Advertisement

پارک یا پراپرٹی؟

کراچی وہ شہر ہے جس کے باسیوں کے لیے سکون، تفریح اور صحت مند سرگرمیوں کے مواقع پہلے ہی نہ ہونے کے برابر تھے۔ اب جو کچھ سبزہ، میدان اور کھلے پارک موجود تھے، وہ بھی میئر کراچی اور ٹاؤنز انتظامیہ کی جانب سے کمرشل مفادات کے بھینٹ چڑھتے جا رہے ہیں۔
حال ہی میں شہر بھر میں جو طرز عمل دیکھنے کو ملا ہے وہ یہ ہے کہ تفریحی مقامات کو تیزی سے کاروباری مراکز میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ درختوں کی کٹائی، پودوں کی بربادی، اور گھاس کی جگہ کنکریٹ، سیمنٹ اور پتھر کا استعمال یہ سب ایک خطرناک رجحان کو جنم دے رہے ہیں۔ ماحولیاتی توازن متاثر ہو رہا ہے، مگر کوئی جوابدہ نہیں۔
میئر کراچی کی پالیسیوں کو دیکھتے ہوئے چند ٹاؤنز جیسے کہ صدر ٹاؤن اور جناح ٹاؤن بھی اسی کاروباری روش پر چل پڑے ہیں۔ پارکوں اور کھیل کے میدانوں کو فوڈ اسٹریٹس، شادی لانز، اسٹالز، پارکنگ ایریاز اور مہنگے ریسٹورنٹس کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ سب کچھ شہری سہولیات کے نام پر عوام سے چھین لیا گیا ہے، جن کے لیے یہ مقامات کبھی سکون، تفریح اور صحت کا ذریعہ ہوا کرتے تھے۔
عوامی مقامات کی اس کمرشلائزیشن کے نتیجے میں
تفریحی ماحول کا خاتمہ ہو رہا ہے، جہاں شور، رش، اور بے ترتیبی عام ہو چکی ہے۔
بچوں اور خواتین کے لیے محفوظ ماحول ناپید ہوتا جا رہا ہے۔
ماحولیاتی تباہی اپنے عروج پر ہے، جس کا اثر شہریوں کی صحت پر بھی پڑ رہا ہے۔
غریب اور متوسط طبقہ ان مقامات سے محروم ہوتا جا رہا ہے کیونکہ ہر جگہ انٹری فیس، پارکنگ چارجز اور مہنگی سہولیات نے ان کا داخلہ مشکل کر دیا ہے۔
سب سے بڑھ کر شہریوں کی مشاورت کے بغیر فیصلے کیے جا رہے ہیں، جو مقامی جمہوریت اور شفافیت کے اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر عوام کے لیے بنائے گئے تفریحی مقامات ہی کاروباری مقاصد کے لیے وقف کر دیے جائیں تو پھر کراچی کے شہری کہاں جائیں؟ کیا پارک صرف سرمایہ داروں اور کمرشل برانڈز کی جاگیر بن جائیں گے؟ کیا کھیل کے میدان صرف کرایے پر چلنے والے ایونٹس کی زینت بنیں گے؟ یہ ایک خطرناک سمت ہے جسے فوری طور پر روکنا ہوگا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ کراچی کے شہری بیدار ہوں، سول سوسائٹی اور ماحولیاتی ادارے اس کمرشلائزیشن کے خلاف آواز بلند کریں، اور میئر کراچی و ٹاؤن انتظامیہ کو جواب دہ بنایا جائے۔ کراچی صرف عمارتوں، پلازوں اور اسٹالز کا شہر نہیں یہ اس کے باسیوں کا بھی ہے، جنہیں سانس لینے، چلنے، کھیلنے اور جینے کا پورا حق حاصل ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریر، تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ bisaat.mag@gmail.com پر ای میل کردیجیے۔
error: