’’اسلام‘‘ کا لفظ ہی ’’سلامتی‘‘ سے نکلا ہے، اور ’’سلام‘‘ اس کا سب سے پہلا تعارف ہے۔ مگر افسوس! ہم نے آج سلام کو نہ صرف فراموش کر دیا ہے، بلکہ اس کی جگہ مصنوعی مسکراہٹوں، سرد رویوں اور مجازی تاثرات نے لے لی ہے۔ یہ تبدیلی محض ظاہری نہیں، بلکہ باطن کی کمزوری کا آئینہ دار ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: لَا تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ حَتَّى تُؤْمِنُوا، وَلَا تُؤْمِنُوا حَتَّى تَحَابُّوا، أَوَلَا أَدُلُّكُمْ عَلَى شَيْءٍ إِذَا فَعَلْتُمُوهُ تَحَابَبْتُمْ؟ أَفْشُوا السَّلَامَ بَيْنَكُمْ
(صحیح مسلم، حدیث: 54)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم جنت میں داخل نہ ہو سکو گے جب تک ایمان نہ لاؤ، اور تم مؤمن نہ بنو گے جب تک ایک دوسرے سے محبت نہ کرو۔ کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں کہ اگر تم اسے کرو تو آپس میں محبت پیدا ہو جائے؟ اپنے درمیان سلام کو عام کرو۔‘‘
یہ کوئی نعرہ نہیں، بلکہ ایک جامع عمل ہے، جو دلوں کو جوڑتا ہے، کدورتوں کو مٹاتا ہے اور امت میں محبت کا رشتہ پیدا کرتا ہے۔ “السلام علیکم” کہنا محض الفاظ نہیں، یہ ایک دعا بھی ہے، ایک روحانی خیرات بھی، اور اسلامی معاشرت کا بنیادی دروازہ بھی۔
سلام کرنا محض ایک رسمی جملہ نہیں، بلکہ دل کی وسعت، خیرخواہی اور اخلاص کا اظہار ہے۔ نبی کریم ﷺ خود بچوں، بڑوں، عورتوں، اجنبیوں، حتیٰ کہ غلاموں کو بھی سلام میں پہل کرتے۔ آپ ﷺ کے عمل سے واضح ہوتا ہے کہ یہ سنت صرف تعلق داروں تک محدود نہیں، بلکہ ہر انسان کے لیے ہے۔
آج کے ’’مہذب‘‘ معاشرے میں لوگ نظریں چرا کر گزر جاتے ہیں، جیسے سلام کرنے سے وقار کم ہو جائے گا۔ حالانکہ نبیﷺ نے فرمایا:
إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِاللَّهِ مَنْ بَدَأَهُمْ بِالسَّلَامِ
(الادب المفرد للبخاری، حدیث: 989)
ترجمہ: ’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ اس کے قریب وہ شخص ہے جو دوسروں کو سلام میں پہل کرتا ہے۔‘‘
سلام کرنا بظاہر معمولی عمل ہے، مگر اس کے اثرات غیر معمولی ہیں۔ یہ دلوں میں الفت پیدا کرتا ہے، رشتوں میں مٹھاس گھولتا ہے، ماحول میں برکت لاتا ہے اور دشمنی کو ہمدردی میں بدل دیتا ہے۔
سلام صرف اپنوں کے لیے نہیں، بلکہ اجنبیوں کے لیے بھی ہے۔ یہی وہ عمل ہے جو کسی اجنبی کو اجنبی نہیں رہنے دیتا، بلکہ اسے اسلامی تہذیب و شرافت سے متعارف کراتا ہے۔ یہ عمل معاشرے میں امن، محبت اور خیر خواہی کا پیغام پھیلاتا ہے۔
المیہ یہ ہے کہ آج ہماری لغت سے ’’السلام علیکم‘‘ نکل چکا ہے۔ دفاتر میں ’’ہیلو‘‘ اور ’’ہائے‘‘ عام ہیں، مسجدوں میں بھی لوگ خاموش بیٹھے رہتے ہیں، اور گلیوں میں سر جھکا کر گزرنا معمول بن چکا ہے۔ ہم نے اس عظیم سنت کو بے قدری کے ساتھ پسِ پشت ڈال دیا ہے۔
اے صاحبِ ایمان! ’’السلام علیکم‘‘ کہنا تمہارے دین کی پہچان ہے۔ یہ اسلامی تشخص ہے، یہ محبت کا دروازہ ہے، یہ وہ راستہ ہے جو تمہیں رسول ﷺ کی سنت سے جوڑتا ہے، اور جنت کی طرف لے جاتا ہے۔
آج ہمیں ایک اجتماعی بیداری کی ضرورت ہے۔ ہم سب عہد کریں:
سلام میں پہل کریں گے
بچوں کو سلام سکھائیں گے
گفتگو کی ابتدا سلام سے کریں گے
سوشل میڈیا پر ’’السلام علیکم‘‘ کو زندہ کریں گے
سنتِ نبوی کو عمل کا حصہ بنائیں گے
کیونکہ یاد رکھیں:
سلام کرو… یہ بھی عبادت ہے!
سلام کرو ! یہ بھی عبادت ہے!
