عالمی تحریک اسلامی کے ممتاز مفکر و مدبر ،ماہر اسلامی معیشت و تعلیم ، مصنف و محقق پروفیسرخورشید احمد(۱۹۳۲ء) کا شمار ان عالمی رہنماؤں میں ہوتا ہے جنہوں نے پاکستان اور امت مسلمہ کے ترجمان کی حیثیت سے نہ صرف اسلامی دنیا بلکہ مغرب میں اپنے فکری اور تصنیفی کام کی بدولت اعلیٰ مقام حاصل کیا ۔پاکستان میں بطور ممبر سینٹ آف پاکستان اپنے ۲۲سالہ دور میں انہوں نے جمہوریت، دستور و قانون سازی ، نفاذ شریعت، قومی سلامتی ، معیشت، تعلیم ، خارجہ پالیسی اور دفاع وطن پر فکر انگیز خطابات کے ذریعے سینٹ آف پاکستان کے فیصلوں کو متاثر کیا ۔
راقم الحروف کو ۱۹۹۲ء تا ۲۰۱۲ء ( ایک مختصر وقفے کے سوا جب ۱۹۹۹ء میں جنرل پرویزمشرف کے مارشل لاء کے نتیجہ میں سینیٹ آف پاکستان کو چار برس معطل رکھا گیا) پروفیسرخورشید احمد کی سینیٹ آف پاکستان میں کی گئی تقاریر، تحریکات التواء، توجہ دلاؤ نوٹس اور اہم سوالات کو جمع اور ترتیبو تدوین کا موقع ملا ۔ عمومی طور پر ہر سال سینیٹ کا اجلاس اوسطاً ۱۰۰دن ہوا ہے اور ہر دن کی روداد کم از کم بیس صفحات اور زیادہ سے زیادہ تین سوصفحات پر مشتمل رہی ہے اس میں سے پروفیسرخورشید احمد صاحب کی تقاریر، تحریکات التواء و استحقاق ، توجہ دلاؤ نوٹس اور سوالات کو تلاش کر کے موضوعاتی ترتیب دی گئی ۔جمع ہونے والے لوازمہ کو مندرجہ ذیل موضوعات میں تقسیم کر دیا گیا۔ معیشت ،ملکی سیاست،دستور و قانون سازی،عالمگیریت و دہشت گردی کے خلاف جنگ اور پاکستان کی خارجہ پالیسی اورپاکستان کے سماجی مسائل۔
پروفیسر صاحب کی تقاریر پر کام کرتے ہوئے ایک خوشگوار کیفیت کا پیدا ہونا لازمی عنصر ہے، پروفیسر صاحب جب بھی کوئی بات کرتے ہیں یا کسی موضوع پر اپنا مؤقف پیش کرتے ہیں تو اس میں منطق، استدلال،تجزیہ او ر تجویز شامل ہوتی ہے ۔ان کی تقاریر میں فضولجذباتیت، متشدد لہجہ اور ہوائی باتیں نہیں ہوتیں بلکہ شائستگی، ادب ، لہجے میں ٹھنڈا پن ، مخاطب کے ساتھ ہمدردی، سمجھانے والا انداز ،اپنی بات کا یقین اور جو بات کہہ رہے ہیں ، جس موضوع پر کہہ رہے ہیں اس کی گہرائی و گیرائی یہ ظاہر کرتی ہے کہ پروفیسر صاحب بھرپور تیاری اور مطالعہ کے ساتھ ایوان میں آئے ہیں۔ پروفیسر خورشیدا حمد کے لہجہ میں ان کے پیشہتدریس سے وابستگی کی جھلک نظر آتی ہے ، وہ ایک سیاست دان ہونے کے باوجود گولمول بات نہیں کرتے ، ہوائیاں نہیں چھوڑتے ، سبز باغ نہیں دکھاتے، مخالفین کو نیچا دکھانا ان کا مقصد نہیں ہوتا یا مخالفت برائے مخالفت کبھی بھی پروفیسرخورشید صاحب کی تقاریر میں ہم نہیں ڈھونڈ سکے۔ یہ ضرور ہے کہ سینیٹ آف پاکستان کی رودادوں میں بارہا یہ منظر رقم ہے ایک مؤدب ، منطقی،دستور و قانون، قرآن و سنت ، روایاتوثقافت، تہذیب و شائستگی اور استدلال کے ساتھ بات کرنے والے شخص کے مقابل شور مچایا گیا ، ڈیسک بجائے گئے اور انہیں بات کرنے سے روکا گیا ۔لیکن اس کے باوجود یہ پر عزم شخص کھڑا رہا ، اپنی بات پوری کی اور اس کی شائستگی اور صبر نے مخالفین کو خاموش ہونے پر مجبور کر دیا پھر اس نے اپنی بات مکمل کی، انہیں سمجھایا ، مسئلے کو سلجھانے کے لیے حب الوطنی پر مبنی تجاویز دیں ،لیکن مفادات سے وابستہ گروہ جب اپنی آنکھیں ، کان اور دل بند کر لیتے ہیں ان سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم نے اپنی بات کر لی ہے اب اکثریت کی بنیاد پر تم جو چاہو فیصلہ کرو۔تقریباً ۲۲سال کی سینیٹ کی رودادوں میں پروفیسر خورشید احمد جگہ جگہ آپ کو دستور و قانون کی حمایت اور تحفظ میں کھڑے ہوئے نظر آئیں گے۔ وہ جمہوری روایات کے علمبردار ، پارلیمنٹ، عدلیہ اور دستور کی بالادستی کے ہر اول دستے کے قائدین میں نمایاں ہیں ، کوئی ایک تقریر یا ایک جملہ ایسا نہیں ملے گا جہاں پروفیسر صاحب کسی مفاد کے تحت کمزوری دکھائیں ، جن لوگوں کے نمائندہ رہے ہیں انہیں گمراہ کریں یا پاکستان کے مفادات پر آنے والی آنچ کی چنگاریوں کی راہ میں ڈھال نہ بنے ہوں۔
پروفیسر خورشید احمد اپنے خاندانی و تعلیمی پسِ منظر اور تحریک اسلامی سے وابستگی کے سبب دنیا کو اور اس کے مسائل کو قرآن و سنت اور عظیم اسلامی تہذیب و ثقافت کی روشنی میں دیکھتے ہیں ۔ان کی سیاسی زندگی میں جب بھی کوئی مسئلہ در پیش ہوا تو اس کے تجزیہ تحلیلوتجویز میں بنیادی نکتہ نظر جدید و قدیم علوم کی روشنی میں قائم کیا گیا اور جب بھی حزباختلاف یا حزب اقتدار کو صائب قیادت میسر آئی تو اسے سوائے ان مسائل کے جہاں ان کے اپنے مفادات وابستہ نہ تھے ۔ پروفیسر خورشید احمد صاحب کے نکتہ نظر کو قبول کرنا پڑا ۔بیشتر مواقع پر سینیٹ آف پاکستان کی کمیٹیوں میں طے پانے والے مسائل کی رپورٹ، حزباختلاف اور حزب اقتدار کے اراکین نے پروفیسرخورشید احمد ہی کو ایوان میں پیش کرنے کا اعزاز بخشا۔پروفیسر خورشید احمد صاحب کی دستوروقانون سازی کے دوران بیشتر تقاریر میں آپ کو حوالے جہاں قرآن و سنت سے ملیں گے وہاں مغربی دنیا کے بڑے بڑے اسکالرز کی بے شما رکتب جو پروفیسر صاحب کے زیرِ مطالعہ رہی ہیں صفحہنمبر، پیرا گراف نمبر، مصنف کا نام،کتاب کا نام،کوٹ ان کوٹ(Qout unqout)یہ پروفیسر صاحب کا طرز اداہے۔ میرا ایک اندازہ ہے کہ سینیٹ آف پاکستان میں خورشید صاحب کی تقاریر میں مختلف کتب، رسائل، اخبارات،رپورٹس،خطوط وغیرہ کے سینکڑوں نہیں ہزاروں حوالہ جات آئے ہیں اور یہ سارے حوالہجات جب وہ تقریر کر رہے ہوتے تھے ان کے ساتھ ہوتے تھے اور وہ دوران تقریر صدر نشین کو ان کے اصل حوالہ جات ،کتب ،رپورٹیں تصدیق کے لیے پیش کیا کرتے تھے۔
پروفیسر خورشید احمد ایک عظیم محبِ وطن سیاستدان اور جمہوریت پسند لیڈر ہونے کے ناطے ہمیشہ چوکس رہنے والے قائد ہیں ۔ ان کی نظر ملکی و عالمی سطح پر جاری ایک ایک کارروائی ، بیان، معاہدے، حرکت پر رہی ہے اور انہوں نے پاکستان کے دشمنوں کو کبھی بھی بلا روک ٹوک نہیں جانے دیا ۔ پاکستان کے خلاف یا پاکستان کے معاشی و دفاعی مفادات ،اسلام اور قرآن و سنت کے حوالے سے کوئی بھی مخالفانہ بیان ، خبر ،مظاہرہ، انٹرویو، جلسہ ،کانفرنس دنیا کے کسی بھی ملک میں ہو اس پر پروفیسر خورشید احمد نے پارلیمنٹ کے اندر اور پارلیمنٹ کے باہر لازماً گرفت کی ہے اگرچہ وہ خودباخبر رہے ہیں لیکن اس سلسلہ میں وہ انتہائی خوش نصیب ہیں کہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ان کے دوست ، احباب، شاگرد اس توقع پر کہ پروفیسر خورشید احمد پاکستان کے خلاف ، اسلام کے خلاف یا مسلمانوں کے خلاف کسی بھی کارروائی کا ایک بہتر اور مدلل جواب دیں گے وہ اپنی اپنی جگہ خورشیدصاحب کو ایسی تمام خبروں، کتابوں، جلسوں اور بیانات کے بارے میں اطلاعات بذریعہ خطوط، ای میل، فون پہنچاتے رہے۔
پروفیسر خورشید احمد کو ضمیر کا قیدی کہا جا سکتا ہے انہوں نے طاقت، دھونس، دھاندلی، اکثریت، تشدد،جیل،مقدمہ بازی سے ڈر کر کبھی بھی اپنے مؤقف اور اپنے ضمیر کا سودا نہیں کیا اور جب کبھی ایسا موقعہ آیا تو اپنے اور اپنی پارٹی کے مؤقف کو زیادہ جمہوری انداز میں بلند آواز سے پارلیمنٹ اورپارلیمنٹ کے باہر پیش کیا۔میڈیا اس حوالے سے انہیں ہمیشہ احترام کی نظر سے دیکھتا رہا ، ایسے تمام بحرانی ادوار میں جہاں طاقت اور دھونس کے مقابلے میں عوامی جمہوری مؤقف کی نمائندگی کی ضرورت پڑی تو میڈیا نے ہمیشہ پروفیسر خورشید احمد صاحب کوچُنا کہ وہ آمریت کے مقابلے میں جمہوری نقطۂ نظر پیش کریں ۔
پروفیسر خورشید احمد کی تقاریر کو کتابی شکل دیتے ہوئے ہم نے ان کے تقریری انداز کو بر قرار رکھا ہے ، انگریزی کے جو الفاظ روانی میں تقاریر میں آئے ان کے مناسب متبادل استعمال کیے گئے ،تقریر کرتے ہوئے جو جملے دہرائے گئے یا آگے پیچھے ہوئے ان کو تصنیف میں ڈھالتے ہوئے سیدھا کیا گیا ہے ،ہر تقریر کے اختتام پر اس کی تاریخ درج ہے اوراہم تقاریر کی ابتداء میں اس کا پسِمنظر مختصراً بیان کر دیا گیا ہے تاکہ نفس مضمون کو سمجھنے میں آسانی رہے ۔زیرِ نظر کتاب کے ابتدائی حصہ میں پاکستان میں آمریت و جمہوریت کی کشمکش میں دستور کی پامالی اور اقتدار کے سنگھاسن پر طاقت کے بل پر قابض قوتوں سے عوام کی امانت کو چھڑانے اور اسے دوبارہ عوام کے حوالے کرنے کے جو مراحل ہیں وہ ان تقاریر سے سمجھے جاسکتے ہیں اس کے بعد ملتِ اسلامیہ اور ملتِ پاکستان کی کمزوری اور کسمہ پرسی کی ایک مختصر داستان ، تحفظ نسواں آرڈیننس کے حوالے سے سامنے آتی ہے ۔آخر میں باوجود یہ کہ عمومی قانون سازی کے موضوعات ہیں لیکن فیڈرل پبلک سروس کمیشن،سینیٹ آف پاکستان کے استحقاق ، بلوچستان کے مسائل ، لاپتہ افراد کا مسئلہ اور ڈاکٹر عبد القدیر خان کے ساتھ ہر رنگونسل کی حکومتوں اور مقتدرہ نے جو سلوک روا رکھا ۔ پروفیسر خورشید نے ہر ہر موقع پر سینیٹ میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خالق اور عظیم محسن کے حق میں آواز اٹھائی تاکہ ان پر دستور و قانون کی رو سے جاری ظلم و زیادتیوں کا ازالہ ہو سکے ۔ مگر
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
میرے لیے یہ انتہائی خوش بختی کی بات ہے کہ مجھے پروفیسر خورشید احمد صاحب جیسے بینالاقوامی سطح کے پارلیمنٹیرین، جمہوری سیاستدان اور عالمی تحریک اسلامی کے رہنما کی تقاریر کو جمع و تدوین کا موقع ملا ۔ میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہوں اور دست بہ دعا ہوں کہ وہ میری اس کوشش کو قبول فرمائے۔