Advertisement

میرا برانڈ پاکستان: معاشی گیم چینجر

مستقل معاشی مسائل کا شکار ملک پاکستان میں بڑے بڑے ماہرین معیشت بھی یہ اعلان کرکے اپنے ہاتھ اٹھاچکے تھے کہ پاکستان کبھی معاشی بحران سے نہیں نکل سکتا، آئی ایم ایف سے جان نہیں چھوٹ سکتی، بلکہ آئی ایم ایف کو حقیقت سمجھ کر تسلیم کرنے کے مشورے دئیے جاتے تھے ، یا زیادہ سے زیادہ امریکی، چینی، سعودی فنڈنگ اور قرضوں کو رول اوور کرنے کو کامیابی سمجھا جارہا تھا۔
ایسے میں پاکستان بزنس فورم نے پاکستانی مصنوعات کے فروغ ،ان کی برآمدات اور ان کے معیار کو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا اور پہلی میرا برانڈ پاکستان نمایش کا اہتمام بہت ہی مختصر نوٹس پر کیا گیا۔
اس بارے میں جاننے سے قبل یہ معلومات تازہ کرنا ضروری ہیں کہ بزنس فورم ہے کیا اور کب قائم ہوا، کیا مقاصد تھے کون لوگ اسے قائم کرنے والے تھے۔
پاکستان بزنس فورم کوئی نیا کام نہیں کررہا اور یہ نیا نام بھی نہیں ہے، دراصل 1995 میں کچھ مسلم لیڈرز نے عالمی حالات کے پیش نظر مشورے کئے ترک وزیر اعظم، نجم الدین اربکان، پاکستان سے امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد اور سوڈان سے حسن البشیر نے مشاورت کے بعد یہ خیال پیش کیا کہ مسلم دنیا میں تجارت کو کیسے فروغ دیا جائے ، اس حوالے سے مسلم ممالک کی ایک انٹر نیشنل بزنس کانفرنس پاکستان میں منعقد کی گئی ، جس کی صدارت اس وقت کے صدر پاکستان فاروق احمد خان لغاری نے کی۔ اس پہلی انٹرنیشنل کانفرنس میں 25 ممالک سے تقریبا 700 مندوب شریک ہوئے، اس کے بعد انٹرنیشنل بزنس فورم کا ہیڈ کوارٹر ترکی میں قائم کیا گیا ،ہر سال اس کی کانفرنس ہوتی ہے ایک مرتبہ ترکی اور اگلے سال کسی رکن ملک میں ،آئی بی ایف کے 42 رکن ممالک ہیں، ایک انٹرنیشنل بزنس نمایش موسیاد کے نام سے انٹرنیشنل کانفرنس کے ساتھ ہوتی ہے اس میں چار پانچ ہزار مندوبین آتے ہیں، پاکستان بھی آئی بی ایف کا حصہ ہے، کراچی ،لاہور، اسلام آباد، گوجرانوالہ، سیالکوٹ،فیصل آباد ،جہاں بھی بزنس ہے وہاں پی بی ایف کا ایک چیپٹر ہے ۔
اس ادارے کا قیام تو مسلم ممالک میں تجارت کا فروغ ہے لیکن بدلتے حالات میں اہداف میں کچھ اضافے اور کمی بھی ہوتی ہیں ۔مثال کے طورپر وقفے وقفے سے بائیکاٹ کی مہم چلتی ہے اور خصوصا اسرائیل اور اس سےتجارت کرنے والے ممالک کا بائیکاٹ ہے اس میں کبھی تیزی اتی ہے اور کبھی یہ ہلکی پڑ جاتی ہے ، دوسال قبل اسرائیلی جارحیت کے بعد بائیکاٹ کی مہم میں پی بی ایف نے بھی حصہ لیا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ متبادل اشیا کا تصور بھی پیش کیا گیا ، کیونکہ صرف بائیکاٹ سے زیادہ اثر نہیں ہوتا جب تک لوگوں کو متبادل نہ ملے، پی بی ایف گزشتہ دو نمایشوں میں متبادل کے طور پر پاکستانی برانڈ متعارف کرانے میں کامیاب ہوا ہے۔ پاکستانی برانڈز کے ساتھ ساتھ پاکستان کے اسمال اینڈ میڈیم اینٹر پرائز پر خصوصی توجہ دی گئی، ان اداروں کی ہمت افزائی کی ،ان کو ٹریننگ ،اور مارکیٹنگ کے طریقوں سے بھی واقف کرایا پیکیجنگ اور معیار بہتر بنانےکی طرف توجہ دی ،اس کے نتیجے میں کئی کاٹیج اور ایک گھر سے چلنے والے ادارے اب پورے ملک میں کام کررہے ہیں بلکہ کچھ تو ایکسپورٹ میں بھی آگئے ہیں اور اس سے پاکستانی زرمبادلہ میں اضافہ بھی ہورہا ہے اور ملک میں روزگار اور پاکستانی برانڈ بھی فروغ پارہا ہے۔،پاکستان میں معیشت مستحکم کرنے میں ایس ایم ایز کا کردار بہت اہم ہے ۔ان کی ترقی سے روزگار، صنعتوں کا قیام اور زر مبادلہ میں اضافہ ہوتا ہے اور یہی معاشی استحکام کا اہم اشاریہ ہے۔
بزنس فورم کے عزائم تووہی ہیں جو آئی بی ایف کا بنیادی مقصد ہے یعنی مسلم ممالک میں تجارت ، اوراس میں ہر آنے والے برس بہتری آرہی ہے ،اب یہ کام صرف مسلم ممالک تک محدود نہیں ہے، یورپ اور امریکا میں موجود مسلم ممالک کے افراد بھی ہدف ہیں ان کے تعاون سے مسلم ممالک کی مصنوعات کا ان ممالک میں فروغ بھی پیش نظر ہے ۔
یہ تاثر بھی درست نہیں کہ بزنس فورم بائیکاٹ کے لئیے بنا تھا، بلکہ یہ اتفاق ہے کہ جب پی بی ایف کی موجودہ قیادت کو ذمہ داری ملی تو اسی وقت اسرائیلی جارحیت مسئلہ بنی تھی اور دنیا بائیکاٹ کررہی تھی پی بی ایف نےتو متبادل متعارف کرانے کا فیصلہ کیا اوریہی بزنس فورم کی کامیابی ہے کہ اس نے پاکستان کے برانڈز کو،اعتماد دیا اور انہیں بین الاقوامی مارکیٹ میں پہنچایا۔یہ اتفاق ہے کہ پہلی نمایش کے وقت غزہ کا معاملہ نیا تھا منتظمین نے بغیر فنڈز کے فیصلہ کیا اور ایکسپو میں میرا برانڈ پاکستان نمایش کا اعلان کردیا ، بزنس فورم کے ممبرز نے اپنی جیب سے پیسے ڈالے اور دوہال بک کرالئیے ، تجارتی نمایشیں ایسے نہیں ہوتیں لیکن ایک ماہ کے نوٹس پر یہ پہلی نمایش تھی اور کامیاب بھی رہی ، تمام اخراجات نکال کر پی بی ایف کراچی نے الخدمت کو غزہ کی تعمیر نو کے لئیے دوملین روپے کا چیک دیا ۔
پی بی ایف کی اس سرگرمی کے معاشی پہلو بہت سارے ہیں ،یہاں چھوٹے کاروباری اداروں کو ایک پلیٹ فارم ملا ایک سال میں لوگوں کا کاروبار گھریلو صنعت سے ایکسپورٹر تک پہنچاہے ، مقامی کاروباری برادری نے زبردست پذیرائی دی ، دونوں کانفرنسوں میں کاروباری حضرات نے اپنے تجربات اور کامیابیوں کی روشنی میں اپنے تجربات سے نئے لوگوں کو رہنمائی دی، ٹریڈ ڈیویلپمنٹ اتھارٹی ٹڈاپ کے طارق اکرام نے بہت زبردست رہنمائی دی۔
س: آپ کی اصل کامیابی کیا ہے ؟
سہیل عزیز:  دیکھیں ایک طرف تو دوسری نمایش میں 355 اسٹالز لگے ،او 500 سے زاید پاکستانی برانڈز شریک ہوئے، ایس ایم ایز کو چھوٹے اسٹالز دئیے گئے، کہیں ٹیبل کرسی رکھ کر جمعہ بازار کا تاثر نہیں دیا گیا اور اس مرتبہ تمام اخراجات نکال کر بھی غزہ فنڈ میں چار ملین کا چیک دیا ۔ لیکن بزنس فورم کی اصل کامیابی بائیکاٹ سے زیادہ متبادل پاکستانی برانڈز کا تعارف ان کا استحکام اور فروغ ہے۔ اس مرتبہ بھی کراچی چیمبر اور فیڈریشن کی پوری کابینہ اور ٹڈاپ کے چیئرمین،انڈسٹری کے لوگوں نے مسلسل موجودگی سے ثابت کیا کہ انہیں پاکستانی برانڈز کے فروغ میں گہری دلچسپی ہے ،زبیر موتی والا تو ٹریفک جام میں پھنس گئے تھے واپس جانے کا ارادہ ہے بھی کیا لیکن دلچسپی کی وجہ سے پہنچے اور نمایش دیکھ کر کہا کہ میں اتنی شاندار نمایش سے محروم رہ جاتا، اس نمایش کی معاشی سرگرمی یہ تھی کہ مجموعی طور پر سوا ارب کی ڈیلز اور بکنگ ہوئی، کروڑوں روپئے کی نقد خریداری ہوئی۔
یوں کہا جاسکتا ہے کہ پی بی ایف نے اپنے حصے کاکام شروع کردیا ہے اور یہ جاری رہے گا ،اب حکومت سازگار ماحول فراہم کرے ، ساری دنیا میں ایس ایم ایز نے تبدیلی پیدا کی ہے۔ان کے لیے ٹیکس نظام، یوٹیلٹیز میں سہولت، ایکسپورٹ کے لیے مراعات میں اضافہ کرے تو زر مبادلہ پاکستان آئے گا ،پاکستان میں سروس سیکٹر،اور آئی ٹی چار پانچ ارب ڈالر کی ایکسپورٹ کرسکتی ہے،پاکستان میں انگریزی بولنے والی افرادی قوت موجود ہے دنیا بھر کے کمرشیل کونسلرز ایسی کمپنیوں سے رابطے کرائیں۔ ایک بات کو حکومت یقینی بنائے کہ پیسہ پاکستان آنا چاہئیے دبئی سوئٹزرلینڈ یا انٹرنیشنل بنکوں میں نہ جمع ہوجائے۔
تیسری میرا برانڈ نمایش لاہور میں ہوئی اور لاہور کا مطلب پورا پنجاب ہے،اس سے قدم مزید بڑھیں گے۔
کراچی میں اب چوتھی ایکسپو ہونے جارہی ہے 3 اور 4 جنوری 2026 کو، اس میں استالز کی تعداد بھی زیادہ ہے اور اب چھ ہالز بک کئیے گئے ہیں ، ایک اندازے کے مطابق چار لاکھ سے زیادہ افراد کی شرکت متوقع ہے۔ بزنس کمیونٹی میں بھی جوش ہے اور خصوصا نوجوان پرعزم بزنس مین تو اس نمایش کو اپنا لانچنگ پیڈ بنانے کی تیاریاں کررہے ہیں، پاکستانی برانڈز متعارف بھی ہوگئے ہیں، مارکیٹ میں بھی آگئے ہیں اور تعداد بھی بہت برھ گئی ہے ،بین الاقوامی برانڈز کا بہترین متبادل بھی آگیا ہے، لیکن چند باتوں پر توجہ دینی ہوگی ۔
پاکستان کے نام کی لاج، جب میڈ ان پاکستان لکھا ہو تو دو نمبری پاکستان کو بدنام کریگی۔
معیار اچھا بنائیں ۔
پیکیجنگ بہتر بلکہ بہترین کریں ۔
مقامی مارکیٹ میں منافع کم لیں قیمتیں بین الاقوامی برانڈ سے واضح کم کریں۔
بعض پاکستانی متبادل برانڈ بہت مقبول ہوئے ہیں، لیکن وہ عوام کے جذبے کی قدر کے بجائے عوام ہی کی کھال کھینچ رہے ہیں،انہیں پاکستان بزنس فورم کا یہ سلوگن یاد رکھنا چاہئیے “نفع دونوں جہانوں کا”
منافع ضرور کمائیں لیکن اللہ کی مخلوق کو فائدہ بھی پہنچائیں۔ پاکستان بزنس فورم کے اس کام کو،اس کی روح کے مطابق انجام دیا جائے تو یہ پاکستان کے لئیے معاشی گیم چینجر ثابت ہوگا۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریر، تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ bisaat.mag@gmail.com پر ای میل کردیجیے۔
error: