تازہ ترین سیلاب 2022ء کے بعد بدترین سیلاب ہے، جب پاکستان میں سیلاب سے تقریباً 700، افراد ہلاک ہوئے انہیں اگر شہید کہا جائے تو میری دانست میں غلط نہیں ہوگا ، چونکہ وجہ قدرتی آفت اور ستر سالوں سے زائد قابض ہمارے حکمرانوں کی ناقص پالیساں ان اموات کی وجہ بنی ، ستر سالوں سے قابض کوئی ایک حکمران نہیں بلکہ ہماری پالیسیاں ہیں چہرے تو تبدیل ہوتے رہتے ہیں اگر ہمارے حکمراں پانی ، سیلاب کے مسئلے پر صدق دل سے کام کرتے تو قدرتی آفات میں جانیں تو ضائع ہو ہی جاتی ہیں مگر اتنی نہیں جتنی اب ہوئی ہیں ، بہت ہی دلخراش صورتحال اور کہانیاں سامنے آئی ہیں، اندرون پنجاب سے آیا ہوا کراچی میں ایک محنت کش جو تندور پر روٹیاں پکا کرپنجاب میں رہائش پذیر چھ سات افراد پر مشتمل خاندان کیلئے روزی کما رہا تھا ، سیلاب ، بارشوں کا سنکر اندرون پنجاب اپنے گھر گیا تو اسے پتہ چلا کہ نہ اب بوسیدہ گھر ہے اور نہ ہی اسکی کل کائینات اسکے بچے اور خاندان وہاں نہیں وہ سب پانی میں بہہ چکے ہیں اتنے اندوہناک واقعات کے بعد بھی اخبارات ، اور فضول کا وقت ضائع کرنے والا ہمارا الیکٹرانک میڈیا پر دانشوروں جس میں وزراء بھی شامل ہیں یہ کہانی سنا رہے ہیں کہ اب ہم یہ کرینگے ، اب ہم وہ کرینگے وغیرہ ، ان بیانات میں سچی باتیں کم او ر الزام تراشیاں، اوراپنے آپ کو قوم کا خادم تسلیم کرانے کی باتیں زیادہ ہوتی ہیں ، اگر حکمران پالیسیا ں سیلاب کی تدارک و اپنے عوام کی جانیں بچانے پر توجہ مرکوز نہ کرسکے تو یہ بات تو امر ہے کہ دنیا بھر میں مو سمی تبدیلی کے باعث بارشیں تو ہر سال آئینگی ، سیلاب بھی ہر سال آئینگے۔ آج کے سیلاب کی جانوںکو تباہ کاریاں تو آج معلو م ہوگئیں ، سیلا ب کی وجہ سے فصلوں کی تباہی آنے والے وقتوںمیں معلوم ہونگی گیہوں ، سبزیاں مہنگائی کو وجہ سے صرف امراء کی دسترس میں ہونگی ، سیلاب کی تباہ کاریاں تو پھر معلوم ہونگی اللہ خیر کرے آمین۔اقوام متحدہ کے دفتر برائے رابطہ برائے انسانی امور کی رپورٹ کے مطابق رواں مون سون سیزن کے دوران 785 جانیں ضائع ہوئیں۔ تعداد ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہی ہے. پاکستان کے محکمہ موسمیات کی رپورٹ کے مطابق جولائی 2025ء میں جولائی 2024ء کے مقابلے میں 82 فیصد زیادہ بارش ہوئی۔ صرف پنجاب میں، 20 لاکھ لوگوں نے موسم کا اثر محسوس کیا ہے۔ اور خیبرپختونخوا اور سندھ کے بصری کم از کم کہنے کے لیے بھیانک ہیں۔افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ اور بھی بدتر ہوتا جائے گا کیونکہ موسمیاتی تبدیلی پر بین الحکومتی پینل نے 2050ء تک گرمی کی شرح میں 26 فیصد تیزی سے اضافہ بتایا ہے۔ اس کا مطلب ہے زیادہ بار بار گرمی کی لہریں، بے ترتیب موسم، برفانی جھیلوں کے پھٹنے والے سیلاب اور ندیوں اور پلووئل سیلاب۔ پاکستان کے چیلنجز کئی گنا ہیں ان میں عمر رسیدہ انفراسٹرکچر، سائلوز میں کام کرنے والے بکھرے ہوئے ادارے، اور کم وسائل والی مقامی حکومتیں، جن میں سے چند ایک کا نام شامل ہے۔ زیادہ تر شہری علاقوں میں طوفان کے پانی کا انتظام نہ ہونے کے برابر ہے، جو اکثر سیوریج کے بوسیدہ نظاموں پر کام کرتا ہے، اور اس کے نتیجے میں پیچیدہ خرابیاں ہوتی ہیں۔ شہر کے اندر قائم وہ قدیم بستیاں غیر رسمی بستیوں میں رہنے والے شہری غریبوں کے لیے، صورت حال اس سے بھی زیادہ سنگین ہوتی ہے – ہر سال، مون سون آفات کو جنم دیتا ہے جس کے نتیجے میں خاص طور پر کم مراعات یافتہ شہری آبادی کے لیے جان لیوا حالات پیدا ہوتے ہیں۔محدود وسائل کے حامل ایک ترقی پذیر ملک کے طور پر، پاکستان کو عوامی خدمات کی فراہمی کو بہتر بنانے کیساتھ ساتھ مذکورہ بالا برائیوں سے نمٹنے کے لیے زبردست پالیسوںکی ضرورت ہے صرف زبانی جمع خرچ کرنا ، الیکٹرانک میڈیا پر بیٹھ کر باتیں مٹھارنا ،اسکا حل نہیں ، الیکٹرانک میڈیا پر بیٹھ کر خود حکومتی وزیر نے کہا کہ مراعات یافتہ طبقہ کے رہائشی علاقوں پر مجرمانہ طور پر توجہ مرکوز ہے جبکہ غریب مر رہا ہے نامساعد حالات میں ، اس وزیر کو سلام جس نے ہمت کرکے سچائی تو بتائی۔ ہمارے حکمران ، وزراء ، ماہرین، نوکر شاہی میں بیٹھے عقل کل لوگ ، مہینہ کے تیس دنوں میں پندرہ دن کم از کم دنیا دنیا دورے کرتے ہیں عوام کے پیسوںپر وہ یقینا ہماری خارجہ پالیسی ، تجارت کے حوالے سے کارآمد ہونگے مگر جن آفات جیسے سیلاب اور بارشوںاور خاص طور پر اب موسمی تبدیلوں کے بعد انکے ملکوںمیں کیا انتظامات ہیں ، وہ کیسے کسی حد تک اپنے عوام ، اور فصلوںکو محفوظ رکھتے ہیں، وہ کس حد تک ہمارے ملک میں لاگو ہوسکے ہیں ان پر توجہ دیںہم عالمی بہترین طریقوں سے سیکھ سکتے ہیں، جو ہمارے مقامی چیلنجوں کے لیے حسب ضرورت حل تلاش کر سکتے ہیں۔ عالمی سطح پر، طوفان کے پانی سے نمٹنے کے لیے دو طریقے ہیں: جتنی جلدی ممکن ہو اس سے چھٹکارا حاصل کریں یا اسے خطرے کے طور پر دیکھنے کے بجائے اسے ایک اثاثہ سمجھیں۔ مؤخر الذکر نقطہ نظر کو زیادہ ترقی پسند سمجھا جاتا ہے، کوپن ہیگن کی مثال لیں کہ وہ کس طرح شہر کا موسمیاتی موافقت کا ماڈل پاکستانی شہروں کو مستقبل کے لیے آب و ہوا سے پاک ہونے میں مدد دے سکتا ہے۔ کوپن ہیگن میں شہر کو 2011ء میں بادل پھٹنے کے واقعے سے جھٹکا لگا، جس سے صدمے کی لہریں پھیل گئیں اور 1 بلین ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا۔ نتیجتاً، شہر نے اپنا اہم کلاؤڈ برسٹ مینجمنٹ پلان، 2012ء پیش کیا۔یہ منصوبہ شہر کی آب و ہوا کے موافقت کے لیے ایک بلیو پرنٹ کے طور پر کام کرتا ہے اور شہری فطرت کو اس کے بنیادی محور کے طور پر تصور کرتا ہے۔ یہ منصوبہ چار زیر زمین سرنگوں کے علاوہ زمین پر طوفانی پانی کا انتظام کرنے کے لیے BGI پر مشتمل ایک مضبوط نظام فراہم کرتا ہے۔ 2025ء کے مون سون کے سیلاب نے پاکستان کو نمایاں مالی نقصان پہنچایا ہے- تقریباً 1.4بلین امریکی ڈالر کا براہ راست معاشی نقصان ہوا ہے- جس کے اثرات زراعت پر پڑے ہیں۔ اور معیشت پر آئیندہ فصلوںپر پڑینگے چونکہ فصلیںتو ڈوب چکی ہیں جنہوں نے ہمیںآنے والے دنوں میںاجناس دینی تھیں تاحال مرتب کردہ نقصانانت مکمل نہیں مکمل نقصانات ر بھی زیادہ پریشان کن ہونگیں۔ بحالی اور تعمیر نو کی کوششوں سے ملک کی معیشت اور غذائی تحفظ پر مزید دباؤ پڑنے کا امکان ہے پنجاب میں 1.3 ملین ایکڑ سے زیادہ کھیتی باڑی ڈوب گئی ہے، جس میں چاول، گنے اور کپاس جیسی فصلیں بہت زیادہ متاثر ہوئی ہیں۔ٹرانسپورٹ اور کمیونیکیشن سیکٹر کو تقریباً 97.6 بلین روپے (333 ملین امریکی ڈالر) کا نقصان پہنچا ہے۔ مکانات کے نقصانات تقریباً 8.95بلین روپے (31 ملین امریکی ڈالر) ہیں۔سیلاب سے مالی سال 2026ء میں تجارتی خسارہ تقریباً 1.9بلین امریکی ڈالر تک بڑھنے کی توقع ہے۔ کپاس کی درآمدات میں 737,000ٹن (1.06~ بلین امریکی ڈالر) کا اضافہ ہو سکتا ہے، جبکہ ٹیکسٹائل، چاول اور چینی کی برآمدات میں تقریباً 861 ملین امریکی ڈالر کا نقصان متوقع ہے۔ ہم حکومت کی باگ ڈور کے نتیجے میں معیشت کی بہتری کی طرف جا رہے تھے سیلاب کی تباہ کاریوںنے ہمیں پھر پیچھے دھکیل دیا ، خوف ہے کہ اگر حکومت نے مربوط پالیسان نہ بنائیںتومون سون کی بڑھتی ہوئی تباہ کن روش تو ہماری معیشت کو سانس بھی نہیں لینے دیگی قرض ، اور امداد مسائل کا حل نہیں مربوط پالیساں حل ہیں ورنہ خداناخواستہ ہمارا نام نہ ہوگاداستانوں میں۔
مون سون کی تباہ کاریاں ۔ مربوط پالیسیاں بنائیں ورنہ۔۔۔!
















