Advertisement

سارا بالابگان اور عافیہ ۔۔۔ کچھ تو کیا ہوگا

فیدل والڈیز راموس بھی ایک جرنیل تھا، وہ فلپائن کے بارہویں صدر کے طور پر 1992 سے 1998 تک برسر اقتدار رہا، اس ہی کے دور میں ایک فلپائنی لڑکی سارا بالابگان متحدہ عرب امارات میں گھریلو خادمہ کے طور پر ملازمت کرنے گئی، وہاں اس کے مالک نے اس کے ساتھ جنسی زیادتی کے لیے حملہ کیا مزاحمت کے دوران مالک مارا گیا، سارا کو عمر قید کی سزا سنائی گئی، پورے فلپائن میں ہنگامے کھڑے ہوگئے، امارات کے خلاف احتجاج شروع ہوگیا، حکومت نے فوری طور پر اماراتی حکام سے رابطہ کیا، سفارتی سرگرمی کے نتیجے میں اماراتی حکام سزائے موت میں تخفیف پر راضی ہوگئے، اور فلپائنی جنرل راموس اپنی قوم کی بیٹی کی رہائی کے لیے بے چین رہا، کیونکہ پوری قوم اس کی پشت پر تھی اور چند ہفتوں کی جدوجہد اور عوامی اور سفارتی دبائو کے نتیجے میں سزا ایک سال قید میں تبدیل ہوگئی، لیکن فلپائنی قوم اپنی بیٹی کی رہائی سے کم کسی بات پر راضی نہ تھی اور سال پورا ہونے سے قبل ہی سارا اپنے گھر فلپائن پہنچ گئی، اور فلپائن پہنچنے پر منیلا میں جشن کا سماں تھا، سڑکوں پر سارا کی تصویریں آویزان تھیں، بھرپور استقبال اور پروٹوکول کے ساتھ اسے گھر پہنچایا گیا۔
اس کے بعد امارات میں خادمہ کی نوکری کرنے والی سارا فلپائن کی سیلیبرٹی بن گئی، 1997 میں اس کی زندگی اور امارات میں ہونے والے واقعات پر فلم بھی بن گئی، یہ تو ایک فلپائنی لڑکی کی کہانی ہے، اس کی قوم کی یکسوئی کی کہانی ہے، اس قوم کے جرنیل کی اپنی بیٹی کے لیے محبت اور قومی عزت کی کہانی ہے، لیکن اسی طرح کی ایک کہانی پاکستان میں بھی گزری، ایک جرنیل کو سیاست کا شوق تھا، وہ حکومت کرنے کے لیے منتخب حکومت کو گراکر اقتدار میں آیا تھا، لیکن امریکی دبائو اور عالمی سیاست کے سامنے اور ڈالروں کی چمک کے سامنے ڈھیر ہوگیا، وہ کہتا تھا کہ میں ڈرتا ورتا کسی سے نہیں لیکن اس نے نہ صرف ہتھیار ڈال دیے بلکہ قوم کی بیٹی کو بیچ ڈالا، پھر کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی البتہ اپنی کتاب میں اعترف کرلیا، اسی دوران لیکن باگرام میں عافیہ کی موجودگی کی خبر بھی سامنے آگئی، یہ اعزاز بھی سابق وزیر اعظم عمران نے خان کے حصے میں آیا، انہوں نے برطانوی صحافی ایوون ریڈلی کے ساتھ پریس کانفرنس میں عافیہ کی باگرام میں موجودگی کا انکشاف کیا، اس کے بعد ملک بھر میں خبر پھیلی، شور مچا، لیکن اس کے بعد سے عمران خان کو چپ لگ گئی، ساڑھے تین سال وزیر اعظم رہے لیکن اس عرصے میں بھی خاموش ہی رہے، یہاں تک کہ ان کی حکومت ہی چلی گئی، دیگر معاملات کی طرح پاکستان میں بھی تقسیم کرنے والے حرکت میں آئے، لوگ پارٹیوں کی بنیاد پر تقسیم ہوئے، پھر ایک اور شوشا چھوڑا گیا کہ ’’عافیہ نے کچھ تو کیا ہوگا‘‘ یہاں فلپائن اور پاکستان کی حکومتوں سیاستدانوں اور جرنیلوں کے رویوں کا فرق واضح ہوا، سارا بالابگان نے ذاتی دفاع میں کچھ کیا بھی تھا لیکن پورے فلپائن سے ایک آواز نہیں اٹھی کہ سارا نے کچھ تو کیا ہوگا، بلکہ سب نے یک زبان ہوکر کہا پہلے بیٹی پھر کوئی اور بات اور یہاں آج تک یہ چل رہا ہے کہ عافیہ پاکستانی شہری ہے یا نہیں، دوسری شادی کی یا نہیں، وہ رکشے میں دیکھی گئی، اس نے این سی سی کی ٹریننگ لی تھی کہ نہیں، اس نے کیا کیا اور کیا نہیں کیا یہ الگ معاملہ ہے اور عافیہ قوم کی بیٹی، قوم کی عزت ہے اسے واپس لانا الگ موضوع ہے، اب تو حکومت پاکستان ہی نے ہاتھ اٹھا دیے ہیں کہ بہت کرلیا عافیہ کے لیے، لیکن وزارت خارجہ اور حکومت کے نمائندے عدالت کو یہ نہیں بتاسکے کہ اگر حکومت نے بہت کچھ کر لیا ہے تو کیا عافیہ گھر آگئی ہے؟ کیا اسے سکون مل گیا ہے، اپنے بچوں سے اس کی ملاقات ہو گئی ہے، ایسا تو کچھ بھی نہیں ہوا، اور اب جبکہ ہر بات دو اور دو چار کی طرح واضح ہوگئی ہے، ایک سابق وزیر اعظم صاحب سوال کر بیٹھے کہ عافیہ نے کچھ تو کیا ہوگا، ورنہ امریکا اتنی بڑی غلطی نہیں کرتا، ایسا لگا کہ وہ عافیہ کی حمایت میں پروگرام میں نہیں آئے تھے، امریکا کی وکالت کے لیے آئے تھے۔ ان سے پوچھا جائے کہ امریکا نے عراق میں وسیع پیمانے پر تباہی کے ہتھیاروں کا پروپیگنڈا کیا اور مسلسل کیا، اور بعد میں یہ سب غلط نکلا، یہ تو عافیہ کے اغوا اور سزا سے بڑی غلطی تھی، اس کی وکالت کیا کرنا۔ ایسے روئیے بیٹیوں کو تحفظ نہیں دے سکتے، اگر بیٹی کو لانا ہے تو دنیا کی دوسری قوموں سے سیکھیں، اس نالائقی میں صرف حکمران ہی ذمے دار نہیں، تمام سیاسی جماعتیں اس مطالبے پر ایک کیوں نہیں؟ سب ایک ہوجائیں تو حکومت بھی گھٹنے ٹیک دے گی۔ اگر دنیا کے دوسرے ملکوں کی تاریخ کھنگالیں تو اپنے شہریوں اور بیٹیوں کی خاطر بڑے فیصلوں اور اقدامات سے بھری ملے گی، پاکستانی قوم بھی آگے بڑھے اور تاریخ رقم کردے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریر، تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ bisaat.mag@gmail.com پر ای میل کردیجیے۔
error: