Advertisement

سنگاپور کی ترقی میں بیوروکریسی کا کردار

عوام کو اعلیٰ شہری سہولیات کی فراہمی اور وقت کے ساتھ ان میں بہتری لانے میں بیوروکریسی (انتظامیہ) کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ حکومت کی بنائی ہوئی پالیسیوں کے نفاذ اور ان سےاچھے نتائج برآمد کرنے کا دارومدار سول بیوروکریسی کی اچھی کارکردگی پر ہوتا ہے۔ یہ دونوں عوامل مل کر گڈ گورننس کی بنیاد رکھتے ہیں۔آئیے دیکھتے ہیں کہ سنگاپور کو یہاں تک پہنچانے میں اس شعبے نے کتنا کام کیا ہے اور کون سے ایسے نکات ہیں جن سے دوسرے ممالک فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اگرچہ سنگاپور کے پڑوسی آسیان ممالک میں بیوروکریسی کا کردار بہتر ہے لیکن ایشیاء کے کئی ملکوں میں عوام بیوروکریسی سے شاکی رہتے ہیں کہ ان کی کارکردگی اچھی نہیں ہے۔ اس جائزے میں یہ حقیقت ذہن میں رکھنے چاہئے کہ سنگاپور ایک شہری جزیرہ ہے جس کا رقبہ محدود ہے۔
سول سروسز کے افسران کا انتخاب
سنگاپور کے اعلی افسران کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلا حصہ سول بیوروکریسی کا ہے جو سخت محنت اور میرٹ کے ساتھ منتخب ہوتی ہے۔ اس میں داخلے کے لئے Management Associate Program موجود ہے۔ پبلک سروس کمیشن سخت مقابلے کے بعد ان میں سے اچھی یونیورسٹیوں کے پوزیشن ہولڈرز کو چن لیتا ہے۔ یہ لوگ دو سال تک اپنی مرضی کی وزارت میں کام کرکے تجربہ حاصل کرتے ہیں۔ اس کے بعد حکومت ان سے کسی دوسری وزارت میں ایک سال سے دو سال تک کام لیتی ہے۔ ان کی کارکردگی کا بھرپور جائزہ لینے کے بعد ان کی فائنل پوسٹنگ کی جاتی ہے۔ اس معاملے میں Best & Brightest کے اصول کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔
اس وقت سول سروس کے اعلی افسران کی کل تعداد ایک ہزار کے قریب ہے۔ ان میں سے نچلے درجے کے افسران اور ڈپٹی سیکرٹری بنائے جاتے ہیں۔ ڈپٹی سیکریٹری بننے میں 7 سے 10 سال کا عرصہ لگ جاتا ہے۔ Permanent Secretary سول سروس کا سب سے اعلی درجہ ہے۔ ان افسران کے ذمہ ٹیکسوں اور محصولات کو جمع کرنا ، صحت ، تعلیم ، صاف پانی اور دیگر بنیادی سہولیات کی فراہمی ہے۔ عام طور پر 40 سال کی عمر میں افسران Permanent Secretary کے عہدے پر پہنچ جاتے ہیں۔ لیکن کوئی بھی شخص دس سال سے زیادہ اس عہدے پر کام نہیں کر سکتا اور نہ ہی کسی کو اس عہدے پر توسیع مل سکتی ہے۔ یہ اقدام نئے لوگوں کو آگے آنے کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ ریٹائرڈ افسران سے بعد ازاں پبلک اداروں ، کارپوریشن ، کمیشن ، کونسل ، حکومتی بورڈز اور پرائیویٹ اداروں) میں ٹیکنیکل ایکسپرٹ کے طور پر کام لیا جاتا ہے اور ان کے تجربہ سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔
بیوروکریسی کی ذمہ داریاں
سول سروس کے افسران حکومتی وزرا کے ساتھ مل کر پالیسیاں تشکیل دیتے ہیں اور ان پر عملدرآمد کا جائزہ لیتے ہیں۔ سول سروسز میں جدت لانے کے لئے آج سے 40 سال قبل ان کو کہا گیا کہ وہ بزنس ایگزیکٹو کی طرز پر کام کریں اور مقابلے کی طرز پر اپنے کام کی بہتری کے لئے پلان بنائیں۔ اس مقصد کے لئے ان کو محدود آزادیاں بھی دی گئیں۔ بجٹ کا ایک حصہ اپنی مرضی سے استعمال کرنے کی اجازت دی گئی۔ کچھ ملازمین کی تقرری اور ترقیوں کا اختیار دیا گیا تاکہ کوئی نیا منصوبہ بنا سکیں۔ یہ تجربہ بالعموم کامیاب رہا ہے اور وزارتوں کا کام کافی بہتر ہو گیا۔ سول سروس کے عہدیداران کی تنخوہیں بہت زیادہ رکھی گئی ہیں تاکہ ان میں رشوت ستانی نہ پھیلے اور دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ حکومت نہیں چاہتی کہ اس کے تربیت یافتہ افراد استعفی دے کر پرائیویٹ سروس میں چلے جائیں۔
حکومت کے دیگر ادارے
سول سروس کا دوسرا حصہ پبلک اداروں ، کارپوریشن ، کونسل ، کمیشن اور بورڈز کے طور پر موجود ہے جو وزراتوں سے آزاد اور خود مختار انداز میں کام کرتے ہیں۔ ان کا انتظام بورڈ آف گورنرز چلاتے ہیں۔ ان بورڈز کی کل تعداد 66 ہے جن میں 60 ہزار سے زائد ملازمین کام کرتے ہیں۔ ان اداروں کے پاس اپنے کام کے لئے بجٹ ہوتا ہے اور ان کی کارکردگی کا جائزہ متعلقہ محکمے اور کابینہ لیتی ہے۔ ان اداروں کو پارلیمنٹ کے ایکٹ کے تحت کام کیا گیا تاکہ کوئی ان کے کام میں مداخلت نہ کر سکے۔ ہر ادارے کا ایک قانونی مشیر ہوتا ہے جو اس کے کام میں مدد فراہم کرتا ہے۔
روزمرہ کے معاملات میں ان کو مکمل آزادی حاصل ہے اور ہر افسر اپنے کام کا جوابدہ ہے۔ ان اداروں کا کام حکومت کی پالیسیوں کو کامیاب بنانا ہے۔ ہر ادارہ رہنمائی حاصل کرنے کے لئے ایک وزارت سے منسلک ہے جو اس کو پالیسی فراہم کرتی ہے۔ گورننگ بورڈز کے ممبران کا تعین حکومت کرتی ہے جن میں وزیر اور درکاری عہدیدار بھی شامل کئے جا سکتے ہیں۔ ان اداروں کی بڑی پوزیشنوں کے لئے بعض اوقات سول سروس کے اعلی عہدیداران کا تقرر بھی کیا جاتا ہے۔ یہ ادارے عام طور پر ٹیکنیکل ایسکپرٹس کی مدد سے قائم کئے جاتے ہیں تاکہ ہر شعبہ زندگی کی ضروریات کو اچھے انداز میں چلایا جا سکے۔ ان میں پروفیشنل حضرات کو خاص طور پر شامل کیا جاتا ہے۔ اس طرح کے بورڈز اپنے کام میں بہتری اور آسانی کے لئے ذیلی ادارے بھی قائم کر سکتے ہیں۔ سول سروس اور بورڈز میں نسل، زبان ، جنس اور سفارش کو اہمیت کے بجائے ذہانت اور مہارت کو ترجیح دی جاتی ہے۔ ایک طریقہ کار یہ بھی اختیار کیا گیا ہے کہ ٹیکنیکل افراد کو مستقل ملازمت دینے کے بجائے چند سال کا کنٹرکٹ دیا جائے۔ کام کے نتائج بہتر ہونے کی صورت میں مزید چند سال کے لئے کنٹرکٹ دے دیا جائے۔ اس سے افسران مسلسل اعلی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہ طریقہ کار پرائیویٹ اداروں سے ملتا جلتا ہے۔
پالیسیاں کیسے بنائی جاتی ہیں؟
اعلی ذمہ داریوں پر فائز سول سروس افسران وزرا کے ساتھ مل کر پالیسیاں بناتے ہیں۔ سنگاپور کے قیام کے وقت رہائش ایک بہت بڑا مسئلہ تھی جس کے لئے ہائوسنگ اینڈ ڈویلپمنٹ بورڈ بنایا گیا جس نے دن رات کام کیا۔ آج سنگاپور کی 90 فیصد آبادی اس کے بنائے ہوئے فلیٹس میں رہ رہی ہے اور یہ بورڈ کامیابی کا ایک نشان ہے۔ پرانی عمارتوں کی مرمت اور ان کو مسلسل بہتر بنانے کا کام بھی یہی ادارہ سرانجام دیتا ہے۔ مسائل کو بروقت حل کرنے کے لئے وزارتیں پالیسی بناتی ہیں اور سول سروس اور بورڈز کے افسران مل کر اس کو نافذ کرتے ہیں۔ سول سروس کے افسران کے شعبے ہر چند سال بعد تبدیل کئے جاتے ہیں اور Permanent Secretary اپنے عہدے سے دس سال بعد فارغ ہو جاتا ہے۔ اس سے افسران کو اپنے گروپ بنانے اور ذاتی اثر و رسوخ قائم کرنے کا موقع نہیں ملتا۔
مستقبل کی پالیسیوں کا جائزہ
پالیسیوں کا ہر چند سال بعد جائزہ لے کر ان میں حالات کے مطابق ضروری تبدیلیاں لائی جاتی ہیں۔ عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لئے بروقت اقدامات کئے جاتے ہیں۔ مستقبل میں آنے والی ممکنہ تبدیلیوں کا جائزہ لے کر بعض اوقات پیشگی اقدامات کر لئے جاتے ہیں۔ پھر جیسے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان کے مطابق بر وقت فیصلے کر لئے جاتے ہیں۔ 2009 میں Center for Strategic Future کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جو آنے والے حالات کے بارے میں تمام وزارتوں اور بورڈز کو آگاہی فراہم کرتا رہتا ہے۔ ڈپٹی وزیر اعظم کے الفاظ میں اس ادارے کا مقصد آنے والے خطرات اور دستیاب مواقع کی روشنی میں رہنمائی فراہم کرنا ہے۔
پالیسی سازی میں عوام کی شرکت
پالیسیاں بناتے وقت عوام سے مشورہ لیا جاتا ہے۔ اس کام کا آغاز 1985 میں کیا گیا جب پہلا Feedback Unit قائم کیا گیا جس کا مقصد حکومتی پالیسیوں کے بارے میں عوام کا ردعمل حاصل کرنا تھا۔ 1990 میں Goh Chok Tong کے وزیر اعظم بننے کے بعد اس کام پر بھرپور توجہ دی گئی۔ بعد ازاں عوامی مشورے کے لئے REACH کے نام سے ایک بڑا ادارہ قائم کیا گیا ہے ( Reaching Everyone for Active Citizenry @ Home) اس ادارے کا کام یہ ہے کہ وہ آن لائن سروے اور گھروں پر جا کر پالیسی بنانے سے پہلے اس کے بارے میں رائے عامہ حاصل کرتا ہے جس کی روشنی میں اس پالیسی کو بہتر بنایا جاتا ہے۔ پالیسی نافذ ہونے کے بعد اس کے عوام پر پڑنے والے اثرات کے حوالے سے رائے عامہ کا دوبارہ جائزہ لیا جاتا ہے۔ اس ادارے کو حاصل ہونے والے فیڈ بیک میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ 2008 اور 2009 میں عالمی کساد بازاری کے وقت لوگوں کی قوت خرید کم ہو گئی تو اس کو بہتر بنانے کے لئے حکومت کی جانب سے کئی اقدامات کئے گئے جن کے مثبت اثرات مرتب ہوئے۔ 2011 کے انتخابات سے پہلے عوام نے بڑی تعداد میں ان اقدامات کے بارے میں اپنی رائے دی۔
سنگاپور کے عوام نہایت تعلیم یافتہ ہیں اور ہر معاملے میں حکومت کی مداخلت کو اچھا تصور نہیں کیا جاتا۔ اس لئے عوام کے لئے قابل قبول پالیسیاں بنانے پر توجہ دی جاتی ہے۔ دوسری طرف بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حکومت ایشیائی اقدار کے نام پر کافی کنٹرول قائم رکھتی ہے اور مغرب کی لبرل ڈیموکریسی کو فروغ نہیں دیتی۔ اس لئے وہ ایک لحاظ سے کنٹرولڈ ڈیموکریسی پر یقین رکھتی ہے لیکن ایک بات واضج ہے کہ عوام کے مفادات کو ہر صورت میں اولیت دی جاتی ہے۔
حکومتی کارکردگی کی ایک مثال
عوامی بہبود کے کاموں میں حکومت کی جانب سے روزگار کی فراہمی ایک اہم ذمہ داری ہے۔ سنگاپور میں بے روزگار افراد کی مجموعی تعداد دو فیصد ہے۔ جبکہ طویل عرصے کی بے روزگاری کی شرح ایک فیصد ہے۔ 2025 میں سنگاپور کے مستقل شہریوں (Citizens) میں بے روزگاری کی شرح دو اعشاریہ آٹھ (2.8) فیصد ہے۔ جبکہ دوسرے ممالک کے سنگاپور میں مقیم لوگوں (Residents) میں بے روزگاری دو اعشاریہ نو (2.9) فیصد ہے۔ 30 سال سے کم نوجوانوں میں یہ شرح ساڑھے پانچ فیصد ہے۔ جبکہ 60 سال سے بڑی عمر کے لوگوں میں ڈھائی فیصد بے روزگاری پائی جاتی ہے۔ 30 اور 60 سال کے درمیانی عمر کے لوگوں میں بے روزگاری نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس جائزے میں ان لوگوں کو شامل کیا جاتا ہے جن کے پاس ملازمت نہیں اور وہ روزگار تلاش کرنے کے لئے خود تگ و دو کر رہے ہوں۔ حکومت مسلسل اس کوشش میں رہتی ہے کہ عوام کو ملازمت کے مواقع حاصل ہو سکیں۔ جون 2025 میں 75 ہزار سے زائد ملازمتوں کے مواقع موجود تھے۔ اس کامیابی کا سہرا حکومتی پالیسیوں اور بیوروکریسی کی اعلی کارکردگی کو جاتا ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریر، تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ bisaat.mag@gmail.com پر ای میل کردیجیے۔
error: