان کے جنرل نیازی نے ہتھیار ڈالنے کی دستاویز پر دستخط کر دیئے۔ ہزاروں فوجیوں اور مغربی پاکستان کے دوسرے شہریوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ چنانچہ ملک کی تقسیم کے بعد بھٹونے مغربی پاکستان میں اقتدار سنبھالا اور پھر بھارت کے ساتھ شملہ میں معاہدہ ہوا جس کے نتیجے میں جنگی قیدیوں کی رہائی کا فیصلہ ہوا۔
ڈاکٹر رشید مرزا نے محترمہ بے نظیر بھٹو کے دو بار اقتدار میں رہنے کے دوران پیش آنے والے حالات کا بخوبی تذکرہ کیا ہے۔ اس طرح انہوں نے پاکستان کے سیاسی و اقتصادی حالا ت کا جائزہ پیش کیا ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب میں مسئلہ کشمیر کا تفصیل سے ذکر کیا اور اس بات پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ عالمی طاقتوں کی خاموشی کی وجہ سے مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوا اور 5 اگست 2019 میں بھارت نے بھارتی آئین کے تحت مقبوضہ کشمیر کی ریاستی حیثیت ختم کر کے مکمل قبضہ کر لیا اور مقبوضہ وادی ، لداخ ، جموں سمیت تین حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم جاری ہیں اور مقبوضہ وادی دنیا کی سب سے بڑی جیل بن چکی ہے۔ آزادی کے حصول کےلئے کشمیریوں نے بے پناہ قربانیاں دی ہیں ۔ اگرچہ کشمیری حریت پسند جماعتوں پر پابندی لگا دی گئی ہے لیکن اس کے باوجود کشمیری آزادی کے حصول کےلئے پرعزم ہیں۔
ڈاکٹر عبدالرشید مرزا نے خاندانی اور ازدواجی حالات کا بھی تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ انہوں نے ڈاکٹر ممتاز سے شادی کی ۔ ان کا سسرالی خاندان بھی بہت تعلیم یافتہ تھا۔ انہوں نے اپنی خودنوشت کی تحریر کے دوران اپنی بیگم کی مدد اور تعاون کا بھی شکریہ ادا کیا ہے۔ ڈاکٹر عبدالرشید مرزا کا کہنا ہے کہ ابھی ملک میں پانی کی قلت ہے اور 2030 تک آبی وسائل کافی حد کم ہو جائیں گے اور پانی کی کمی پر قابو پانے کےلئے ٹھوس منصو بہ بندی کرنا ہوگی اور دریاؤں پر بہت سے ڈیم تعمیر کرنا ہوں گے۔ پاکستان آبی ذخائر بڑھ کر پانی کی قلت پر قابو پاسکتا ہے اور اس کےلئے بلا تاخیر آبی ذخائر کی تعمیر شروع کرنا ہوگی۔
ڈاکٹر مرزا نے اپنی خودنوشت میں 1999 سے 2022 تک کے دور کے سیاسی حالات کا تجزیہ کیا ہے۔ بعض مواقع پر ان کی رائے سے اختلاف ہو سکتا ہے تاہم ان کی خود نوشت پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اہم مقام رکھتی ہے۔ یہ کتاب سنگ میل پبلی کیشن نے شائع کی ہے۔ تاریخ کے طالبعلموں اور سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کےلئے اس میں دلچسپ مواد شامل ہے اور عام شہری بھی اس سے مستفید ہو سکتے ہیں۔ کتاب بہت عمدہ کاغذ پر بڑے اچھے انداز میں شائع کی گئی ہے۔
قیمت 2000 روپے

اگر آپ بھی ہمارے لیے لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریر، تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ bisaat.mag@gmail.com پر ای میل کردیجیے۔
error: