Advertisement

بھارتی سیکولرازم کا پردہ چاک

بھارت کے انتہا پسند ہندو وزیراعظم نریندر مودی نے ایودھیا میں شہید بابری مسجد کے مقام پر متنازع رام مندر کا افتتاح کردیا۔ پچاس میٹر طویل مندر کے مرکز میں ہندو دیوتا رام کی سیاہ پتھر کی مورتی کی نقاب کشائی بھی کی گئی۔ اس مقام پر صدیوں سے بابری مسجد قائم تھی۔ ۱۹۹۲ء میں انتہا پسندوں نے ۶ دسمبر کو مسجد شہید کردی تھی اس کے بعد بدترین مسلم کش فسادات میں دو ہزار افراد شہید کیے گئے اور ہزاروں زخمی ہوئے تھے۔
اس کے بعد تین عشرے تک اس کا مقدمہ زیر سماعت رہا۔ بالآخر بھارتی عدالت عظمیٰ نے بھی یہ فیصلہ دے دیا کہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر تھا اس کے دو تین سال کے وقفے کے بعد اب اس مقام پر پھر رام مندر بن گیا ہے۔ بھارتی فوج کے ہیلی کاپٹر انتہا پسندوں کے مجمع پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کرتا رہا۔
اس طرح بھارتی حکومت سیاسی جماعتوں بھارتی میڈیا، عدالت عظمیٰ کے بعد فوج بھی ہندوتوا کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ انتہا پسندوں کا انداز دیکھیں کہ افتتاح کے موقع پر وہ یہ دعویٰ کررہے تھے کہ بھگوان نے مجھے پورے بھارت کے تمام لوگوں کی نمائندگی کا ذریعہ بنایا ہے۔ ہندوئوں کے ملک بھارت میں یہ محض ایک مندر کا افتتاح نہیں تھا بلکہ یہ آر ایس ایس کا نیا جنم ہے جو اگرچہ بھارت میں کبھی ختم تو نہیں ہوئی تھی، کبھی بی جے پی کا روپ دھارتی ہے کبھی شیو سینا بن جاتی ہے اور کبھی کانگریس میں بھی اس کا پرتو نظر آتا ہے۔
اسی لیے تقریب میں خصوصی اہمیت کی حامل شخصیت بھارتی انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھگوت شریک تھے، ان کے ساتھ دیگر انتہا پسند ہندو رہنما بھی موجود تھے جبکہ کانگریس اور دیگر اپوزیشن جماعتوں نے تقریب میں شرکت نہیں کی۔ ان کا دعویٰ ہے کہ نریندر مودی نے انتخابات سے محض تین ماہ قبل رام مندر کا افتتاح کرکے ہندوئوں کے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن بھارت کی تاریخ شاہد ہے کہ اگر آج مودی کی جگہ کانگریس کا وزیراعظم ہوتا تو وہ بھی ہندو ووٹ کے لیے رام مندر کا افتتاح اسی طرح کرتا۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بھارت کے مسلمانوں پر کانگریس کے ادوار میں بھی اسی طرح ظلم ہوا جس طرح مودی کے دور میں ہوا۔ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوگا کہ کون زیادہ انتہا پسند ہے۔ بھارت کے وزیراعظم کی جانب سے رام مندر کے افتتاح پر پاکستانی دفتر خارجہ نے حسب معمول احتجاج اور مذمت سے آگے بات نہیں کی ہے۔
دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ نے کہا کہ بابری مسجد شہید کرکے رام مندر بنانے کا عمل غیر قانونی اور قابل مذمت ہے۔ انہوں نے بابری مسجد شہید کرنے والوں کو عدالت کی جانب سے بری کرنے کے عمل کو بھی قابل مذمت قرار دیا۔ اور یہ کہاکہ مسجد کے مقام پر مندر کی تعمیر بھارت کے جمہوری چہرے پر دھبہ ثابت ہوگی۔ بھارتی عدلیہ نے نہ صرف گھنائونے جرم میں شریک مجرموں کو بری کیا بلکہ عدالت ہی نے اسی مقام پر مندر تعمیر کرنے کی اجازت بھی دی ہے۔
دفتر خارجہ کے خیال میں بھارت کا چہرہ اب بھی جمہوری ہے اور اس پر یہ کوئی پہلا دھبہ لگا ہے۔ دفتر خارجہ کی ترجمان نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ واقعہ بھارت میں ابھرتی ہوئی انتہا پسندی کا شاخسانہ ہے حالانکہ بھارت وہ ملک ہے جہاں ۷۵ برس سے انتہا پسندی سرچڑھ کر ناچ رہی ہے۔ وہاں تو انسانیت بھی نہیں اُبھر سکی ۔سیکولرازم کا ملمع چڑھائے بھارتی سیاستدان دنیا کو دھوکا دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالاں کہ اگر بابری مسجد کی جگہ پہلے رام مندر کا وجود ثابت بھی ہوگیا ہوتا تو بھی سیکولرازم کا تقاضا تو یہی تھا کہ اسی جگہ مندر بنانے کی اجازت نہ دی جاتی یہ تو سراسر اسلام دشمنی اور انتہا پسندی کا اعلان ہے۔
پاکستان کے نگراں وزیر مزہبی امور انیق احمد نے بھارتی حکمرانوں اور انتہا پسندانہ رویے پر بجا تبصرہ کیا ہے۔ انہوں نے اس عمل کو بھارت کی ریاستی پالیسی قرار دیا۔ گجرات کے قسائی کا بھارتی وزیراعظم بننا ہی بھارتی جمہوریت کے دعوے کا پول کھولنے کے لیے کافی ہے۔ اور آج ایک بار پھر یہ ثابت ہوا کہ بابائے قوم محمد علی جناح درست اور نہرو غلط تھے۔ مودی کے اقدامات نے ثابت کیا ہے کہ وہ ہمارے خطے کا نیتن یاہو ہے اور بھارت کا ہندوتوا دور حاضر کی نازی سوچ کا حامل ہے۔
پاکستانی دفتر خارجہ ابھی نگراں حکومت سے بہت پیچھے ہے، حالاں کہ دفتر خارجہ کو تمام باتوں کا علم ہوتا ہے۔ لیکن مسئلہ اور خرابی یہی ہے کہ پاکستان کی کوئی حکومت بھی ہو وہ بھارت کے سامنے بھیگی بلی بنی رہتی ہے۔ جب بابری مسجد شہید ہوئی تھی تو نواز شریف حکمران تھے۔ جب بھارتی حکومت نے ۵ اگست کا اقدام کیا تو پاکستان میں عمران خان کی حکومت تھی۔ جب کشمیریوں پر بھارت نے عرصہ حیات تنگ کر رکھا تھا تو پاکستان میں بے نظیر کی حکومت تھی اور جب کارگل ہوا تو پاکستان میں نوازشریف کی حکومت تھی۔ ان میں سے کسی نے بھی معقول اقدام نہیں کیا۔ احتجاج، قرارداد اور مذمت سے آگے کوئی نہیں گیا۔
عمران خان کے دور میں ۵ اگست کا اقدام بھی ہوا اور عدالت نے فیصلہ بھی دیا لیکن جواب میں دو جمعے آدھا گھنٹہ خاموشی کا احتجاج کرکے اپنا فرض پورا کرلیا گیا۔ اب تو نگراں حکومت ہے اس پر تو کوئی ذمے داری نہیں ہے کہ وہ کشمیر اور بھارت جیسے امور پر کوئی مستقل پالیسی اختیار کرے لیکن یہ پاکستانی دفتر خارجہ کا کام ہے کہ وہ کشمیر جیسے معاملے پر مستقل پالیسی بنائے اور اسے بروئے کار بھی لائے۔ لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا۔کہنے کو توستاون اسلامی ممالک کی تنظیم اوآئی سی نے بھی بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیربرائے نام پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔لیکن ایک سوال یہ بھی ہے کہ اسلامی کانفرنس نے اسی بھارت کو مبصر کا درجہ دیا ہوا ہے۔
او آئی سی کم سے کم بھارت کی مبصر کی حیثیت ہی ختم کردے، لیکن مسلمانوں کیمعاملے میں اوآئی سی، اقوام متحدہ ،اور دیگر عالمی ادارے احتجاج مذمت اور مطالبے تک محدود ہیں.اور ایسالگتا ہے کہ اسرائیل کے مظالم امریکی پالیسیوں ، اور بھارتی انتہا پسندی کے مقابلے میں مسلم ممالک کے حکمران بھی ان اداروں کی طرح احتجاج مذمت اور مطالبات تک محدود ہیں۔ اگر بین الاقوامی برادری کو ٹھیک کرنا ہے تو سب سے پہلے اسلامی ممالک میں عوام اٹھ کھڑے ہوں اور اپنی اپنی حکومتوں سے چمٹے ہوئے عالمی استعمار کے ایجنٹوں سے نجات حاصل کریں جس روز یہ کام ہوگیا اسی دن او آئی سی کاقبلہ بھی درست ہوجائے گا اور اقوام متحدہ بھی سیدھی ہوجائے گی مسلم دنیا کے عوام اپنی قوت کو پہچانیں او ر اٹھ کھڑے ہوں۔اوآئی سی اور اقوام متحدہ میں اپنے نمائندے بھیجیں ۔ تاکہ عوام اور امت مسلمہ کی آوازان اداروںمیں پہنچے۔
بھارت میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر سننے کا مطلب بہت واضح ہے کہ بھارت کسی طور بھی جمہوری یا سیکولر ملک نہیںہے ۔ وزیر مذہبی امور نے بھارت کو اسرائیل اور مودی کو خطے کا نیتن یاہو قرار دے کرقوم کی بالکل درست ترجمانی کی ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

اگر آپ بھی ہمارے لیے لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریر، تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ bisaat.mag@gmail.com پر ای میل کردیجیے۔
error: