دنیا کے تیزی سے بدلتےبوئے حالات میں نسبتا کمزور ممالک کے لئیے خطرات بھی بڑھ رہے ہیں اور مواقع بھی ، پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہے جو کمزور نہیں تو طاقتور بھی نہیں، بلکہ پاکستان ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود نہایت کمزور معاشی صورتحال سے دوچار ہے۔
ایسے میں مئی 2025 میں بھارت سے پانچ روزہ جھڑپ نے بالکل نئی صورتحال پیدا کردی، معاشی اور فوجی اعتبار سے بھارت کے مقابلے میں کمزور ملک پاکستان کی افواج نے پیشہ ورانہ مہارت اور جرأت کی تاریخ رقم کردی اور بھارت کو بدترین شکست سے دوچار کردیا ،اور یہاں سے پاکستان کے لئیے مواقع کھلنا شروع ہوگئے ،پہلے بھارت خلجان میں مبتلا ہوا ،شرمندگی کے مارے سر نہیں اٹھا سکتا ،اس کے بعد یورپ خصوصا فرانس نے انکھیں پھیریں اور ساتھ ہی امریکی صدر ٹرمپ کے اقدامات نے بھارت کو شدید پریشانی سے دوچار کردیا،پھر پاکستان کے لئیے آسانیاں پیدا کی گئیں اور اب پاکستانی فوجی برتری یا دھاک نے قضیہ فلسطین اور اسرائیلی چیرہ دستیوں کے حوالے سے نئے امکانات پیدا کردئیے اور اس سلسلے کا پہلا بڑا اقدام پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی معاہدہ ہے اس سے خلیج کی سلامتی میں ایک نئے دور کاآغاز ہوا ہے جس کا مرکز سعودی عرب و پاکستان کے درمیان اسٹریٹجک شراکت داری ہے۔
اس معاہدے کے تحت کسی بھی ملک پر حملہ دونوں پر حملہ تصور کیا جائے گا ۔سعودی عرب اورایٹمی طاقت پاکستان کے درمیان ریاض میں جامع دفاعی معاہدہ ہوا ۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور وزیراعظم شہباز شریف نے پاک سعودی “اسٹریٹجک باہمی دفاعی معاہدے” (SMDA) معاہدے پر دستخط کیے۔ اس معاہدے کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب اور پاکستان کی آٹھ عشروں پر محیط تاریخی شراکت داری ہے، دونوں ممالک میں مشترکہ اسٹریٹجک مفادات اور قریبی دفاعی تعاون کے تناظر میں یہ معاہدہ ہواجو دونوں ممالک کی سلامتی کو بڑھانے کے مشترکہ عزم کی عکاسی کرتا ہے، معاہدہ خطے اور دنیا میں امن کے حصول کے مشترکہ عزم کی عکاسی کرتا ہے‘دونوں برادر ممالک کے درمیان اسٹریٹجک شراکت داری کی گہرائی اور دفاعی تعاون کو مزید مضبوط کیا جائے گا۔
موجودہ اور متوقع خطرات سے نمٹا اور دفاعی تعاون کے مختلف پہلوؤں کو فروغ دیا جائے گا‘ بتایا گیا ہے کہ آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے معاہدے کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کیا ، معاہدےکے نتیجے میں پاکستان اب حرمین شریفین کے تحفظ میں سعودی عرب کا پارٹنر بن گیا‘ معاہدے میں کہاگیاہے کہ کسی بھی ایک ملک کے خلاف کسی بھی جارحیت کو دونوں ملکوں کے خلاف جارحیت تصور کیا جائے گا‘دونوں ممالک کسی بھی خطرے سے مشترکہ طور پر نمٹیں گے اور اپنے دفاع کیلئے ایک ملک کی طاقت دوسرے ملک کے دفاع کےلیے موجود ہوگی‘ پاکستان مقدس مقامات کے دفاع میں سعودی عرب کے ساتھ کھڑا ہوگا اور دونوں ممالک بھرپور طاقت کے ساتھ جواب دیں گے ۔
اس معاہدے سے بیک وقت کئی تبدیلیاں آسکتی ہیں ،حالیہ دنوں میں اسرائیل کی جانب سے،ایران ،لبنان اور اب قطر پر حملوں کے بعد مشرق وسطی کے ممالک میں تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی خصوصا سعودی عرب میں جس نے اپنا پورا دفاع امریکا کے حوالے کررکھا ہے اور حال ہی میں امریکی حلیف قطر پر اسرائیلی حملہ یہ بتانے کے لئیے کافی تھا کہ امریکا اسرائیل کے مقابلے میں اپنے کسی حلیف کا ساتھ نہیں دے گا، چنانچہ پاکستان کے مئی 2025 کے آپریشن بنیان مرصوص کے بعد عرب فنیا کی نظریں پاکستان کی طرف ہوگئی تھیں، یقینا اس صورتحال دے پاکستان کو بڑے فوائد ملے ہیں ، لیکن مستقبل میں دوررس نتائج والے کام یعنی سعودی سرمایہ کاری، پاکستانی افرادی قوت کے لئیے ملازمت کے مواقع ویزوں میں آسانی وغیرہ کو یقینی بنانا پاکستانی قیادت کا کام ہے ،ایسا نہ ہو کہ کچھ تیل مفت ،کچھ لمبے ادھار پر اور قرضہ ری شیڈول کرواکے خوش ہوجائیں ۔اگر پاکستانی قیادت اپنے ملک کے نوجوانوں کے لئیے روزگار کے مواقع یقینی بنادے تو یہ بڑی کامیابی ہوگی۔
ایک طرف جہاں یہ کامیابی اور موقع ہے وہیں پاکستان کے لئیے خطرات بھی بڑھ گئے ہیں، خطرات یوں کہ اسرائیل ، بھارت اور امریکااس معاہدے کو ہضم نہیں کرسکیں گے اور کچھ نہ کچھ سازشیں ہوتی رہیں گی اور یہیں سے پاکستانی قیادت کا امتحان بھی شروع ہوگا کریڈٹ لینے اور دینے والے اب ذمہ داری بھی لیں تاکہ معاہدے کے ثمرات پاکستانی قوم کو مل سکیں۔ یہ جو بار بار تکرار کی جارہی ہے کہ پاکستان مقدس مقامات کے تحفظ میں سعودی عرب کے ساتھ کھڑا ہوگا ، اگر معاہدے میں مسلمانوں کے مقدس مقامات کا لفظ ڈال دیا جاتا تو القدس کا تحفظ بھی اس میں شامل ہوجاتا اور یہ معاہدہ امت مسلمہ کا حقیقی ترجمان بن جاتا، ساتھ ہی صمود فلوٹیلا کے تحفظ کا مطالبہ بھی اس معاہدے کو چارچاند لگا دیتا۔
پاک سعودی معاہدہ، کامیابی ، امکانات اور خطرات
















