Advertisement

کتاب الہی کی حکمرانی ،امن کی ضامن

انسان کی فطرت ہے کہ جب بھی اسےخود میں طاقت کا احساس ہوتا ہے وہ اسکو دوسروں سے منوانا چاہتا ہے!!!
اس جوش میں اکثر دوسروں کے دائروں میں جارحانہ داخل ہوجاتا ہےاور یہی تو امن کی عمارت میں پہلی دراڑ ہے۔
یہی فرد جب قوم بنتا ہے تو وہ دوسری قوموں کے ساتھ بھی یہی رویہ اپناتا ہے اب اس کی خواہشات اور وسیع ہو جاتی ہیں اور وہ دوسروں کی آزادی پر دسترس چاہنے لگتا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ ہر جنگ کے پیچھے کسی نہ کسی طاقتور کے توسیع پسندانہ عزائم ہی رہے۔۔۔ پھر کبھی تو ایسا ہوا کہ طاقتور نے کمزور کو دبا لیا اور کبھی آپ اپنے دام میں صیاد آگیا۔
جب انسان کا سماجی شعور کچھ مائل بہ ترقی ہوا تو اقوام سر جوڑ کر بیٹھیں کہ جنگ کی خوریزیوں کو روکا جا سکے۔ انجمنیں بنائی گئیں لیکن ظاہر ہے کچھ قومیں اپنی خود غرضانہ طبیعت سے نجات نہ پا سکیں تو وہ انجمنان اقوام بھی بیکار ہو گئیں۔ اور جنگ و جدل کا بازار گرم ہی رہا امن باہمی کے معاہدات بھی بے کار رہے چونکہ اس کے مقاصد ہی نیک نہ تھے اس لیے یہ تمام سعی لا حاصل رہی۔
طاقتور قومیں انجمنوں پر قابض ہو گئیں ، چھوٹے ملکوں پر پابندیاں لگائی گئیں۔ مگر بڑی طاقتیں بے نتھا بیل رہیں۔ اور یہی صورتحال آج بھی موجود ہے۔
پس ثابت ہوا کہ انسان کی عقل بھی ناقص ، تدبیریں بھی ناقص ، منصوبے بھی ناقص اور ان پر عمل مزید ناقص،
نا تو انسان کے ذہن میں امن عالم کاخاکہ ہے نا ہی وہ اس کےقیام پہ دسترس رکھتے ہیں یوں لگتاہے جیسے امن عالم کا وجود ہی ناممکن ہو ۔
نہیں ایسا توہرگز نہیں ہے۔
امن دنیا میں نہ صرف ممکن ہے بلکہ موجود بھی رہا ہے مگر اس کی تشکیل انسانوں کے ہاتھوں نہیں بلکہ اسی علیم اور حکیم ہستی کے ہاتھوں ہوئی جو اسے ممکن بنا سکتی تھی۔ اس نے ایسا عالمی منصوبہ امن اتارا کہ اس پرجب جب عمل ہوا دنیاکو امن نصیب ہوا انبیاء کی سلطنتیں اس بات کی گواہ ہیں!!!!
اس امن کی ابتدا انسان کی اپنی ذات سے ہوتی ہے اور اس کی قوت نافذہ کلام الہی سے کشید ہو کر انسانی دل و دماغ اور ضمیر میں پیوست ہو کر اسے مقام انسانیت دلا دیتی ہے جہاں انسان کی صرف تعمیری خواہشات ہی وجود میں
آکر تکمیل پاتی ہیں ، اور تخریبی خواہشات بروئے کار آنے سے پہلے ہی خوف خدا کی چھری سے ذبح ہو جاتی ہیں، جب انسان اپنی تمام خواہشات اور عزائم کو تعمیری ہدف دے دیتا ہے تو کل کائنات کے لیے امن کا پیغامبر بن جاتا ہے۔ اس میں ایسی خود اصلاحی اور خود پابندی ہوتی ہے کہ صرف خیر سگالی کے جذبات ہی اس سے برامد ہوتے ہیں یہ اپنے آس پاس والوں کو اپنے رویے اور خیالات سے متاثر کرتا ہے یا یوں کہو کہ وہ خود بخود اس سے متاثر ہو کر اسکی راہ پر چل پڑتے ہیں !!!
اور جب وہ قوم بنتا ہے تو اس سے کسی قوم کو در اندازی کا اندیشہ نہیں ہوتا بلکہ وہ چھوٹی اور راست رو اقوام کی مدد کرتا ہے بڑی اقوام سے برادرانہ تعلقات اور شر انگیز اور توسیع پسندانہ اقوام کے لیے امن کے معاہدے پیش کرتا ہے لیکن اگر معاہدوں کی پاسداری دوسری طرف سے نہ کی جائے تب تو وہ دشمن کے لیے ایک چیلنج بن جاتا ہے حتی کہ اسے زیر کر کے فساد مٹا کے امن قائم کر کےرہتا ہے۔

یہ کچھ کسی فلسفے کے طور پر نہیں کہاجا رہا بلکہ تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں کہ جب جب کتاب الہی کی حکمرانی ہوئ ہے انفرادی اور اجتماعی حیثیت میں انسان دوسروں کے لیے امن کی علامت تھا۔۔۔جی ہاں ہر دور میں یہ کتاب الہی کی حکومت تھی جس نے اپنی مملکتوں کو جنت ارضی بنا دیا تھا جہاں جہاں تک ان کا سکہ چلتا تھا وہاں وہاں تک خدا کی کتاب کا قانون چلتا تھا غیر مسلم رعایا باجگزار ریاستوں میں انسانی بنیادوں پر بے لاگ انصاف ، آسان ضروریات زندگی، سب سے بڑھ کر اپنے مذہبی رسومات کی ادائیگی کی بے مثال ازادی تھی تاریخ میں جس کی نظیر نہیں ہے۔
ہمسایہ آبادی کے لیے خیر سگالی کا پیغام یوں کہ کبھی کسی مسلمان ریاست نے غیر مسلم ہمسائے پر جارحانہ حملہ نہیں کیا البتہ غیر مسلموں نے ہمیشہ مسلمانوں پر لشکری اور سازشی دندازیاں جاری رکھیں
اپنی ریاست میں جہاں مسلمان سلاطین اور امراء غیر مسلموں کو اگر کوئی طالع آزما ان کی طاقت کو آزمانے کی یا ان کی مملکتوں میں امن عامہ کو درہم برہم کرنے کی کوشش کرتا تھا تو وہ اسے عبرت کا نشان بنا دیتے تھے اور عملی طور سے اس بات کو ثابت کر دیتے تھے کہ امن سب کے لیے ہے اور کوئ اس برباد کرنے کا مجاز نہیں!!!!

اگر آپ بھی ہمارے لیے لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریر، تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ bisaat.mag@gmail.com پر ای میل کردیجیے۔
error: