Advertisement

پاکستان کے ادارے اور ’’باصلاحیت‘‘ اہلکار

مختلف حلقوں میں یہ بحث سننے کو ملتی ہے کہ پاکستان میں کچھ نہیں رکھا ،اس ملک سے نکل جاؤ ، تباہی مقدر ہے ، روزگار نہیں ہے اس ملک میں حلال کمائی کا کوئی امکان نہیں ہے ،وغیرہ وغیرہ ۔ لیکن دوسری طرف بھی بہت مضبوط دلائل ہیں اور ٹھوس وجوہات ہیں کہ اس ملک میں بہت کچھ ہی نہیں سب کچھ ہے ،یہاں قدرت بھی مہربان ہے اور جغرافیہ بھی محفوظ ہے ،آبادی کی قوت بھی ہے اور جوانوں کی قوت بھی ہے ہر طرح کا ٹیلنٹ موجود ہے غرض !!
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
کے مصداق یہاں سب کچھ ہے اور سب کے لئیے ہے، حتی کہ یہاں کچھ نہیں ہے کہنے والے جب بیرون ملک کی پرتعیش زندگی میں شادیاں کرتے ہیں، تو سامان خریدنے پاکستان آتے ہیں ، دانت نکلوانے بنوانے ہوں تو پاکستان آتے ہیں ، کوئی آپریشن کرانا ہوتو پاکستان کا رخ کرتے ہیں ،بلکہ مرکر دفن بھی پاکستان میں ہونا چاہتے ہیں لیکن یہاں کچھ نہیں رکھا!!!
ہاں نا انصافیاں ناہمواریاں، نااہلیاں ،کرپشن،طاقتور کی حکمرانی اور کمزور کے نصیب میں رگڑے ضرور ہیں۔اور یہ سارے ظلم کرنے والے بھی لوٹ مار کے لئیے اسی ملک کو منتخب کرتے ہیں ، ذرا امریکا ، کینیڈا ، برطانیہ یا کسی یورپی حتی کہ عرب ملک میں پاکستان جیسے فراڈ کرکے تو دیکھیں نہ سفارش چلے گی نہ دھونس ، جو قانون کی گرفت میں آیا وہ پھنس گیا، اکا دکا استثنا کے ساتھ۔
ان دونوں پہلوؤں کے علاوہ ایک پہلو یہ بھی ہے کہ حکومتی اداروں میں صرف نااہلی نہیں ہے ان کے اہلکار، افسر اور کل پرزے سب اپنے کام میں بڑے طاق ہیں ۔بس ان کا رخ اس جانب نہیں جس طرف ان کو متعین کیا جاتا ہے ، مثال کے طور پر سرکار کے اداروں میں سب سے نچلی سطح پر بلدیات ہیں ،بلدیات کا بنیادی کام بنیادی سہولیات پانی وغیرہ کی فراہمی،صفائی ستھرائی وغیرہ ہے لیکن اس سے متعلق اہلکار سڑکوں پر پتھاروں کو جگہ دیکر ان سے اس کے عوض رقم اینٹھ لیتے ہیں،اگر وہ تجاوزات کا موقع ہی نہ دیں اور رشوت نہ لیں تو راستے کشادہ رہ سکتے ہیں۔ یہاں صرف ان کی صلاحیت کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ پوری مشینری بہت “باصلاحیت” ہے بس رخ الٹ ہے،ان کا کام یہ ہے کہ تلاش کریں کہاں کہاں رکاوٹ ،تجاوزات اور خرابیاں ہیں ،لیکن وہ اتنی ہی محنت سے بلکہ اس سے زیادہ صلاحیت لگا کر وہ مقامات تلاش کرتے ہیں کہ کہاں کہاں ،تجاوزات قائم کی جاسکتی ہیں،،اسی طرح ٹیکس وصولی ہے ان میں ٹیکس وصولی کی صلاحیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ ناجائز بھتا باقاعدگی سے بروقت وصول کرکے اس کےتمام “حقداروں “تک پوری ایمانداری سے پہنچاتے ہیں۔
