Advertisement

پاک بھارت کشیدگی: کون کتنا فائدہ اٹھائے گا ؟

پاکستان اور بھارت کے درمیان پھر کشیدگی شروع ہوگئی ،دونوں طرف سے توپیں چلنا شروع ہوگئی ہیں،لیکن اطمینان رکھیں یہ بارود کی توپیں نہیں ہیں بلکہ صرف بیانات کی توپیں ہیں اور بیانات کی حد تک پاکستان اب تک کشمیر بھی ازاد کراچکا ہے اور بھارت لاہور جمخانہ میں تاش اور شراب کی محفل سجاچکا ہے، گلگت بلتستان اپنے کنٹرول میں لے چکا ہے، دونوں مسلسل ایک دوسرے کا منہ توڑدینے اور آنکھیں نکال لینے کے دعوے کررہے ہیں، لیکن کچھ ہی دنوں بعد ایک دوسرے پر نئی واردات کا الزام لگارہے ہونگے۔ پاکستان اور بھارت دونوں کی سیاست ایک ہی انداز کی ہے دونوں کے حکمران ایک ہی انداز کے بیانات دیتے ہیں ، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان اور بھارت کے حکمران ایک دوسرے کے خلاف بیانات دے کر اپنے عوام کو گرماتے ہین ووٹ لیتے ہیں اپنی کمزوریاں چھپاتے ہیں اور انتہائی نازک پوزیشن سے اپنی حکومتون کو نکال لیتے ہیں ،کرکٹ کے کھیل کو بھی اس سیاست میں استعمال کیا جاتا ہے ،کھیلنا بھی چاہتے ہیں اور کھیلتے بھی نہیں۔ ہر دو صورت میں نقصان عوام کا ہوتا ہے حکمرانوں کا نہیں ۔
تازہ صورتحال یہ ہے کہ پہلگام فالس فلیگ اپریشن کے بعد بھارت نے سندھ طاس معاہدے کو معطل کردیا پاکستان نے اس کے اقدام کو مسترد کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ پاکستان کا پانی روکنا اعلان جنگ تصور کیا جائیگا اور کسی بھی بھارتی جارحیت کا بھرپور جواب دیا جائیگا۔
وزیراعظم محمد شہباز شریف کی زیرصدارت قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان نے شملہ سمیت بھارت کے ساتھ تمام دوطرفہ معاہدے معطل کرنے کا عندیہ دیا ہے، لیکن بھارتی قیادت کے متعصبانہ رویے کے تناظر میں اسے صرف عندیہ کی نہیں سخت اقدام کی ضرورت ہے، یہی تجویز 5 اگست 2019 کے اقدام کے وقت بھی دی گئی تھی کہ پاکستان سخت جواب دے لیکن عمران خان حکومت نے سخت جواب کے بجائے آدبھا گھنٹہ خاموشی کے ذریعہ دو مرےبہ احتجاج کیا اور بس، بھسرت کا منہ توڑنے والے اس وقت جنرل باجوہ تھے لیکن منہ نہیں توڑا،اب بھی بیانات سے کام نہیں چلے گا بلکہ اس سے بڑھ کر بھارت کیلئے فضائی حدود‘ سرحدی آمدورفت اور ہر قسم کی تجارت بند کی جانی چاہئیے،اگر پاکستان شملہ معاہدے سے لاتعلقی کا اعلان کرکے کشمیر کا مسئلہ دوطرفہ مذاکرات کے بجائے اقوا۔ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے راستہ اختیار کرے تو بھارت بہت سی پابندیوں کا شکار یوسکتا ہے،اسے سفارتی تنہائی میں بھی جانا پڑے گا۔کیا وجہ ہے کہ وعدہ خلاف اوردھوکے باز کا معاہدہ اس کے منہ پر نہیں مارا جاتا بس بیانات داغے جاتے ہیں۔
دوسری طرف مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جبر، کشمیر کی ریاستی حیثیت کی منسوخی‘ سیاسی اور آبادی کے تناسب میں تبدیلی نے بھی کشمیریوں میں شدید ردعمل پیدا کیا ہے ، لیکن پہلگام واقعے کے پیچھے جو کچھ ہے وہ بھارت کی جانب سے وقف بل کی زبردستی منظوری کی کوششیں ہیں ، جس کے ذریعہ مسلمانوں کی مذہبی آزادیاں سلب کی جارہی ہیں۔ جبکہ بھارت کو ایسے ڈراموں کے بجائے عوام کو تحفظ فراہم کرنا چاہیے۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی سرحدوں پر کشیدگی کی بھارتی کوششوں کا مقصد اس بل پر عوامی ردعمل سے توجہ ہٹانا ہے ،اور کسی مصدقہ تحقیقات اور قابل تصدیق شواہد کے بغیر پہلگام حملے کو پاکستان سے جوڑنے کی کوششیں بے بنیاد اور بچگانہ ہیں۔ایسی حرکتوں سے وہ مقبوضہ کشمیر میں ظلم و جبر اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے اقوام عالم کی توجہ نہیں ہٹا سکتا۔ جبکہ یہ بھی ریکارڈ پر ہے کہ پاکستان کی سرزمین پر بھارتی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی کے ناقابل تردید ثبوت پہلے ہی موجود ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اس گرما گرمی کا نتیجہ کیا ہوگا ، بظاہر کہا جارہا ہے کہ دو ایٹمی طاقتیں آمنے سامنے ہیں اور ایٹمی جنگ کا خطرہ ہے، لیکن پاکستان اور بھارت کے حکمرانوں کے ماضی کے رویوں کی روشنی میں دونوں ممالک کی حکومتیں اس کشیدگی سے اپنا اپنا فائدہ سمیٹنے کے بعد امن پسند ذمہ دار ریاست بننے کا اعلان کریں گی۔اس صورتحال کا بھارتی حکومت کو یہ فائدہ ہوگا کہ وہ وقف بل کے معاملے پر قومی سلامتی کا مقدس لبادہ اوڑھ کر اپنے آپ کو مضبوط کرلے گی، دوسری طرف کشمیر میں کانگریس کی کامیابی کے بعد سے آتنک وادی کا شور نہیں مچ رہا تھا چنانچہ پہلگام آپریشن کے بعد مودی سرکار کو کشمیر کے بارے میں اپنے موقف کو درست ثابت کرنے کا موقع ملے گا۔
لیکن پاکستانی حکدمت کو کیا فائدہ ہوگا ،اول تو بھارت کا نام ہی قوم کو متحد کرنے کے لئیے کافی ہے، پھر ہاکستان کے خلاف اقدامات اور گرمیوں کی آمد کے ساتھ ہی سندھ طاس معاہدے کی معطلی کے اعلان نے بھی پہلے ہی آبی قلت کا شکار ملک کے عوام میں اضطراب پیدا کردیا ہے ،اس کے علاوہ عمران خان کے حامیوں کا دباؤ کم ہوگا، بلوچستان میں اقدامات پر سوال کم ہوجائیں گے اور پاکستان میں سیکورٹی کے ہر خلا کا الزام بھارت پر ڈالنا آسان ہو جائے گا ۔جہاں تک جنگ اور ایٹمی جنگ کی بات ہے تو ابھی ایسے شواہد سامنے نہیں آئے ہیں کہ سیدی کوئی جنگ ہو، دونوں ملکوں کے حکمران ایٹمی تو کجا کوئی جنگ اپنی مرضی سے نہیں چھیڑ سکتے۔دنیا میں اب ساری جنگیں صرف بڑے کھلاڑی شروع اور ختم کرواتے ہیں،بھارت جتنا بھی بڑا ہوجائے اور پاکستان میں کسی کی بھی حکومت ہو جنگ جیسے کام فیصلہ یہ تنہا نہیں کرسکتے ، اب دونون ملکوں کےعوام کو بھی سوال کرنےہوں گے ،قومی سلامتی اور قدیم دشمن دکھا دکھا کر کب تک عوام کو دھوکے میں رکھیں گے ۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریر، تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ bisaat.mag@gmail.com پر ای میل کردیجیے۔
error: