شفق رفیع ( کراچی)
1973 سے ہر سال 5 جون کو عالمی یوم ماحولیات اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کی زیر قیادت ایک منفرد تھیم کے تحت منایا جاتا ہے، رواں برس ڈیموکریٹک ری پبلک آف کوریا (شمالی کوریا) اس ایونٹ کی میزبانی کرے گا، جس کا تھیم ’پلاسٹک سے ہونے والی آلودگی‘ کا خاتمہ رکھا گیا ہے۔
ذرا غور کریں تو کیا منظر ہوگا کہ اس سال ایک مرتبہ پھر دنیا کے مہذب، ترقی یافتہ ممالک اور ماسٹر مائنڈز عالی شان عمارت کے بڑے سے ہال میں درختوں کو کاٹ کر حاصل کی جانے والی لکڑی سے بنائے گئے فرنیچر پر سرجوڑے بیٹھیں گے، جہاں گرمی کی شدت کم کرنے کے لیے سینٹرلائزڈ ایئر کنڈیشنرز لگے ہوں گے، ہر مہمان کے سامنے ایک ایک پلاسٹک کی بوتل رکھی ہوگی، جس میں منرل واٹر ہوگا اوربات کی جائے گی عالمی ماحولیات، ماحولیاتی آلودگی سے جنم لینے والے مسائل اور پلاسٹک پولیوشن کے خاتمے کی۔
اس موقعے پر ایک مرتبہ پھر پاکستان بھی زیر بحث آئے گا، اس لیے نہیں کہ ماحولیاتی آلودگی میں اس کا کوئی بنیادی کردار ہے بلکہ اس لیے کہ اس آلودگی میں سب سے کم حصہ ہونے کے باوجود بھی ہمارا ملک سب سے زیادہ خطرے سے دوچار ہے۔
پگھلتے گلیشیئرز،خشک سالی، غیر معمولی بارشیں، سطح سمندر میں اضافہ، موسمیاتی تبدیلی نے ہمیں جتنا نقصان پہنچایا ہے دنیا اس کا اعتراف تو کرتی ہے لیکن مسئلے کے حل کے لیے زبانی جمع خرچ سے زیادہ کچھ نہیں کیاجاتا اور فنڈز کے نام پر طفل تسلیاں دے دی جاتی ہیں۔
ایسے مشکل وقت میں کہ جب پاکستان میں ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے مسلسل خطرے کی گھنٹیاں بج رہی ہیں، تمام ریاستی ادارے، پالیسی ساز، سول سوسائٹی اپنے تئیں شعور و آگہی فراہم کرنے اور عالمی سطح پر پاکستان کے لیے آواز اٹھا رہے ہیں، ان میں ایک ادارے’Silent Warriors Unsung Heroes’ کے حوالے سے بھی بات کرنا بے حد ضروری ہے، جو ماحولیاتی آلودگی کم کرنے کے لیے ایک طویل عرصے سے پس منظر میں رہ کر انتہائی اہم اور بڑے کام انجام دے رہے ہیں، جن کی بنیادی ذمے داری تو آبی سرحدوں کا دفاع ہے، لیکن وہ ’ماحولیاتی مورچوں‘ پر بھی سینہ سپر کھڑے ہیں۔ یہ ذکر خیر ہے پاکستان بحریہ کا، یقینی طور پر نیوی یا بحریہ کا نام سنتے یا پڑھتے ہی ذہنوں کے نقوش پر سمندر میں گشت کرتے وار شپس، زیر آب آب دوزیں، پاکستان کی آبی سرحدوں کو محفوظ بناتے جاں بازوں کی شبیہہ ابھرتی آتی ہے، لیکن خال خال ہی لوگ جانتے ہیں کہ ہماری بحریہ ماحولیاتی تحفظ کو یقینی بنانے میں بھی ایک طویل عرصے سے اہم کردار ادا کر رہی ہے، جو اس بات کا مظہر ہے کہ قومی سلامتی اب روایتی دفاع تک محدود نہیں رہی بلکہ یہ سمندری، آبی حیات کے تحفظ، ماحولیاتی پائیداری،ساحلی پٹی کو محفوظ بنانے تک پھیل چکی ہے۔
