ماہنامہ بساط کی لکھاری خواتین کے درمیان مقابلہ تحریر بعنوان ’’امن سب کے لیے‘‘ اکتوبر نومبر کے دوران منعقد ہوا ۔ گیارہ تحریریں مقابلے میں شامل کی گئیں،ان کا مطالعہ کرکے ان میں اول دوم اور سوم کا فیصلہ کرنا ایک مشکل مرحلہ تھا، لیکن ہماری اس مشکل کو معروف ماہر تعلیم،دانشور اور مصنفہ محترمہ ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر نے حل کیا اور بڑی جانفشانی سے ان کا مطالعہ کرکے تحریروں کو نمبر دئیے۔
نمبرز دینے کے تین معیارات تھے۔ 1،موضوع سے مطابقت،2،انداز تحریر اور نمبر 3،دلائل تھے۔ ان کی بنیاد پر فیصلے کے مطابق ڈاکٹر عظمیٰ علی اختر کے مضمون ’’پرسکون سماجی کیفیت ہی سب کے لیے امن ہے‘‘ کو پہلے انعام کا مستحق قرار دیا گیا۔ اسی طرح روبینہ قریشی کے مضمون ’’جنگ میں تباہی امن میں بقا‘‘ اور رومیصا عبدالمہیمن کے مضمون’’ایمان عدل اور انسانیت کی کہانی‘‘ کو مشترکہ طور پر دوسرے انعام کا حقدار قرار دیا گیا جبکہ خیرالنسا بلوچ کے مضمون ’’امن کا چراغ بجھنے نہ پائے’‘‘ کو تیسرے انعام کا حقدار قرار دیا گیا۔
نومبر کے شمارے میں پہلے اور تیسرےانعام کے حقدار مضامین شائع کیے جارہے ہیں ، چونکہ دوسرا انعام مشترکہ طور پر دو مضامین کو دیا گیا ہے، اس لیے دونوں مضامین دسمبر کے شمارے میں شائع کیے جائیں گے۔ بقیہ مضامین، فیس بک اور ویب سائٹ پر شائع کیے جائیں گے۔
انعام پانے والی خواتین کو ادارہ بساط کی جانب سے مبارکباد ، جو خواتین پہلے سے تیسرے انعام کی مستحق نہ ہوسکیں ان کے مضامین بھی محنت سے لکھے گئے اور بہت عمدہ ہیں، وہ بھی ایک سند ضرور پائیں گی (مرتب)
پُرسکون سماجی کیفیت میں سب کا امن (اول انعام)
ڈاکٹر عظمی علی اختر
امن ایک لفظ نہیں، دراصل ایک کیفیت کا نام ہے، جو ظاہر و باطن میں بہ خوبی محسوس کی جاسکتی ہے۔ امن کی حالت قائم ہوجانا اس بات کی علامت ہوگا جب مثبت سرگرمیاں جاری ہوجائیں، انسان زندگی کی تعمیر میں لگ جائے۔ کسی معاشرے میں امن کا قیام دراصل اس بات کا اشارہ ہے کہ زندگی کی تمام سرگرمیاں بغیر کسی رکاوٹ کے فطرت کے زور پر رواں دواں ہیں۔ محض جنگ اور تشدد کا خاتمہ، امن کی حالت قائم ہونے کا اشارہ نہیں، حقیقی معنوں میں امن زندگی کی مثبت تعمیر کا دوسرا نام ہے۔ یہ ضرور ہے کہ جنگ و تشدد کی حیثیت زندگی کے عمل میں رکاوٹ کی مانند ہے لیکن امن کا مطالعہ محض جنگ کے حوالے سے کیا جانا اس کے مفہوم کو محدود کردیتا ہے کیوں کہ امن کا تعلق پوری انسانی زندگی سے ہے۔ امن ایک ایسی کنجی ہے جس سے زندگی کی ہر کامیابی کا قفل کھولا جاسکتا ہے۔ امن کے بغیر کسی بھی کام کو کیا جانا ممکن نہیں اس لحاظ سے امن ایک بنیادی ضرورتِ زندگی ہے اور اس کا استحقاق سب کے لیے ہے، امن سب کے لئیے اتنا ہی ضروری ہے جتنا روٹی، کپڑا اور مکان، صحت، تعلیم اور روزگار ۔ لہٰذا امن سے مراد ایک ایسی سماجی کیفیت ہے جہاں جنگ و جدل اور تشدد کے بغیر معاملاتِ زندگی چل رہے ہوں لوگوں کی جان و مال عزت و آبرو کو تحفظ حاصل ہو۔ اس حوالے سے جب بدامنی کے اسباب پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سماج میں بدامنی اور فساد کا اصل سبب کسی کی جان و مال یا عزت پر ہاتھ ڈالنا یا کسی کے مذہب و ملک پر ملک گیری کی نیت سے چڑھائی کرنا ہے ، یہ کام زمانۂ حال میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کہلاتے ہیں۔ دنیا میں امن سب کے لیے قائم ہوسکے،اس بنیاد پر لیگ آف نیشنز اور اقوامِ متحدہ کے نام سے ادارے بنے۔ عالمی تنازعات اور امن کے دیگر پہلوؤں پر تحقیق کے لیے اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (SIPRI) جیسے اداروں کا قیام عمل میں آیا۔ دنیا کے پُرتشدد اور پُرامن ممالک کی درجہ بندی پر مامور ادارہ (IEP) انسٹی ٹیوٹ فار اکنامکس اینڈپیس قائم کیا گیا۔ اس کے علاوہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل، E14 وغیرہ بھی عالمی امن کے قیام کے لیے بنائے گئے ادارے ہیں۔ دنیا بھر کے ان امن ساز اداروں کا ایک ہی ایجنڈا بہ ظاہر نظر آتا ہے کہ امن سب کے لیے۔ دنیا میں پائیدار ترقی کے حصول کے لیے امن ناگزیر ہے۔ یہ ادارے امن کو فروغ دینے کے لیے مالی معاونت بھی کرتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان تمام اداروں کی موجودگی کے باوجود ’’امن سب کے لیے‘‘ آخر کیوں نہیں؟ آج کی دنیا میں تنازعات، دہشت گردی، عدم برداشت جیسے مسائل بڑھ رہے ہیں جس کے باعث دنیا بھر میں لاکھوں لوگ متاثر ہیں۔ اقتصادی عدم استحکام، نسلی اور مذہبی امتیاز کے سبب لاکھوں انسانوں کو جنگی صورتِ حال کا سامنا ہے۔ خاص طور پر عالم اسلام کے متعدد ممالک میں بدامنی، انتشار و فساد اور دہشت گردی کا بازار گرم ہے۔ اُمتِ مسلمہ کی مضطرب حالت کے اسباب بہت سے ہیں جن میں سے ایک امن و امان کے قیام کے لیے حدود اللہ کو نافذ کرنا ہے۔ حدود اللہ کے نفاذ سے جہاں مجرم کو اس کے ظلم کی سزا ملتی ہے وہاں اس سے ان لوگوں کو سخت تنبیہ ہوجاتی ہے جو ان جیسے جرائم کا ارادہ کرچکے ہوتے ہیں یا منصوبہ بندی کررہے ہوتے ہیں اور اس طرح لوگوں کو امن نصیب ہوتا ہے ان کی جانوں اور مالوں اور ان کی عزتوں کو تحفظ ملتا ہے۔ ’’امن سب کے لیے‘‘ اسی وقت ممکن ہے جب سزاؤں کے نفاذ میں عدل و انصاف کو مدِّنظر رکھا جائے۔ نفرت، تعصب، عدم برداشت، غربت اور نانصافی یہ سب امن کے دشمن ہیں۔ مدینہ کی ریاست اس امن کی عملی مثال تھی جہاں یہودی، عیسائی، مسلمان اور دیگر اقوام ایک ساتھ پُرامن طریقے سے زندگی گزارتے تھے۔
امن بہ ظاہر ایک چھوٹا سا لفظ ہے مگر گھر میں ہو تو ذہنی سکون معاشرے میں ہو تو جانی و مالی اطمینان، ملک میں ہو تو ترقی و خوش حالی کا سامان اور اگر عالمی سطح پر ہو تو لاکھوں قیمتی جانوں کے ضائع ہونے اور اربوں کھربوں روپوں کے نقصانات سے قوموں کو محفوظ رکھتا ہے۔
’’امن سب کے لیے‘‘، یہ نعرہ تو سب لگاتے ہیں لیکن اس کا عملی اظہار معاشرے میں سب کے لیے امن و سلامتی کا نظام قائم کرنے کی مثال اس دنیا میں صرف اور صرف ہمارے پیارے آقا، رحمت عالمﷺ نے نافذ فرمائی۔ حقوق انسانی میں مساوات عدل و انصاف اور امن و امان کی اعلیٰ ترین مثال قائم کی۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اسلامی معاشروں میں تو امن و امان بنیادی تعلیمات کا حصہ ہوتا ہے۔ اسلام نے پہلی بار دنیا کو امن و محبت کا باقاعدہ درس دیا اس کے سامنے ایک پائیدار ضابطۂ اخلاق پیش کیا انسانی جان کو وہ عظمت و احترام بخشا کہ ایک انسان کے قتل کو ساری انسانیت کا قتل قرار دیا۔
آج کا جدید دَور جو سیاسی، سماجی، معاشی، سائنسی اور علمی میدان میں تیز رفتار ترقی کو چھو رہا ہے اس دَور میں بھی امن و امان کا قیام دنیا کا اوّلین مسئلہ بنا ہوا ہے۔ چاہے وہ امریکا جیسی عالمی طاقت ہو یا مڈغا سکر کی دہشت اور حکومت بھی امن و امان کے مسئلے سے دوچار ہیں۔ پُرامن معاشرے اور خوف سے پاک زندگی سب ہی کا خواب ہے۔ امن و امان کا حاصل ہونا سب کے لیے بڑی نعمت ہے۔ دنیا میں کہیں امن کے نام پر سناٹے کا راج ہے۔ جہاں کوئی آواز نہیں اُٹھتی، جہاں سیاسی و سماجی حالت پر صرف خاموشی راج کررہی ہے۔ ظلم و جبر کے خلاف اُٹھنے والی آوازوں کو دبانے اور کچلنے کا کام قیام امن کے نام پر کیا جارہا ہے۔ تو کہیں قیام امن کی خاطر پُرتشدد واقعات، نسل کشی اور ظلم و جبر کو نظام کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ کہیں امن کی تعریف میں نسل پرستی، تعصب اور ناانصافی کو شامل کردیا گیا ہے اور ایسے تمام اقدامات کو جائز اور قانونی قرار دے دیا گیا ہے جس سے بدامنی، انتشار و فساد با آسانی جنم لیتے ہیں۔
امن کا مطلب صرف جنگ کا نہ ہونا نہیں ہے بلکہ دلوں کا صاف ہونا، زبان و بیان میں نرمی ہونا اور ذہنوں میں برداشت کا ہونا ہے۔ امن وہ ماحول ہے جہاں پر انسان اپنے خیالات، عقائد اور خوابوں کے ساتھ …………… جینے کا حق رکھتا ہے۔ یہ وہ فضا ہے جہاں کسی پر ظلم نہ ہو، کسی کا حق نہ چھینا جائے اور ہر دل کو سکون نصیب ہو۔ امن کی سب سے بڑی خوب صورتی یہ ہے کہ یہ خوف کو ختم کرتا ہے۔ جب انسان کو جان و مال اور عزت کا تحفظ حاصل ہو تو وہ تخلیقی قوتوں کے ساتھ جیتا ہے۔ ادب، فن، سائنس، تعلیم، تجارت سب کچھ امن ہی کی کوکھ سے جنم لیتا ہے۔ نفرت، تعصب، عدم برداشت، غربت اور ناانصافی یہ سب امن دشمن ہیں۔ عالمی امن ساز اداروں اور افراد کی تمام تر کوششیں اسی باعث امن کے قیام میں رائیگاں چلی جاتی ہیں کہ کہیں نہ کہیں فیصلوں اور منصوبوں میں تعصب اور ناانصافی کا پہلو کارفرما ہوتا ہے۔ لہٰذا ’’امن سب کے لیے‘‘ محض ایک نعرہ ہی رہ جاتا ہے۔ ’’امن سب کے لیے‘‘ کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے عدالتی و معاشرتی نظام میں عدل و انصاف کی حکمرانی ہو ہر فیصلہ انصاف پر مبنی ہو۔ جب تک مظلوم کو انصاف نہیں ملتا امن کا قیام ایک خواب ہی رہے گا۔ بہ قول حبیب جالب:
ظلم کے ہوتے امن کہاں ممکن یارو
اسے مٹاکر جگ میں امن بحال کرو
’’امن سب کے لیے‘‘ ایک جامع تصوّر اور پیغام ہے جس میں ذاتی، مذہبی اور بین الاقوامی سطح پر امن کو فروغ دینے کی اہمیت اور افادیت پر زور دیا گیا ہے۔ ’’امن سب کے لیے‘‘ کا مطلب ہے، انصاف سب کے لیے، تحفظ سب کے لیے، بہتری سب کے لیے، آزادی سب کے لیے، سلامتی سب کے لیے اور عزت سب کے لیے ۔
امن عامہ بنیادی طور پر کسی بھی ملک کی معیشت، سماج اور سیاست کے استحکام کی ضمانت ہے۔ یہ وہ حالت ہے جس میں شہریوں کو روزمرّہ زندگی میں خوف و ہراس، تشویش یا عدم تحفظ کا سامنا نہ ہو۔ جہاں معاملات بغیر کسی پُرتشدد اختلافات کے چل رہے ہوں اور اس کے لیے معاشرے کے تمام افراد جو مختلف شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھتے ہوں اپنی ذمہ داریاں تمدنی شعور اور دیانت سے ادا کررہے ہو۔ خانگی معاملات ہو یا ملکی سطح کے فیصلے، فرد ہو یا ریاست عدل و انصاف بنیادی حیثیت رکھتا ہو تو ’’امن سب کے لیے‘‘ ممکن ہے اور اسی میں ذہنی سکون اور حالت کی درستگی پنہاں ہے۔
امن کا چراغ بجھنے نہ پائے (تیسرا انعام)
خیرالنسا بلوچ
نمازِ فجر پڑھ کے جیسے وہ گھر آیا تو اس کی ماں سُمل نے اس کے لیے اور اس کے باپ کے لیے چائے کا پانی چڑھا دیا کہنے کو تو سُمل اس شہر کی باسی تھی جہاں سے ملک کے ہر گھر کو گیس پہنچائی جاتی تھی مگر بدقسمتی سے اس شہر کے باسی اس قدرتی نعمت سے خود محروم ہی رہتے اگر گیس آئے بھی تو اتنا کم پریشر ہوتا کہ کسی کام کا نہ ہوتا سو مجبوراً انہیں لکڑیاں جلانی پڑتی آج بھی گیس نہ ہونے کے برابر تھی۔ اس لیے بیبرگ کی ماں نے لکڑیاں جلائیں تاکہ شوہر اور بچوں کے لیے ناشتہ بنا سکیں ۔آج اس کے بڑے بیٹے بیبرگ کا کالج میں پہلا دن تھا ۔سُمل کا شوہر سرکاری اسکول میں چپڑاسی تھا اس کے چار بچوں میں بیبرگ سب سے بڑا تھا۔ باقی کے چھوٹے بچے سرکاری اسکول میں زیر تعلیم تھے۔ وہ صبح باپ کے ساتھ جاتے اور واپسی میں اکثر ان کا باپ اسکول کی صفائی ستھرائی کے لیے رک جاتا تو یہ بہن بھائی خود ہی گھر آتے ۔گھر کے کاموں سے فارغ ہو کر سُمل کڑھائی کرتی کبھی اپنے لیے کچھ بناتی کبھی بچوں کے لیے اور اگر کہیں سے اجرت پہ کام آتا تو وہ بھی کرتی ۔بیبرگ نے اسی سرکاری اسکول سے میٹرک اچھے نمبروں سے پاس کیا اسے پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ اس شوق کو بڑھانے والا اس کا استاد اور اس کا آئیڈیل حمل فرید تھا ۔حمل فرید ایک ایسا استاد تھا جو صرف بچوں کو کتابیں نہیں رٹواتا تھا بلکہ ان کی تربیت بھی کرتا تھا ان میں اخلاقی بلندی پیدا کرنے کی کوشش کرتا اور آپس میں پیار محبت اور درگزر کا درس دیتا۔ سوئی کا علاقہ کئی دہائیوں سے ہر وقت ایک خانہ جنگی سے دوچار تھا ۔قبائلی جھگڑوں اور حکومتی ناانصافیوں نے یہاں کے نوجوانوں کو باغی بنا دیا تھا ۔ایسے میں حمل فرید کا وجود ایک رحمت تھا حمل فرید وہ طبیب تھا جو صحیح تشخیص ہی کو علاج سمجھتا تھا ۔بیبرگ کا کالج میں پہلا دن تھا۔ جو تعارف اور علیک سلیک ہی میں گزر گیا اسکول کے مقابلے میں کالج میں اسے کافی آزادی نظر آئی نہ یونی فارم نہ اسمبلی۔ کینٹین میں لڑکوں کا شور و غل بے فکر قہقہےاس کے لیے بہت خوش کن تھے ۔ شام میں بیبرگ اپنے استاد سے ملنے اس کے گھر آیا تاکہ اپنی پوری دن کی روداد سنائے بیبرگ اپنے بہترین اخلاق اور پڑھائی کے شوق کی وجہ سے حمل کے زیادہ قریب تھا۔ آؤ آؤ نوجوان بتاؤ کیسا لگا تمہیں اپنا کالج حمل نے خوش دلی سے بیبرگ کا استقبال کیا بہت اچھا سر اور پہلے دن ہی بہت سے لڑکوں سے دوستی ہو گئی۔ یہ تو بہت اچھی بات ہے مگر بیبرگ ایک بات یاد رکھنا دوستی کے لیے صرف دل سے مشورہ مت کرنا دماغ کو بھی استعمال کرنا اب تم بڑے ہو گئے ہو آس پاس کی چیزوں پر غور و فکر کرنا سیکھو یاد رکھو کہ پرندوں کے گھونسلے اتارنے والا ہر کسان ظالم نہیں ہوتا اکثر کسان کھیتوں کو نقصان سے بچانے کے لیے گھونسلے توڑتا ہے ۔ اور دوسری جانب کچھ عاقبت نا اندیش کسان بظاہر فصلوں کو نقصان سے بچانے کےلیے ان پر اتنا زہر چھڑک دیتے ہیں کہ جس سے وہ جاندار بھی مرجاتے ہیں جو فصل کی حفاظت اور بڑھوتری کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ اس لیے کبھی ظاہر کو دیکھ کر فیصلہ مت کرنا سمجھ رہے ہو نہ میری بات حمل نے خاموش بیٹھے بیبرگ سے کہا جی سر سمجھ رہا ہوں انشاءاللّٰہ آپ کو شکایت نہیں آئے گی میری، اب میں چلتا ہوں اماں کھانے پہ میرا انتظار کر رہی ہوگی۔ بیبرگ کالج کے کینٹین میں تھا کہ کچھ لڑکے اس کے پاس آئے بیبرگ ہم نے سنا ہے کہ تم نے میٹرک میں اچھی پوزیشن لی تھی اور کالج میں بھی کم وقت میں ہی استاد تمہاری پڑھائی کی تعریف کرنے لگے ہیں شکریہ آپ سب کا دوستوں بیبرگ نے جواب دیا اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ لڑکے اس سے کیا چاہ رہے ہیں بیبرگ ہم چاہتے ہیں کہ تم اپنی صلاحیتیں اپنی قوم اور علاقے کے لیے استعمال کرو تم جانتے ہو کہ ہمارے ساتھ کتنی ناانصافیاں ہو رہی ہیں ہم چاہتے ہیں کہ تم بھی ہمارے ساتھ ان مظالم کے خلاف آواز اٹھاؤ ۔وہ تو سب ٹھیک ہے مگر ہمیں پہلے اپنی تعلیم مکمل کرنی چاہیے تبھی ہم کچھ کر سکتے ہیں بیبرگ نے کہا ۔ہاں ہاں بالکل بیبرگ تم صحیح کہہ رہے ہو مگر ہمارے وہ بڑے جو یہ کام کر رہے ہیں ہم ان کا ساتھ تو دے سکتے ہیں تم آج کالج کے بعد چلنا ہم سب میر صاحب سے ملنے جائیں گے وہ ہمارے بڑے ہیں اور ہمارے لیے بہتر سوچتے ہیں بیبرگ نے کوئی جواب نہیں دیا اور وہ لڑکے گراؤنڈ کی طرف جانے لگے میر صاحب کوئی عام آدمی نہیں تھے اپنے علاقے کے سردار اور اسمبلی کے رکن تھے کئی سالوں سے ان کا خاندان اس حلقے سے منتخب ہو کر اسمبلی تک پہنچتا تھا مگر افسوس کہ آج تک وہاں پر نہ لوگوں کے لیے کوئی اسپتال بن سکا نہ کوئی بہتر آمدورفت کے ذرائع ۔ مگر اندھی تقلید پر پانچ سال بعد پھر انہی کو اسمبلیوں میں پہنچاتے ہیں۔ کالج کے بعد بیبرگ کے بہت انکار کرنے کے باوجود وہ لڑکے اسے میر صاحب کے بسینگ (مہمان خانے) میں لے گئے ۔میر صاحب کے نوکر نے ان سب کو چائے پلائی اور میر صاحب کے آنے کا بتایا۔ بیبرگ آج ان کو آمنے سامنے پہلی بار دیکھ رہا تھا کہنے کو وہ ان کی قوم کا سردار تھا اور پگ بندھائی کے دن اس نے یہ حلف لیا تھا کہ وہ اپنے قوم کے ایک ایک فرد کی خبرگیری کرے گا۔ مگر اب یہ قوم ان کو بس الیکشنوں میں ہی یاد آتی یا پھر مخالف قبیلے کو دھمکانے کے لیے میر صاحب ایک رعب دار شخصیت کے مالک تھے۔ ان کی آواز کی گھن گرج مخالف کو ایک لمحے کے لیے خاموش کر دیتی تھی۔
جیسے ہی وہ بسینگ میں داخل ہوئے سب لڑکے اٹھ کر ان کے استقبال کے لیے کھڑے ہو گئے ان کے لیڈر نے انہیں سلام کہا والسلام بابا بیٹھو تم سب اور بتاؤ پڑھائی کیسی جا رہی ہے تم سب کی؟ میر صاحب نے بیٹھتے ہوئے ان سے پوچھا۔ بہت اچھی میر صاحب ،میر صاحب میں آج بیبرگ کو آپ سے ملانے لایا ہوں یہ پڑھائی میں بہت اچھا ہے اور تقریر بھی شاندار کرتا ہے میں نے اسے کہا کہ اپنی صلاحیت اپنی قوم کے لیے استعمال کرو ۔آپ اس کو اپنے سائے میں رکھیں گے تو یہ بہت آگے جائے گا۔ ہاں ہاں بابا کیوں نہیں تم سب ہی تو ہمارے قبیلے کا مستقبل ہو بابا اپنے حق کے لیے لڑنا سب سے بڑا جہاد ہے چاہے دشمن اپنا ہو یا پرایا اپنا حق کسی کو نہ چھوڑو اب تم سب جاؤ جب ضرورت ہوگی تو تمہیں بلاؤں گا ۔وہ میر صاحب کے بسینگ سے باہر آئے اس کا سر عجیب طریقے سے بھاری ہو رہا تھا وہ سوچ میں پڑ گیا کہ حق مارنے والا کس سے حق لینے کی بات کر رہا تھا۔
وہ زیادہ نہیں تو تھوڑا تو جانتا تھا کہ یہ سب اپنی طاقت کی حفاظت کرنے کے لیے انہیں استعمال کرتے ہیں۔ شام کو بیبرگ نے جب حمل کو ساری باتیں بتائیں تو حمل نے اس سے کہا تمہیں میری نصیحت یاد ہے نا بیبرگ کہ ارد گرد کےحالات پر لوگوں پر اور ان کے قول و فعل پر غور و فکر کرنا اور پھر فیصلہ کرنا۔ سر مجھے تو ایک بات سمجھ آئی ہے کہ دونوں جانب امن کے دشمن ہیں جو اپنی طاقت اور حکومت کے غرور میں نفرت کی آگ میں تیل ڈال رہے ہیں۔ اللّٰہ تعالی نے بھی تو حق کی دعوت کے لیے اپنے نبیوں کو پہلے تبلیغ کا راستہ سکھایا مگر یہاں لوگ گولی اور بارود کے بغیر کوئی بات کرنے پر تیار نہیں ۔بیبرگ نے افسردہ لہجے میں کہا اور حمل کو اپنی پڑھائی کے بارے میں بتانے لگا ۔انگوروں اور کھجوروں کے باغوں سے امن کے پرندے رخصت ہو رہے تھے ۔مگر باغ کے مالکان خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے تھےوہ دونوں جانتے تھے کہ ان کے ارد گرد نظر آنے والے پہاڑ اصل میں قدرت کے عظیم خزانے تھے۔ اور اگر ان خزانوں کو ان کے لوگوں اور وطن کے لیے استعمال کیا جائے تو وہ خوشحال ہو سکتے ہیں ۔مگر افسوس کہ اندرونی اور بیرونی دشمنوں کی سازشیں دن بدن بڑھتی جا رہی تھی اور حمل فرید بیبرگ کو ان دشمنوں سے بچانا چاہتا تھا۔ اس لیے وہ وقتاً فوقتاً اسے ان لوگوں کی اصلیتوں سے اگاہ کرتا رہتا جو اپنی سرداریاں اور حکومتیں بچانے کے لیے ملک کا امن و امان خراب کر رہے تھے اور اس کے لیے وہ بیبرگ جیسے معصوم نوجوانوں کو قوم پرستی کا زہر پلا رہے تھے۔ اور دوسری جانب وہ لوگ تھے جو اس سرزمین میں چھپے خزانوں پر تو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ مگر یہاں کے بسنے والے لوگوں کی محرومیوں اور مشکلوں کا مداوا کرنے کے لیے تیار نہیں اور حمل فرید بیبرگ کو اپنی ان عظیم الشان روایات سے بھی آگاہ کر رہا تھا۔وہ حقیقت میں اسے شاہ مرید اور بیبرگ خان مری کا وارث بنانا چاہتا تھا۔ اُس بیبرگ خان مری کا جس نے اپنے وطن سے وفاداری کا حق اپنے خون سے ادا کیا ۔ اس نے وطن کی محبت اور وفا میں زر ، زن اور زمین سب کو ٹھکرا دیا ۔ حمل فریداسے بھی یہی سبق دے رہا تھاکہ اپنی بہادری اور غیرت اور اپنی صلاحیتوں کو اپنے لوگوں کی ترقی اور حفاظت کے لے استعمال کرے۔ کیونکہ غلط فہمیوں اور آپس کی رنجشوں کا فائدہ ہمیشہ دشمنوں کو ہوتا ہے۔مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ کام اکیلے حمل فرید اور بیبرگ سے نہیں ہو سکتا ۔انہیں ان لوگوں کا بھی ساتھ درکار ہے جو ان سنگلاخ پہاڑوں کے درمیان مشکل زندگی گزارتے اپنے بھائیوں کی مشکلات کو محسوس تو کرتے ہیں مگر ان کے لیے عملی اقدامات نہیں کرتے ۔اس کے باوجود بھی بیبرگ اور حمل فرید پر امید تھے کہ امن کا سورج ضرور طلوع ہوگا ۔کیونکہ وہ مانتے تھے کہ دوستوں کو جدا کیا جا سکتا ہے۔مگر بھائی کبھی نہ جدا ہو سکتے ہیں نہ بدلے جا سکتے ہیں ۔ بیبرگ اور حمل فرید اپنے حصے کے چراغ لیے امن کے قافلوں کے منتظر ہیں کہ وہ کب مہر گڑھ کی جانب نکلتے ہیں۔ مہر گڑھ جو سات ہزار سال پہلے انسانی محبت اور بھائی چارے کا مرکز تھا۔ جسے اپنوں کی بے رخی اور لالچ نے بارود کی بُو سے بھر دیا ۔سُمل کا خواب بھی قابل تعبیر ہے کہ اس کا بیٹا بیبرگ پڑھ لکھ کر ایک اعلٰی مقام پائے اور زندگی کی تمام سہولیات سے لطف اندوز ہو سُمل بھی ایک عام زمین زادی تھی ۔جس کی ہر دعا اپنوں سے شروع ہو کر خدا کے اہل تک جاتی تھی وہ سب کے لیے خدا سے رحمت عافیت اور امن کا ہی سوال کرتی ہے۔ بیبرگ کے لیے سُمل کی دعا قبول ہوئی تھی اور اسے حمل فرید جیسا انسان میسر تھا جو امن کا داعی تھا۔ اور اسے یقین تھا کہ وہ چراغ جو بیبرگ کی صورت اس نے جلایا ہے ۔وہ بہت سے دوسرے چراغوں کے روشن ہونے کی وجہ بنے گا اور شاہ مرید کا وطن ایک بار پھر امن کا گہوارہ بن جائے گا۔
















