تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ 12 دن کے حملوں کے بعد جنگ بندی سے امریکا ، اسرائیل اور ایران تینوں کو فیس سیونگ مل گئی ہے اور اچھا ہے۔ اب سب فریقوں کے پاس اپنی اپنی کامیابیوں کا اعلان کرنے کا موقع ہے۔ٹرمپ نے تو اپنا اعلان کرتے ہوئے “گاڈ بلیس ایران” بھی کہہ دیا ہے۔ دلچسپ بات یہ کہ 20 برس قبل عراق پر جن کیمیاوی ہتھیاروں کا بہانہ بنا کر حملہ کیا گیا تھا اور ایران پر جس ایٹم بم کے بہانے حملہ کیا ، نہ کیمیاوی ہتھیار ملے نہ ہی ایٹم بم کا سراغ ملا۔ دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے وقتوں میں 1500 کلومیٹر دور واقع ممالک ایک دوسرے کے خلاف کیا جنگی تیاریاں کرتے ہیں۔
(دونوں فریقوں کا نقصان ہوا ہے لیکن اس بارہ روزہ جنگ میں حماس نے غزہ پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرکے اسرائیلی فوج کو دھکیل دیا ہے،، مرتب)
ایران کا نقصان
ایران نے اس سارے منظرنامے (اسرائیل سے براہ راست جنگ اور پونے دو سال سے جاری جنگوں) میں بہت نقصان اٹھایا ہے۔ اس کی پراکسیز حزب اللہ، حماس، یمنی حوثی اور زینبیون کو کمزور کیا گیا اور شام میں ایران نواز حکومت بدلی گئی۔ جنگ میں ٹاپ لیڈرشپ کو گنوا دیا۔ کئی سینئر نیئوکلیر سائنسدان مار دئے گئے۔جوہری انفراسٹرکچر کو بے حد نقصان پہنچا ہے۔ جوہری پروگرام ڈی ریل ہو چکا ہے جسے بحال کرتے چند ماہ سے کئی سال لگ جائیں گے بشرطیکہ اسے بحال کرنے دیا گیا۔ عسکری انفراسٹرکچر بھی تباہ ہوا ہے۔ ایرپوٹس اور معیشت کو نقصان پہنچا ہے۔ ایران کے دنیا میں پھیلے اثاثہ جات ختم کر دیے گئے ہیں اور اس کے پر کاٹ کر اچھی طرح سے کلپ کر دیا گیا ہے۔ ایران کی ایک بڑی کامیابی یہ ہے کہ یورینیم کا تمام ذخیرہ اس نے محفوظ رکھا ہے اور اس کو اپنی مرضی سے استعمال کر سکتا ہے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ نیوکلیائی مواد ایران میں ہے یا کسی اور ملک میں موجود ہے لیکن ہے ایران کے مکمل کنٹرول میں ہے۔ سی این این یہ اطلاع دے رہا ہے کہ امریکہ نے ایران کو سفارتی ذرائع سے ایٹمی پروگرام ختم کرنے پر 30 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی پیشکش کر دی ہے۔ ظاہر ہے ایران اس ڈیل کو قبول نہیں کرے گا لیکن اس سے ایران کے اندر حکومت کے خلاف پریشر بنانے میں مدد ملے گی۔
اسرائیل کا نقصان
اسرائیل نے بھی جنگ کا مزہ اچھی طرح چکھ لیا ہے۔ اس کی آبادیوں اور شہریوں کا اچھا خاصہ نقصان ہوا ہے۔ آئرن ڈوم سسٹم کی قلعی بھی کھل گئی ہے کہ وہ فول پروف نظام نہیں۔ صیہونی ریاست کے شہریوں نے مالی و نفسیاتی نقصان بھی اٹھایا ہے۔جب کوئی میزائل اسرائیل کی دھرتی پر گرتا ہے دل کو سکون ملتا ہے کہ بدمعاش ریاست کو بھی بارود کا مزہ تو چکھایا ہے۔اسے بھی پتہ چلے کہ اس کے ہاتھوں تباہ ہونے والوں پر کیا بیتی ہے۔ صرف سویلین عمارتوں کے نقصان کا اندازہ ڈیڑھ سے دو بلین کا لگایا گیا ہے۔ نشانہ بننے والی فوجی مقامات اور تیل کی تنصیبات کے نقصانات کا اندازہ سینسر ختم ہونے کے بعد لگے گا۔ معیشت کا بے اندازہ نقصان اس کے علاوہ ہے۔ اس کے حفاظتی میزائلوں کا ذخیرہ تقریبا ختم ہو چکا ہے جن کو دوبارہ بنانے کے لئے کثیر رقم درکار ہو گی۔ اسرائیل سے لاکھوں یہودیوں کے فرار ہونے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ مختصر یہ کہ اس کے ناقابل تسخیر ہونے کا تصور ناکام ہو چکا ہے۔
ایران کی کامیابیاں
اسرائیل کے حملوں کے نتیجے میں ایرانی قوم مزید یکجا ہوئی ہے اور ایرانی قیادت کے خلاف جو عوامی خلا موجود تھا وہ بھی بھر گیا ہے۔ ایران میں بیرونی مداخلت کے ذرہعے رجیم چینج پہلے بھی مشکل ترین تھا اب وہ مزید مشکل ہو گیا ہے۔ ایران نے یہ بھی سب کو بتا دیا کہ اس کی سرزمین پر حملے کا جواب اپنی بساط کے مطابق بھرپور دیا جائے گا۔ اس سے اسلامی ملکوں میں اس کی پوزیشن مضبوط ہوئی پے اور وہ سر اٹھا کر چلنے کی پوزیشن میں آ گیا ہے۔ لیکن اس کو دوسرے مسلمان ملکوں سے تعلقات کو بہتر بنانا ہو گا اور آئندہ وہاں مسلح گروپ بنانے سے گریز کرنا ہو گا۔
امریکہ کا قیمتی اثاثہ
اس بات کو بھی اچھی طرح سمجھ لیں کہ ایران کی موجودہ رجیم مشرق وسطی میں امریکہ کا ایک قیمتی اثاثہ ہے۔ ایران کا خوف پیدا کرکے ہی امریکہ اپنا قیمتی اسلحہ عرب ممالک کو بیچ کر اپنی معیشت کو سنبھالا دے سکتا ہے۔ ایرانی حکومت کا خاتمہ وہ واحد معاملہ ہے جس پر امریکہ اور اسرائیل کے درمیان واضح اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ اسرائیل موجودہ ایرانی حکومت کا فوری خاتمہ چاہتا ہے جبکہ امریکہ اس کو قائم رکھ کر اپنے فائدے اٹھانا چاہتا ہے۔ اسرائیل کے وزیر دفاع کا جنگ بندی کے بعد بیان آیا ہے کہ ہمیں ایران کے سپریم لیڈر کو قتل کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ نے سپریم لیڈر کی جان لینے کی اجازت نہیں دی اور اسرائیل کو ان کے ٹھکانے کی اطلاع فراہم نہیں کی۔ اسرائیل ایرانی حکومت کے خاتمے کے لئے ایران میں اندرونی خلفشار اور خانہ جنگی کروانے کی کوشش بھی کر سکتا ہے جس کی کامیابی کے امکانات کم ہیں۔
فلسطین کی موجودہ صورتحال
20 ماہ سے جاری غ ز ہ کی جنگ میں فلسطینوں کو ہونے والے بے شمار نقصانات کے باوجود فلسطینی ریاست کے قیام کی اہمیت ساری دنیا پر واضح ہو گئی ہے۔ یورپی ممالک سمیت 150 ممالک نے آزاد فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لیا ہے۔ یہ سفارتی محاذ پر اہک بہت بڑی کامیابی ہے۔ امریکہ میں رائے عامہ تقسیم ہو چکی ہے۔ 50 سال سے کم عمر افراد کی اکثریت اسرائیل کے خلاف ہو چکی ہے۔ نیویارک کے مئیر کے انتخابات کے پہلے مرحلے میں ایک مسلمان نے ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار کے طور پر کامیابی حاصل کر لی ہے جس سے ہوا کے رخ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ زہران ممدانی کی کامیابی کو امریکہ میں فلسطینیوں کی بڑھتی ہوئی حمایت تسلیم کیا جا رہا ہے۔ لندن کے بعد اس سال نومبر میں ایک مسلمان نیو یارک کا مئیر بن سکتا ہے۔ ح م ا س کی جدوجہد اور غ ز ہ کے مسلمانوں کی قربانیوں سے القدس کی آزادی کا راستہ بھی جلد یا بدیر ہموار ہو گا۔ اسرائیل اپنی پوری قوت کے استعمال کے باوجود ح م ا س کو ختم کرنے میں ناکام رہا ہے اور اسرائیلی افواج کی اموات مسلسل جاری ہیں۔ غ ز ہ میں جنگ بندی کی خبریں بھی آ رہی ہیں۔ مستقبل میں ح م ا س کے کردار کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ وہ ایک سیاسی گروپ کی صورت میں اپنے آپ کو کامیابی سے زندہ رکھ سکتی ہے۔ پچھلے دو برس میں ہونے والی تبدیلیوں سے مسئلہ فلسطین کو دنیا بھر میں مرکزی حیثیت حاصل ہو گئی ہے اور امت مسلمہ کے حوصلوں میں اضافہ ہوا ہے۔
دیگر ممالک کا کردار
اس سارے معاملے میں امریکا کی تھانیداری یا چودھراہٹ برقرار رہی ہے۔ اس نے پھر پیغام دیا ہے کہ میں ہی دنیا کا پولیس مین ہوں۔ اسلامی دنیا کی کمزوری اور نا اتفاقی بھی واضح ہو گئی کہ OIC کے استنبول اجلاس کے دوران امریکہ نے ایران پر حملہ کر دیا۔ اردن ، مصر ، متحدہ عرب امارات اور ترکی نے مسلمانوں کو مایوس کیا ہے۔ عرب حکمرانوں نے ایران پر حملے کی مخالفت میں بیان تو دے دئے لیکن عرب حکومتی حلقوں میں ایران اور اس کے حامی مسلح گروپوں کے کمزور ہونے پر خاصے اطمینان کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
یورپ کی دوغلی پالیسی بھی کھل کر سامنے آ چکی ہے۔ اس نے اسرئیل کی حمایت کر کے ڈبل سٹینڈرڈ کا لقب حاصل کر لیا ہے۔ چین اور روس اس جنگ میں عملی طور پر ایران کی مدد کو نہیں آئے لیکن سفارتی محاذ پر حمایت ضرور کی۔ ایران نے یہ جنگ تن تنہا لڑ کر دنیا کو حیران کر دیا ہے۔
اسرائیل کے جنگی اقدامات سے بھارت کی مودی حکومت کے جارحانہ عزائم کو حوصلہ ملا ہے کیونکہ بھارت اور اسرائیل اب سٹریٹجک پارٹنر بن چکے ہیں۔ انڈیا کے وزیر نے حال ہی میں دھمکی دی ہے کہ سندھ طاس معاہدہ ختم ہو چکا اور سارے دریائوں کے پانی کو ہم کنٹرول کریں گے۔ بھارت نے چین میں ہونے والی SCO کانفرنس میں ایران کی حمایت میں کئے جانے والے اعلامیہ پر دستخط کرنے سے صاف انکار کر کے اسرائیل سے دوستی کا حق ادا کر دیا ہے۔ پاکستان کے سابق وزیر اعظم بھارت اور اسرائیل کے وزیر اعظموں کو ایک دوسرے کی فوٹو سٹیٹ کاپی قرار دے چکے ہیں۔ اس صورت حال میں بھارت ایک بار پھر علاقے کا چوہدری بننے کے خواب دیکھ سکتا ہے۔
گریٹر اسرائیل کا منصوبہ
دیکھنا یہ کہ گریٹر اسرائیل کے منصوبے کو روکنے کی سکت امت مسلمہ کے پاس ہے یا نہیں۔ مسلمان ممالک کے آپس کے اتحاد ، جدید ٹیکنالوجی اور ایشیا کی بڑی طاقتوں (روس ، چین ، جاپان) کی مدد کے بغیر اسرائیل کو علاقے کا چوہدری بننے سے روکنا آسان کام نہیں ہے۔ مسلمان ملکوں کو اس ہدف کے حصول کے لئے سرگرم قائدانہ کردار کرنا پڑے گا۔ ترکی ، پاکستان اور ایران ڈیفنس ٹیکنالوجی میں دوسرے اسلامی ملکوں کے مقابلے میں آگے پیں۔ دفاعی پیداوار میں ان کا باہمی تعاون اور گلف ممالک کی ان دفاعی منصوبوں میں شرکت اچھے نتائج پیدا کر سکتی ہے جو مستقبل میں ان تینوں ملکوں کی معاشی ترقی میں بھی معاون ثابت ہو گی۔
آئندہ کا منظر نامہ
جنگ بندی کے باوجود یہ معاملہ ختم نہیں ہوا بلکہ ایک وقتی ٹھہرائو آیا ہے۔ عرب ممالک کو اپنے خطے کو میزائلوں کی اگلی بارش سے بچانے کے لئے حکمت عملی تیار کرنی ہو گی جس میں سفارت کاری اہم کردار ادا کرے گی۔ سعودی عرب سفارتی محاذ پر یورپی ممالک سے مل کر سنجیدہ کوششیں کر رہا ہے۔ ترکی ، پاکستان اور ایران کو ان کوششوں میں شامل کرنے سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ چین اور روس کی ممکنہ مدد کے باوجود یہ دیکھنا ہوگا کہ امن قائم کرنے کی اس پالیسی کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ اسرائیل اپنی ہٹ دھرمی سے ان کوششوں کو ناکام بنا سکتا ہے۔
حزب اللہ ، حوثیوں اور عراق میں موجود ایران نواز گروپوں نے ایران اسرائیل جنگ میں حصہ نہیں لیا۔ ابھی یہ اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ آنے والے وقتوں میں یہ گروپ کیا حکمت عملی اختیار کرتے ہیں اور ایران کس حد تک ان کو طاقتور رکھنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ ان مسلح گروپوں کی وجہ سے عرب دنیا میں بجا طور پر تشویش پائی جاتی ہے۔
یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ غ ز ہ میں جنگ بندی کی صورت میں اس کی تعمیر نو کے لئے 50 ارب ڈالر کون فراہم کرے گا۔ گلف کے ممالک اپنے خطے کو آئندہ جنگوں سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں تو ان کو اپنی تجوریوں کے منہ کھول کر اس رقم کا بڑا حصہ ادا کرنا پڑے گا۔
اسرائیل کی کھلی جارحیت کے بعد ایران اس نتیجے پر پہنچ سکتا ہے کہ ایٹم بم کے بغیر دشمن کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ ایسی صورتحال میں خطے میں مہلک ہتھیاروں کی ایک نئی دوڑ شروع ہو سکتی ہے۔
رہ گئے امریکی صدر تو یہ چلتا پھرتا کارٹون ہیں۔ کارٹون کے بارے میں وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے۔ ” سلسلہ وار پوسٹس میں ایک جگہ فرمایا” گاڈ بلیس اسرائیل، گاڈ بلیس ایران، گاڈ بلیس مڈل ایسٹ، گاڈ بلیس امریکا، گاڈ بلیس ورلڈ”۔ کبھی ایران کی تعریف کی ، کبھی اسرائیل کو برا بھلا کہا۔ ان کی غیر متوازن شخصیت کی وجہ سے امریکہ کے کردار کے بارے میں قطعیت سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
اس سارے منظر نامے میں یہ بات یقینی ہے کہ اگر فلسطین کی آزاد ریاست جلد قائم نہ کی گئی تو مشرق وسطی چند سالوں میں ایک اور جنگ کا مزہ چکھے گا۔