جہاں ساحلی پٹی پر آباد کمیونٹیز سمندر کی بڑھتی ہوئی سطح، غیر معمولی بارشوں کا خمیازہ بھگت رہی ہیں، وہیں انہیں تحفظ فراہم کرنے کے لیے پاک بحریہ نے سائنس کی مدد سے بہترین سروس فراہم کی ہے۔ جس میں سب سے اہم مینگرووز لگانے کی مہم ہے، جو سال میں کسی ایک مرتبہ نہیں بلکہ وقتاً فوقتاً چلائی جاتی رہتی ہے تاکہ ہمارے ساحلی علاقوں کا سبزہ بحال کیا جا سکے۔ یاد رہے، مینگرووز کوئی عام درخت نہیں بلکہ ڈیلٹا کے محافظ اور سمندری طوفانوں کے خلاف سیسہ پلائی دیوار کی مانند ہیں۔ انڈس ڈیلٹا میں، جو گزشتہ چند دہائیوں میں خطرناک حد تک سکڑگیا ہے، پاک بحریہ نے لاکھوں مینگرووز لگائے ہیں تاکہ اس حصے کو سبزہ زار میں بدلا جا سکے۔
دوسری جانب بالخصوص کراچی کے ساحلوں پر سمندری آلودگی سے بھی نظریں نہیں چرائی جا سکتیں، جہاں روزانہ کی بنیاد پر صنعتی فضلہ، طبی فضلہ، استعمال شدہ سرنجز، استعمال شدہ آلات جراحی، بلدیاتی کچرا، پلاسٹک وغیرہ سمندر میں بہتا یا ساحلوں پر پڑا نظر آتا ہے، جو نہ صرف آبی حیات کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ بلیو اکانومی یا نیلی معیشت کے لیے بھی کسی خطرے سے کم نہیں۔ اس حوالے سے بھی پاک بحریہ کا کردار قابل ذکر ہے کہ اس نے سمندری آلودگی کم کرنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات کیے ہیں ، جن میں صفائی مہمات، ہیوی اور جدید مشینری کے ذریعے زیر آب فضلے کی صفائی اور آگہی مہم وغیرہ شامل ہیں۔
علاوہ ازیں، نیوی نے اپنے کئی بڑے بحری اڈوں (Naval Bases) کو شمسی توانائی پر منتقل کرلیا ہے، جو ماحولیات کی بہتری کیلئے ایک دور اندیشانہ اقدام ہے۔
جب کہ امن مشقوں اور امن ڈائیلاگ کے پلیٹ فارمز سے بھی پاکستان نیوی نے ہمارے ماحولیاتی خدشات کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کیا، علاقائی و عالمی شراکت داروں کے ساتھ مکالموں کے ذریعے نہ صرف قزاقی کے خلاف اقدامات جیسے موضوع زیر بحث لائے گئے بلکہ آبی حیات کے تحفظ، ماحولیاتی آلودگی کم کرنے کے اقدامات پر بھی ڈائیلاگ کیا گیا۔
عالمی یوم ماحولیات کا تقاضا ہے کہ اقوام عالم خود سے سوال کرے کہ 21 ویں صدی میں جہاں پاکستان جیسے ترقی پزیر ملک میں سیلابوں کے سبب لاکھوں افراد بے گھر ہوجاتے ہیں، مال مویشی ہلاک ہوجاتے ہیں، معیشت تباہ ہوجاتی ہے، قحط سالی فصلیں تباہ و برباد کر دیتی ہے، قومی سالمیت کے لیے خطرات بڑھتی ہوئی ماحولیاتی نوعیت کے ہیں۔ایسے میں ایک قوم کے دفاع کا مطلب بھی وسیع ہو چکا ہے، اب دفاع صرف سرحدوں تک محدود نہیں رہا بلکہ دفاع کا مطلب دریا، جنگلات، سمندر، اور ان حساس ماحولیاتی نظاموں کی حفاظت بھی ناگزیر ہو گئی ہے، جن سے زندگی ’سانس‘ لیتی ہے۔ اور ہمیں فخر ہے کہ ماحولیاتی آلودگی سے اس جنگ میں ہمارے پانیوں کے سپاہی اپنے محاذ پر چوکنے کھڑے ہیں۔
آبی دفاع سے ماحولیاتی دفاع تک،پاک بحریہ ہر محاذ پر متحرک
