مسلمانوں نے اپنی آزادی اور حقوق کے لیے 23 مارچ 1940ءکو ایک قرار داد پیش کی جسے بعد میں قرار داد پاکستان کے نام سے یاد کیا جانے لگا، اس قرار داد کا مقصد یہ تھا کہ ہندوستان کے شمال مغرب اور شمال مشرق میں جن علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور جغرافیائی لحاظ سے ایک دوسرے سے ملحق ہیں ان کو ملا کر ایک آزاد اور خود مختار اسلامی ریاست یا ریاستیں بنادیا جائے اس قرار داد سے مسلمانوں کو ایک منزل کی طرف راستہ مل گیا اور انہوں نے قائداعظم کی قیادت میں متحد ہو کر اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے دن رات جدوجہد شروع کردی۔
جس جگہ قرار داد پیش کی گئی اس جگہ مینار واقع ہے اسے اقبال پارک کہتے ہیں یہ ایک بڑا ہرا بھرا سبزہ زار ہے اور لاہور کی خوبصورت تفریح گاہوں میں شمار ہوتا ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے یہ ایک وسیع و عریض میدان تھا اور ایک انگریز حاکم کے نام پر منٹو پارک کہلاتا تھا۔
پاکستان کو پروان چڑھانے میں شاہ ولی اللہ اور مجدد الف ثانی کے نام نامی اسمائے گرامی اہم ہیں جنہوں نے مسلمانوں کو اپنا علٰیحدہ تشخص قائم رکھنے پر زور دیا۔ اس نظریہ کے پرچارکوں میں مولانا عبدالحلیم شرر، سرسید عبدالطیف، ڈاکٹر افضال فیض قادری اور خیری برادران کے نام بھی آتے ہیں۔ جنہوں نے مسلمانوں کے لیے ایک علٰیحدہ وطن کے قیام کے نظریات پیش کیے تاہم اس سلسلے میں شاعر مشرق علامہ اقبال کا حصہ سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ جن کی انقلابی اور فکر انگیز شاعری نے مسلمانان برصغیر کو جگادیا۔ علامہ اقبالؒ نے مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ الٰہ آباد میں 1930ءکو مسلمانوں کے لیے ایک علٰیحدہ مملکت کے قیام کا نظریہ پیش کیا جسے ابتدا میں ”شاعری کا خواب“ سے تعبیر بن گیا۔ لیکن دنیا نے دیکھ لیا کہ صرف سات برس بعد 14 اگست 1947ءکو وہ خواب حقیقت بن گیا۔ علامہ اقبال غلامی کے بدترین مخالف تھے انہوں نے غلامی کے پنجے سے مسلمانوں کو چھڑانے کے لیے ذوق یقیں کا درس دیا۔ فرماتے ہیں
غلامی میں نہ کام آتی ہیں تدبیریں نہ شمشیریں
جو ہو ذوق یقین پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
23 مارچ 1940ءکو اس پارک میں مسلمانوں کی سیاسی جماعت ”آل انڈیا مسلم لیگ“ کا ستائیسواں سالانہ اجلاس تھا اجلاس کا آخری دن تھا۔ قائداعظمؒ صدارت فرما رہے تھے دور دور سے مسلمانوں کے نمائندے آئے ہوئے تھے میدان لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا کیونکہ برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ کا سب سے اہم فیصلہ ہونے والا تھا۔ قرار داد پاکستان پیش ہونے والی تھی پھر قائداعظمؒ کی اجازت سے شیر بنگال اے کے فضل الحق کھڑے ہوئے اور انہوں نے قرار داد پاکستان پیش کی۔ اس میں برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک علٰیحدہ آزاد ملک کا مطالبہ کیا گیا یہ قرار داد ”نعرہ تکبیر“ کی فلک شگاف صداؤں میں منظور ہوگئی۔
ہندوؤں اور انگریزوں نے اس کے خلاف ایڑی چوٹی کا زور لگایا لیکن قائداعظم کی رہنمائی اور مسلمانوں کے عزم و یقین کے آگے ان کی ایک نہ چلی اور آخر کار 14 اگست 1947ءکو مسلمانوں نے اپنا پیارا ملک پاکستان حاصل کرلیا اس سلسلے میں مسلمانوں نے بہت دکھ جھیلے اور بڑی قربانیاں بھی دیں۔ مینار پاکستان اسی 23 مارچ 1947ءکے دن کی عظیم یادگار ہے۔ اس کا اصل نام بھی ”یادگار قرار داد پاکستان“ ہے لیکن لوگ اسے مینار پاکستان بھی کہتے ہیں، یہ مینار عین اسی جگہ بنایا گیا ہے جہاں 23 مارچ 1947ءکو قائداعظمؒ کرسی صدارت پر تشریف فرما تھے۔ مینار کی فنی خوبصورتی بہت دلکش ہے اس کا چبوترا چاند تارے کی شکل کا ہے جو ہمارا قومی نشان ہے، مینار کا نچلا حصہ دس پنکھڑیوں والے پھول کی شکل کا ہے جس کے نیچے محرابی شکل کا ایک کمرہ بنا ہوا ہے اس کمرے کی دیواروں پر بڑی بڑی سنگ مرمر کی تختیاں نصب ہیں ان تختیوں پر قرآنی آیات، علامہ اقبالؒ کے اشعار، قائداعظم کے 23 فرمودات، تحریک آزادی کی مختصر تاریخ اور قرار داد لاہور لکھی ہوئی ہے۔ ان کی کتابت ملک کے مایہ ناز خطاط محمد صدیق الماس رقم نے کی ہے جو بڑی دیدہ زیب ہے یہ مینار تقریباً 60 میٹر لمبا ہے، مینار کی چوٹی پر عمدہ اسٹیل کا خوبصورت گنبد ہے جس پر روشنی ٹھیرتی ہے تو تارے کی طرح چمکتا ہے۔ مینار پر چڑھنے کے لیے اس کے اندر ایک زینہ بنا ہوا ہے جو چوٹی تک چلا گیا ہے۔ اس کے علاوہ لفٹ بھی لگی ہوئی ہے، یہاں دن بھر لوگوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ اس خوبصورت مینار کا نمونہ ملک کے مشہور ماہر تعمیرات حاجی مراد خان نے تیار کیا تھا۔ سچ پوچھیے تو حاجی مراد خان نے دل نکال کر رکھ دیا ہے۔ مینار پاکستان کا سنگ بنیاد 23 مارچ 1940ءکو اس وقت کے گورنر جناب اختر حسین نے رکھا تھا۔ کم و بیش 8 سال کی سخت محنت کے بعد 12 مارچ 1948ءکو اس مینار کی تعمیر مکمل ہوئی یہ پورا مینار عوام کے پیسے سے بنا ہے اور اس کا افتتاح عوام ہی کے ہاتھوں ہوا ہے۔
متحدہ قومیت تیز و تند رو میں مسلمانوں کے بڑے بڑے مذہبی رہنما بھی بہہ گئے تھے اگر اس موقع پر قائداعظمؒ اور علامہ اقبالؒ جیسے رہنما اس سحر کا یہ جال نہ توڑتے تو پاکستان کبھی معرض وجود میں نہ آتا۔ قائداعظمؒ نے دو قومی نظریہ کی اہمیت اُجاگر کرتے ہوئے 23 مارچ 1940ءکو قرار داد پاکستان کے موقع پر فرمایا ”اگر برطانوی حکومت یہ چاہتی ہے کہ ہندوستان کو امن و سکون حاصل ہو تو اس کی صرف ایک صورت ہے کہ ہندوستان کو تقسیم کرکے جداگانہ قومی وطن منظور کیا جائے ہندو اور مسلمان کبھی ایک قوم نہیں ہیں نہ دونوں کے درمیان شادیاں ہوتی تھیں اور نہ ایک دوسرے کے ساتھ کھانا کھاتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ دونوں ایسی تہذیبوں کے ماننے والے ہیں جن کی بنیاد متصادم نظریات اور افکار خیالات پر ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ قائداعظم، علامہ اقبال اور دوسرے رہنمایان ملت کے افکار و خیالات ترویج و اشاعت کی بدولت دو قومی نظریے کو فروغ حاصل ہوا۔ جو نظریہ پاکستان کا سرآغاز اور قیام پاکستان کا نقطہ اولین ثابت ہوا اسی نظریے نے مسلمانانِ برصغیر کے جداگانہ تشخص کو واضح کیا ہر سال 23 مارچ اور 14 اگست کو یہ مینار رنگ برنگی روشنیوں سے دلہن کی طرح سجایا جاتا ہے۔ اس کی سج دھج دیکھنے کے لیے نہ صرف لاہور بلکہ دوسرے شہروں کے لوگ بھی آتے ہیں اور یہاں سے اپنے وطن کی عقیدت اور محبت کا ایک نیا جذبہ لے کر لوٹتے ہیں۔
قراردادپاکستان اہم شخصیات کا کردار