پھر ان اداروں کئ نگرانی پر مامور ادارے ہیں جو اتنی ہی محنت کرتے ہیں جتنی کرنی چاہئیے لیکن اپنا حصہ وصول کرنے کے لئیے کرتے ہیں اور کامیابی سے حصہ وصول کرتے ہیں،
اگر اگے چلیں تو منتخب ادارے ہیں کونسلرز، چئیرمین وغیرہ اور مزید اوپر مئیر ڈپٹی مئیر وغیرہ ہیں ، اور پھر سرکاری مشینری اشرافیہ ،وزرا وغیرہ، جتنے بھی نچلے اہلکار ہیں وہ سب بتاتے ہیں کہ ہم تو کارندے ہیں جو کچھ ملتا ہے یعنی لوگوں سے جو بھتے لیتے ہیں وہ سب اوپر پہنچاتے ہیں، بہر حال یہ اہلکار اتنے بھی ایماندار اور مصلے پر بیٹھے نہیں ہیں کہ سارے ہی پیسے ایمانداری سے اوپر پہنچادیں اتنی محنت کرتے ہیں کچھ تو محنتانہ وصول کرتے ہونگے ،یقین نہ ائے تو ایم کیو ایم کا چالیس سالہ دور سامنے رکھیں ،پیدلی کروڑ پتی بن گئے ،ٹیلی فون آپریٹر مالدار اور جائدادوں کے مالک بن گئے۔شادی ہال کا مینیجر بھی مالا مال ہوگیا ، یادش بخیر ایک ڈرامے “خدا کی بستی” میں جیب کتروں کا سردار شاہ جی، نوشہ کی جانب سے کچھ پیسے مار لینے پر کہتا ہے کہ ہمارے دھندے میں ایمانداری سے کام ہوتا ہے ، لیکن اب اس دھندے میں بھی ایمانداری ختم ہوگئی ہے ،ہر بھتا خور گروہ کا ہر کارندہ نوشہ بنا ہوا ہے،اور پکڑا بھی جائے تو !!!!!
لے کے رشوت پھنس گیا
دے کے رشوت چھوٹ جا
کے مصداق بچ بھی جاتے ہیں اور مزید کماتے بھی جاتے ہیں۔
پہلے کہا جاتا تھا کہ مافیا ہر ملک میں ہوتی ہے لیکن ہمارے ملک میں مافیا حکومت میں اجاتی ہے ،پارلیمان میں آجاتی ہے اور پھر سارے کام ریاستی سطح پر ہوتے ہیں۔
!چھا!پاکستان محض بلدیات کا نام تو ہے نہیں ، ملک میں امن و امان کی ذمہ دار ہولیس ہے،لوگ پولیس سے شاکی ہیں لیکن کیا پولیس کام نہیں کرتی ؟ نااہل ناکارہ ہے اسے کچھ معلوم نہیں، ایسا بھی نہیں ہے ،ایوب خان کے زمانے کا ایک لطیفہ ہے کہ دنیا بھر کے پولیس سربراہ ایک کانفرنس میں جمع تھے سوال یہ زیر بحث تھا کہ کسی جرم کے بعد کس ملک کی پولیس کتنی دیر میں سراغ لگا لیتی ہے ، امریکی پولیس سربراہ نے بتایا کہ ہم چوبیس سے اڑتالیس گھنٹوں میں سراغ لگا لیتے ہیں ،دیگر ممالک کے افسروں نے بتایا کہ دو سے تین دن میں ، اسکاٹ لینڈ یارڈ نے بتایا کہ چوبیس گھنٹے میں، پاکستانی پولیس سربراہ نے سب کو یہ کہہ کر حیران کردیا کہ ہم سے چوبیس گھنٹے قبل معلوم کرلیں کہ کہاں کیا واردات ہونے والی ہے ،اور یہ لطیفہ یونہی کسی کی ذہنی اختراع نہیں ہے ،اب تو ہر آنے والے دن یہ لطیفہ حقیقت بن کر سامنے آرہا ہے ،کئی جرائم میں پولیس ہی ملوث نکلی اور اب تو کئی پولیس والے سزائیں بھی پاچکے ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری پولیس بھی نااہل اور نالائق نہیں، بہت باصلاحیت ہے، گزشتہ برسوں میں سندھ پولیس اور خصوصا کراچی پولیس، رینجرز اور فوج کی رہنمائی کرتی رہی ہے ،اور من پسند مجرموں کو بچانے کے لئیے ان اداروں کو غلط معلومات بھی فراہم کرتی رہی ہے۔ یعنی آتا سب کچھ ہے کرتی کچھ نہیں ،اور یہی پولیس بھتوں کے معاملے میں دونمبری میں بھی ید طولی رکھتی ہے ۔پورے ملک میں رشوت اور ناجائز آمدنی کا سارا کاروبار اسی پولیس کے بل پر چل رہا ہے، بڑے بڑے افسروں اور اہم اداروں کو بھی یہی ادارہ معاونت فراہم کرتا ہے ، دنیا بھر میں پولیس کو دیکھ کر اطمینان اور پاکستان میں خوف محسوس ہوتا ہے، کیوں ؟ اس کا جواب سب جانتے ہیں ، جھوٹے مقدمے ، مظلوم کو ظالم ،مقتول کے ورثا کو مجرم بنانا اس پولیس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔پھر یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ پولیس نااہل یا ناکارہ ہے ؟ اور فوج کے تو کیا کہنے ، سرحدوں پر بھی نظر ہے اور سیاست پر بھی، کاروبار پر بھی نظر یے اور حکومت سازی اور حکومت گرانے پر بھی، ایک ایک ایم این اے اور ایم پی اے پر بھی، سیاسی کارکنوں پربھی،اگر اس کثیر الجہتی مصروفیت کی وجہ سے دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہوجائے تو اس میں اس کی نالائقی کو دخل نہیں، بلکہ اتنے سارے کام تنہا ایک ادارے کو کرنے پڑتے ہیں ، بس یہی سوال ادارہ بھی اپنے آپ سے ،اپنے ذمہ داران سے پوچھے اور پارلیمنٹ ہر ادارے سے پوچھے کہ اپنے دائرے سے باہر نکلنے کی وجہ کیا ہے ، علی ھذا القیاس ہر ادارہ ، ریاستی مشینری کا ہر کل پرزہ بہت باصلاحیت اور جو کرنا چاہتا ہے کررہا ہے ہر ایک کا اور خصوصا چند ایک کے کارناموں کے ساتھ ان کا تو نام بھی لکھنا پیکا ایکٹ کی لپیٹ میں لے آئے گا۔ ،بس اس مشینری کا رخ غلط ہے، اسے درست کرنا بہت مشکل بلکہ ناممکن لگتا ہے لیکن بہت آسان اور ممکن بھی ہے۔
آسان یوں کہ آئین اور قانون پر عمل شروع کردیا جائے ،جو رکاوٹ ڈالے اس کا احتساب کیا جائے، اور جو قانون کی پابندی نہ کرے اسے منصب سے ہٹا دیا جائے، لیکن یہ کام بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنے سے بھی زیادہ مشکل ہے اسے آسان بنانے کے لئیے ملک کے عوام روز روز کے مرنے کے بجائے ایک دفعہ مرنے کی ٹھان لیں ،مرنا تو ایک ہی دفعہ ہے لیکن ایسا کرگئے تو نسلوں تک امن ہوگا، ایک اہم بات یہ ہے کہ نظریے، قدرتی وسائل،افرادی قوت، نوجوانوں ،ایٹمی قوت ، مضبوط فوج ان سب چیزوں کی موجودگی میں پاکستان ایک کامیاب ریاست ہے اسے کامیابی سے چلانا اور ترقی دینا ہمارا کام ہے اگر ہم یہ نہ کرسکیں تو ناکام کون ہوا ،ہم یا پاکستان ؟

اگر آپ بھی ہمارے لیے لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریر، تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ bisaat.mag@gmail.com پر ای میل کردیجیے۔
error: