جب پاکستان بزنس فورم نے دوسری میرا برانڈ پاکستان نمایش کا اعلان کیا تو ہمارا خیال تھا کہ اسی طرح ایک اچھی نمایش ہوگی جیسی پہلی ہوئی تھی۔لیکن بزنس فورم کے جنرل سیکریٹری عامر رفیع نے ہمیں پوری طرح اس پروجیکٹ میں شامل کرلیا ،اور جب اس حوالے سے ہونے والی ایک میٹنگ میں شرکت کی جہاں بزنس فورم کے صدر برادر سہیل عزیز نےگرمجوشی سے خیر مقدم کیا اور ساتھیوں سے تعارف کرایا۔اسی روز علم میں آیا کہ اس سال پہلے سے بڑے پیمانے پر نمایش ہورہی ہے اور دونوں بڑے ہالز میں نمایش کنندگان کی تعداد پہلے سے زیادہ ہوگی ۔سہیل عزیز نے تفصیل بتائی کہ اد مرتبہ زیادہ برانڈز ارہے ہیں ،انہوں نے زور دیا کہ ہم اس نمایش کی تمام امدنی اہل فلسطین کے لئیے وقف کررہے ہیں ،ایک طرف تو بائیکاٹ کیا جارہا ہے اور ساتھ ہی پاکستانی مصنوعات کو فروغ دیا جارہا ہے ، لیکن بہتر یہ ہے کہ ہم اپنی مصنوعات کا تعارف کرائیں اور ان کو فروغ دیں۔
یہ باتیں تو باتیں تھیں اور بہت سے لوگ باتیں کرتے ہیں اور بات آئی گئی ہو جاتی ہے ، لیکن چشم فلک نے یہ منظر دیکھا برسر زمین یہ واقعہ ہوا کہ ایکسپو سینٹر کے دونوں بڑے ہالز تنگ دامانی کا شکوہ کرنے لگے،اور یہ باتیں 18 اور 19 جنوری کو حقیقت کا روپ دھارگئیں، پہلے دن تو افتتاح تھا لیکن وہاں موجود برانڈز نے کھلبلی مچادی ۔تقریبا چارسو کمپنیز اور برانڈز نے اسٹالز لگائے جن میں لوگوں نے بھرپور دلچسپی کا اظہار کیا ، ایک اندازے کے مطابق ڈھائی لاکھ لوگوں نے دودنوں میں اس نمایش کا دورہ کیا اور یہاں صرف دورہ نہیں کیا گیا بلکہ ایک بہت بڑی تجارتی سرگرمی عمل میں آئی ،رش کا اندازہ اس امر سے لگائیں کہ نمایش کے دونوں دن حسن اسکوائر کے اطراف کی سڑکیں بلاک رہیں اور اس کا سبب وہ نہیں تھا جو کرکٹ میچوں کے وقت سڑکیں بند کرنے سے ہوتا ہے ،یہ رش عوام کے خود گھروں سے نکلنے کی وجہ سے بڑھا تھا۔اسکا مطلب ہے کہ پاکستان بزنس فورم آئندہ سال کے لئیے تمام چھ ہال بک کرنے کی تیاری کرے ، اور دو کے بجائے تین دن کاپروگرام رکھے تو عوام کی وہ تعداد بھی شریک ہوسکے گی جو اس مرتبہ چاہتے ہوئے بھی شریک نہ ہوسکی ۔عملا صورتحال یہ تھی کہ رات کو گیٹ بند کرنے پڑے کہ لوگ آخری لمحے میں بھی نمایش میں انا چاہ رہے تھے ۔پاکستان بزنس فورم نے یہ کام کسی منافع کے حصول کے لئے نہیں کیا بلکہ ساری آمدنی فلسطین فنڈ میں دینے کا پہلے ہی اعلان کردیا تھا گویا نفع دونوں جہانوں کا کے مصداق ہر طرح فائدے میں رہے ،جبکہ تاجروں اور کمپنیوں نے کروڑوں روپئے کا مال فروخت کیا، ایک اندازے کے مطابق تقریبا چالیس کروڑ روپئے کا مال فروخت ہوا، اور سب سے زیادہ فائدہ تاجروں کو یہ ہوا کہ تقریبا ڈیڑھ ارب روپئے کے سودے بھی یوئے ۔بہت سے تاجروں نے رمضان کے سودے کئیے، بہت سے معزز مہمانوں نے تبصرہ کیا کہ ہم تصور نہیں کرسکتے تھے اتنا زبردست نظام اور اتنے سارے برانڈ ز کو بزنس فورم نے ایک چھت کے نیچے جمع کردیا ہے ۔ اس حوالے سے بزنس فورم کے صدر سہیل عزیز نے بھی بتایا کہ ہم نے اسمال اینڈ میڈیم اینٹرپرائزز ( ایس ایم ایز ) کے لئے علیحدہ گوشہ رکھا اور لوگوں نے نئے نئے برانڈز پر کام کیا، ایسے تمام لوگوں اور تاجروں کو ہم نے موقع دیا، ہماری کوشش تھی کہ ایس ایم ایز کو سامنے لائیں اور ہمیں بڑے پیمانے پر کامیابی حاصل ہوئی ۔ اس کے نتیجے میں اپنے برانڈز متعارف کرانے کے خواہاں ایس ایم ایز کو بڑے برانڈز کے مساوی مواقع ملے ۔بزنس فورم کی اس نمایش نے چھوٹے بزنس مین کو بھی بہت اعتماد دہا ہے ۔کہ اب ہم بڑے برانڈز کے مساوی موقع حاصل کرکے مقابلہ کرسکتے ہیں ،اور انہوں نے اپنے برانڈز کی خوب تشہیر کی ، لیکن ایسا نہیں ہے کہ بڑے برانڈز نے بزنس نہیں کیا ،انہوں نے رعایت بھی دی اور مستقبل کے بہت بڑے سودے بھی کئیے ، اسٹاک مارکیٹ میں وعدوں پر کاروبار ہوتا ہے میرا برانڈ پاکستان میں بھی اگلے دوماہ کے پیشگی سودے ہوئے ۔اور بڑے براندز نے چھوٹے برانڈز کو ڈسپلے ،پیکنگ ،اسٹالز کی سجاوٹ وغیرہ میں بھی رہنمائی دی،
ان سارے کاموں،اربوں روپئے کے کاروبار، مقامی یعنی پاکستانی برانڈز کے فروغ اور ایک چھت تلے اتنے سارے کاروباری حضرات کو جمع کرنے کا سہرا پاکستان بزنس فورم کے سر ہے ، پی بی ایف نے ایک مثبت ماحول میں کسی مقابلے بازی اور ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالے بغیر بزنس کا جو ماحول دیا وہ شاید دنیا میں کہیں نہیں ملتا ، اپنے ملک کے تاجروں اور پاکستانی برانڈز کی پاسبانی کس یہ سعزاز پاکستان بزنس فورم کو حاصل ہوا ،اور پاکستان کو اسی کی ضرورت ہے ۔اس طرح کے جتنے پروگرام ہونگے پاکستانی برانڈز کو اتنا ہی زیادہ فروغ ملے گا۔
اگر دیکھا جائے تو ،پاکستان میں پاکستانی برانڈز کے لئیے بہت مواقع ہیں سرکار نے کئی ادارے بنارکھے ہیں ،خود تاجروں نے تنظیمیں بنا رکھی ہیں لیکن بزنس فورم کی اس سرگرمی سے جو قومی خدمت ہوئی ہے اس کا کوئی ثانی نہیں ہے ،ہم اکثر کہتے ہیں کہ لوگ پیسہ ملک میں لائیں، لیکن اس کے لئے ماحول اور مواقع فراہم نہیں کئیے جاتے ،پاکستان بزنس فورم نے دونوں کام نہایت خوبصورتی اور پیشہ ورانہ طریقے سے انجام دئیے ہیں ، اس نمایش میں ایسے ادارے اور تاجر بھی شریک ہوئے جو صرف ایکسپورٹ پر توجہ دیتے تھے ،لیکن ان کی ہمت افزائی کی گئی تو وہ پاکستانی مارکیٹ کی طرف متوجہ ہوئے ہیں اس سے معیاری پاکستانی برانڈز مارکیٹ میں آنے کا راستہ کھلا ہے ۔ بزنس فورم نے دروازہ کھولا ،عوام داخل ہوئے ،عوام اور برانڈزنے سودے کئیے ، ہول سیل تاجروں اور برانڈز نے بھی سودےکیے، پاکستان بزنس فورم یہ کامیاب پروگرام کرانے پر پوری ٹیم کے ساتھ مبارکباد کی مستحق ہے ،اور اس کی مبارکباد اور پذیرائی ہہ ہے کہ اب وہ بلائے تو ساری قوم ملی جذبے کے ساتھ کھڑی ہوجائے ،پھر کوئی وجہ نہیں کہ ملکی برانڈز زرمبادلہ بھی بچائیں گے اور برآمدات میں اضافہ بھی کریں گے ، لیکن اس کے لئیے حکومت پاکستانی برانڈز کو ترجیحی بنیادوں پر مراعات دے ۔ کئی بڑے پاکستانی برانڈز نمایش میں نظر نہیں ائے، اس کی وجہ احتیاط بھی ہوسکتی ہے،اور مارکیٹ حکمت عملی بھی، لیکن میرا برانڈ پاکستان 25 کی کامیابی کے بعد حکمت عملی یہ ہونی چاہئیے کہ بڑے برانڈ اسٹالز لگانے کے ساتھ نمایش کے اسپانسرز بھی بنیں ،اس ملک سے کماتے ہیں اب اس پر لگانے کاکام بھی کریں ۔
پاکستان بزنس فورم: قومی برانڈز کا پاسبان
