Advertisement

پاک بھارت جنگیں اور فوجی توازن

اپریل میں پاکستان اور بھارت کے حوالے سے بہت خطرناک صورتحال پیدا ہوئی،22اپریل2025 کو بھارت کے زیر انتظام مقبوضہ کشمیرکے مشہور سیاحتی مقام ’’پہلگام‘‘ کی ’’وادیِ بیسران‘‘ میں پیش آیا ہے ۔پہلگام کو بھارت میں( مقبوضہ) کشمیر کا ’’سوئٹزر لینڈ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ یہ سری نگر سے 90 کلومیٹر کے فاصلے پر جنگل میں سیر و تفریح کی جگہ تھی 26 سیاح تھے ان کو قتل کیا گیا اور اس کو ایک بہت بڑی دہشت گردی کا واقعہ قرار دیا گیا ۔حسبِ معمول اورحسبِ عادت بھارتی میڈیا، بھارتی سیاستدانوں اور بھارتی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے پاکستان کی طرف انگشت نمائی کی گئی بھارت نے اس تخریب کاری کو پاکستان کی کاروائی قرار دیا کہ یہ پاکستان کی طرف سے کی گئی ہے اور اس کی انہوں نے پہلے ہی گھنٹے میں مذمت شروع کر دی پاکستان اور بھارت کے درمیان 1947-48, 1965, 1971 اور کارگل کی جنگیں مشہور ہیں۔
فوجی توازن یا قوت
اس وقت بھارت اور پاکستان دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں اور دونوں کے پاس برابر کی قوت ہے یعنی اگر ہندوستان کے پاس 172 وار ہیڈ یا ایٹم بم ہے تو پاکستان کے پاس 170 وار ہیڈ یا ایٹم بم بتائے جاتے ہیں دونوں کے درمیان جو جنگی توازن ہے وہ ظاہر ہے برابر نہیں ہے بلکہ اس کو ہم توازن نہیں کہہ سکتے بھارت ایک بہت بڑی طاقت ہے تقریباً اس کی ڈیڑھ ارب آبادی ہے(بھارت کی آبادی اس وقت 1.428 بلین سے زیادہ ہے، جس سے یہ دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن گیا ہے) اس لحاظ سے اس کےپاس بہت بڑی فوج ہے اس کے مقابلے میں پاکستان کی 25 کروڑ آبادی ہے معاشی لحاظ سے بھی پاکستان کمزور ہے اور اس کی فوج کی تعداد بھی کم ہے لیکن اس کے باوجود کیونکہ بھارت نے کہا ہے کہ وہ پاکستان پر حملہ کرے گا تو پاکستان کو ایک دفاعی جنگ لڑنی ہے یعنی پاکستان کوبھارت کے حملے کا مقابلہ کرنا ہے جواب دینا ہے اس کو آگے بڑھ کے حملہ نہیں کرنا۔
جنگوں کی بہت ساری شکلیں ہیں یعنی ایک جنگ سفارتی محاذ پر لڑی جاتی ہے بھارت پاکستان کوتنہا کرنے کی کوشش کر رہا ہے مودی سرکار کا باقاعدہ یہ بیانیہ ہے کہ ہم پاکستان کو تنہا کریں گے۔
ایک سرد جنگ ہے جو روس اور امریکہ کے درمیان ایک طویل عرصے تک کئی دہائیوں تک چلتی رہی ۔ وہ زیادہ تر سفارتی محاذ پر ہی ہوتی تھی اس کے بعد اگلا مرحلہ معاشی جنگ کا ہے کہ اکنامک وار ڈکلیئر کی جائے ایک دوسرے کے خلاف جو ابھی بھارت نے ڈکلیئر کیا ہے کہ جوبھارت نے فضائی حدود ہے پر پابندی لگائی، اس کے جواب میں پاکستان نے پابندی لگائی کہ ہماری فضائی حدود سے ایئر انڈیا کے جہاز نہیں گزر سکتے بحری جہازوں پہ بھی پابندی لگائی گئی، ہر قسم کے ٹرانزیکشنز پہ پابندی لگائی گئی ،ویزوں پہ پابندی لگائی سفارتی مشن کی تعداد میں کمی کی گئی یہ وہ سب چیزیں ہیں جو سفارتی اور معاشی جنگوں میں کی جاتی ہیں اس جنگ کو اعصابی جنگ کا بھی نام دیا جاسکتاہے یہ تو ایک عرصے سے ہو رہی ہے، لیکن اس وقت وہ زوروں پر ہے۔میڈیا کی جنگ ہو رہی ہے آج کل ایک اور اہم پلیٹ فارم لوگوں کو مہیا ہوا ہے وہ سوشل میڈیا کا پلیٹ فارم ہے اس وقت ایک زبردست جنگ ہو رہی ہے سوشل میڈیا پر اگر اپ نے کبھی انڈین چینلز سنے ہوں تو بالکل ایک باؤلے پن کا مظاہرہ کر رہے ہیں وہ ایک عجیب و غریب صورتحال سے دوچار ہے ہر منٹ ان کی طرف سے جو بھی نشریات ہوتی ہیں اس میں پاکستان پر الزام تراشی ہوتی ہے پاکستان کے خلاف پروپگنڈا ہوتا ہے پاکستان کی ہر چیز کے خلاف پروپیگنڈا ہوتاہے ظاہر ہے سب سے اہم چیز جو ان کے ہاتھ میں ہے وہ یہ ہے کہ پاکستانی فوج کو عوامی تائید حاصل نہیں ہے یہ وہ نقطہ ہے جس پر یعنی انڈین لابی یا انڈین میڈیا مسلسل کام کر رہا ہے اور اس کو مسلسل ہائی لائٹ کر رہا ہے یہاں سے انٹرویوز کیئے جاتے ہیں اور ان انٹرویوز کوتوڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے تو ایک بہت بڑی سائیکلوجیکل جنگ جو میڈیا کے محاذ پر جاری ہے اب اس کے بعد جو جنگ کی صورت بنے گی وہ ظاہر ہے فزیکل جنگ ہوگی یعنی جو اصلی جنگ ہے جو حربی جنگ ہے۔
ایسی جنگ کی بات سے پہلے دونوں طاقتوں کی قوت کا جائزہ لینا ضروری ہے۔
بھارت: افواج کی کل تعداد 50 لاکھ سے زیادہ ہے جس میں 14 لاکھ 55 ہزار باقاعدہ فوج ہے یہ تعداد 14 لاکھ سے 16 لاکھ تک بتائی جاتی ہے اسی طرح جو ریزورو یا اضافی فوج ہے ،ان کی تعداد بھی تقریبا 12 لاکھ کی ہے اور اس کے علاوہ جو پیرا ملٹری فورسز ہیں جس طرح پاکستان میں لیویز یاملیشیا ہوتی ہے اس طرح ہندوستان میں بھی ہے ان کی تعداد 25 لاکھ سے زائد ہے تو یہ کل تعداد 50 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔
اس کے مقابلے میں پاکستان کی جو فوج ہے یہ چھ لاکھ 54 ہزار بتائی جاتی ہے جو باقاعدہ ٓآرمی ہے، بعض اوقات آٹھ لاکھ رپورٹ کیا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ جو اضافی نفری ہے وہ پاکستان کے پانچ لاکھ 50 ہزار ہیں اور جو پیراملٹری فورسز ہیں وہ پانچ لاکھ کے لگ بھگ ہیں اس طرح پاکستان کی افواج کل ملا کر 17 لاکھ سے 18 لاکھ تک ہے، جبکہ بھارت کی 50 لاکھ کے لگ بھگ ۔
پاکستان کی آبادی بھی کم ہے اور پاکستان دفاعی جنگ لڑتا ہے جو فوج ہوتی ہے اس کا بہت بڑا بجٹ ہوتا ہے بجا کا ایک بہت بڑا حصہ فوج کی صلاحیت بڑھانے پر لگتا ہے۔ ساڑھے سات ارب ڈالر ہم اس وقت فوج کے اوپر خرچ کر رہے ہیں۔ ہمارے سات ارب ڈالر کے مقابلے میں انڈیا 75 ارب ڈالر خرچ کر رہا ہے ۔ کیونکہ چین کے ساتھ بھی اس کی مخالفت ہے ان کے ساتھ بھی جنگ کا ہمیشہ خطرہ ہے وہاں بھی ان کو فوج رکھنی ہے پاکستان کے بارڈر پر بھی رکھتے ہیں یہ جو خرچہ ہے وہ اس کی ڈیفنس ہے سیاچین گلیشیئر پہ بھی انہوں نے فوج رکھنی ہے اور دیگر جگہ بھی۔ بھارت کو دنیا میں پانچویں بڑی فوجی طاقت قرار دیا جاتا ہے۔
ایئرفورس کا بہت اہم کردار ہوتا ہے انڈیا کے پاس 2 ہزار سے زیادہ جہازہیں ۔ جبکہ پاکستان کے پاس تقریبا 1400 جہاز ہیں ۔ انڈیا کے پاس 513 کی تعداد میں فائٹر ہیں جبکہ پاکستان کے پاس 328 ہے یہ جو تعداد ہے ایئر فورس کی یہ یعنی اس لحاظ سے اہم ہے کہ پاکستان کے پاس جو طاقت ہے وہ تقریبا نصف ہے یعنی بھارت کی ہے اور پاکستانی فضائیہ کی دنیا میں ایک بہت بڑی رپورٹیشن ہے اور پاکستانی پائلٹوں کی مہارت کو دنیا میں تسلیم کیا جاتا ہے ۔
لیکن ابھی حال ہی میں جو رافیل طیارہ کاانڈین ایئرفورس میں اضافہ ہوا اس نے انڈئین ائیر فورس کو ایک سبقت دی تھی یہ ۲۴جہاز فرانس کے جہاز ہیں،جس کمپنی نے یہ رافیل بنائے ہیں وہ 50 سال پہلےمیراج جہاز بناتی تھی، اور وہ 50 اور 55 سال پرانے میراج اب بھی پاکستان استعمال کر رہا ہے کوئی 30، 40 کے قریب جہاز ہیں اس کو دوبارہ قابل استعمال بنایا ہے پاکستان نے اس میں اضافے کئے ہیں اس کو بہتر بنایا ہے ہمارے پاس رافیل کے مقابلے میں 50 سال پرانے میراج ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان کے پاس جو بہترین جہاز ہیں وہ ایف 16 ہیں اس وقت 32 کی تعداد میں لیکن یہ بھی تقریبا لگ بھگ 35 سے 40 سال پرانے ہیں یہ تو ظاہر ہے اس کی استعداد بھی کم ہے رافیل جہازوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے، لیکن بہرحال یہ جہاز پاکستان کے پاس موجود ہیں اور اس کی مہارت دنیا بھر میں تسلیم کی جاتی ہے لیکن اس کے بارے میں جو طے شدہ معاہدہ ہےکہ پاکستان اس کو دفاعی مقاصد کے لیے استعمال کرسکتا ہے حملہ کرنے کے لیے استعمال نہیں کر سکتا حملہ کرنے کی صورت میں بھارت سے اگر حملہ ہو تو F-16 آپ کے کام ا ٓسکتے ہیں لیکن اس کو اپ بھارت کے سرزمین پہ لے جا کے استعمال نہیں کرسکتے ۔اس کمی کو پورا کرنے کے لیے پاکستان نے جے ایف-17 تھنڈر اور پھر مزید جہاز بنانے شروع کیے چین کے تعاون کے ساتھ اور یہ جہاز جدید ترین سیریز کا وہ جہاز ہے جو ابھی کم تعداد میں پاکستان کو 10 یا 12 جہاز ٓائے ہیں لیکن یہ وہ جہاز ہیں جو رافیل کا مقابلہ کر سکتے ہیں،اور جو میزائل کی رینج ہے یاجو پہنچ ہے ان کے ریڈار کی وہ سو سے دوسو کلو میٹر ہے ۔ ایک اور اہم چیز جو رہ گئی وہ زمینی فوج کے حوالے سے ہےزمینی فوج کی جو طاقت ہوتی ہے وہ ٹینک ہوتا ہے تو جو ٹینک ہیں وہ انڈیا کے پاس چار ہزار دو سوکے لگ بھگ ہیں جبکہ پاکستان کے پاس(00 26 ) دو ہزار چھ سو ہیں ،بہت فرق نہیں ہے پاکستان کے پاس ان کے نصف سے زیادہ ٹینک موجود ہیں تعداد میں اور پاکستانی ٹینکوں کی جو صلاحیت ہے یہ بھی زیادہ تر پاکستانی چینی ساخت کے ٹینک ہے اور پاکستان نے یوکرین کی مدد سے پچھلے 10 سال میں یوکرین کے انجینیئرز نے ا کر یہاں کام کیا اور ان ٹینکوں کو اپگریڈ کیا اور یوکرین سے یہاں پر ان کے انجن منگوائے گئے ان میں انجن ڈالے گئے اور ان میں یہ صلاحیت پیدا کی گئی الخالد اور دیگر ناموں سے کہ وہ بھارت کے ٹینکوں کا مقابلہ کر سکیں۔ لیکن ظاہر ہے ابھی تک اس کا بھی ٹیسٹ نہیں ہوا بھارت کے پاس جو ٹینک ہے وہ زیادہ تر روسی ساختہ ہیں ان کا بھی ابھی تک امتحان نہیں ہوا کہ دونوں ٹینک کی کارکردگی عملا ًمیدان میں کیسی ہوگی ۔جو دوسری بڑی طاقت ہوتی ہے وہ آرٹیلیری کی طاقت ہوتی ہے جب ہم یہ تقابلی جائزہ لے رہے تھے دونوں افواج کا تو ایک عجیب بات دیکھنے میں آئی کہ اس میں پاکستان کو برتری حاصل ہے یہ بڑی عجیب بات ہے کہ انڈیا کے پاس جو توپیں ہیں وہ 100 ہیں تو پاکستان کے پاس 600 ہیں جو خودکار ہیں اسے عام طور پر خود مختار حرکتی نظام کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ہیں ۔لیکن جو راکٹ پروجیکٹرز ہیں جو راکٹ مارتے ہیں وہ بھی پاکستان کے پاس 600 کی تعداد میں ہیں اور انڈیا کے پاس 264 کی تعداد میں ہے یہ عجیب بات ہے بہرحال بھارت یک بڑی طاقت ہے اس کے پاس بہت زیادہ وسائل ہیں لیکن اس کے پاس توپ خانہ کمزور ہے یہ بھی پاکستان کی ایک نمایاں خوبی ہے۔ انڈین فوجی ماہر کے مطابق پاکستان کے پاس بھارت سے زیادہ آٹومیٹک توپ خانے کے نظام ہیں۔
پاکستان نے میزائل ٹیکنالوجی میں بہت ترقی کی ہے بھارت نے بھی میزائل ٹیکنالوجی بنائی ہے اور یہ چھوٹے رینج کے میزائل بھی ہیں دور مار کے میزائل بھی ہیں لیکن ظاہر ہے ان میزائلوں کا ٹیسٹ ہونا بھی ابھی باقی ہے دونوں ملکوں کی طرف سے بڑے بڑے دعوے کیے جاتے ہیں ۔
بحری قوت میں یقیناً برتری حاصل ہے اس کے بعد ایئر کرافٹ کیریئر ہے جو پاکستان کے پاس نہیں ہے اسی طرح ان کے پاس جو destroyer ہے فریگیٹ وہ پاکستان کے پاس کم ہے صرف دو ڈسٹرائر ہیں جبکہ بھارت کے پاس 19 ہیں ۔
بھارتی بحری جہاز وکرانت سمیت 2طیارہ بردار جہاز اور تباہ کن جہاز فریگیٹس ہیں۔
ایک اور سوال ہے کہ کیا نیوکلیئر جنگ کا خطرہ ہے ؟ظاہر ہے یہ سوال مسلسل کیا جاتا ہے اور یقینا خطرہ ہے اگر کوئی بھی ملک شکست کی کیفیت سے دوچار ہو تو وہ نیوکلیئر بم استعمال کر سکتا ہے کیونکہ دونوں ممالک کے پاس یہ صلاحیت موجود ہے یہ ایک ڈیٹرنس کہلاتی ہے کہ اس کی وجہ سے روایتی جنگ کی بھی نوبت نہیں آتی ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ایسی صورتحال پیدا نہ کرے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریر، تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ bisaat.mag@gmail.com پر ای میل کردیجیے۔
error: