پاکستان بزنس فورم ایک جانا پہچانا نام بن چکا ہے خصوصا میرا برانڈ پاکستان کے دوسرے ایڈیشن کے بعد تاجر برادری اور پاکستانی صنعتکاروں اور حکومتی اداروں میں اسے بڑی پذیرائی ملی ہے ایسے میں بساط نے پاکستان بزنس فورم کراچی کے صدر سہیل عزیز سے مستقبل کے منصوبے جاننے کے لئے ملاقات کی یہاں ان منصوبوں اور عزائم پر ہونے والی گفتگو پیش کی جارہی ہے:
پہلا سوال تو وہی روایتی ہے کہ بزنس فورم کے بارے میں بتائیں ۔ لیکن یہ اس لئیے اہم ہے کہ جو قاری پہلی مرتبہ پڑھ رہا ہے،اسکے سامنے پوری تصویر آجائے۔
سہیل عزیز: پاکستان بزنس فورم کوئی نیا کام نہیں کررہا اور یہ نیا نام بھی نہیں ہے، دراصل 1995 میں کچھ مسلم لیڈرز نے عالمی حالات کے پیش نظر مشورے کئے ترک وزیر اعظم، نجم الدین اربکان، پاکستان سے قاضی حسین احمد اور سوڈان سے حسن البشیر نے مشاورت کے بعد یہ خیال پیش کیا کہ مسلم دنیا میں تجارت کو کیسے فروغ دیا جائے ، اس حوالے سے مسلم ممالک کی ایک انٹر نیشنل بزنس بزنس کانفرنس پاکستان میں منعقد کی گئی ، جس کی صدارت اس وقت کے صدر پاکستان فاروق احمد خان لغاری نے کی۔ اس پہلی انٹرنیشنل کانفرنس میں 25 ممالک سے تقریبا 700 مندوب شریک ہوئے، اس کے بعد انٹرنیشنل بزنس فورم کا ہیڈ کوارٹر ترکی میں قائم کیا گیا ،ہر سال اس کی کانفرنس ہوتی ہے ایک مرتبہ ترکی اور اگلے سال کسی رکن ملک میں ،آئی بی ایف کے 42 رکن ممالک ہیں، ایک انٹرنیشنل بزنس نمایش موسیاد کے نام سے انٹرنیشنل کانفرنس کے ساتھ ہوتی ہے اس میں چار پانچ ہزار مندوبین آتے ہیں، پاکستان بھی آئی بی ایف کا حصہ ہے، کراچی ،لاہور، اسلام آباد، گوجرانوالہ، سیالکوٹ،فیصل آباد ،جہاں بھی بزنس ہے وہاں ہمارا ایک چیپٹر ہے ۔
سوال: آپ کا اصل مقصد اور ہدف کیا ہے ۔
سہیل عزیز: اس ادارے کا قیام تو مسلم ممالک میں تجارت کا فروغ ہے لیکن بدلتے حالات میں اہداف میں کچھ اضافے اور کمی بھی ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر وقفے وقفے سے بائیکاٹ کی مہم چلتی ہے اور خصوصا اسرائیل اور اس سےتجارت کرنے والے ممالک کا بائیکاٹ ہے اس میں کبھی تیزی اتی ہے اور کبھی یہ ہلکی پڑ جاتی ہے ، ہم نے گزشتہ برس اسرائیلی جارحیت کے بعد بائیکاٹ کی مہم میں حصہ لیا، لیکن ہم نے اس کے ساتھ ساتھ متبادل اشیا کا تصور بھی پیش کیا ، کیونکہ صرف بائیکاٹ سے زیادہ اثر نہیں ہوتا جب تک لوگوں کو متبادل نہ ملے، اور گزشتہ دو نمایشوں میں ہم متبادل کے طور پر پاکستانی برانڈ متعارف کرانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ پاکستانی برانڈز کے ساتھ ساتھ ہم نے پاکستان کے اسمال اینڈ میڈیم اینٹر پرائز پر خصوصی توجہ دی، ان اداروں کی ہمت افزائی کی ،ان کو ٹریننگ ،اور مارکیٹنگ کے طریقوں سے بھی واقف کرایا پیکیجنگ اور معیار بہتر بنانےکی طرف توجہ دی ،اس کے نتیجے میں کئی کاٹیج اور ایک گھر سے چلنے والے ادارے اب پورے ملک میں کام کررہے ہیں بلکہ کچھ تو ایکسپورٹ میں بھی آگئے ہیں اور اس سے پاکستانی
زرمبادلہ میں اضافہ بھی ہورہا ہے اور ملک میں روزگار اور پاکستانی برانڈ بھی فروغ پارہا ہے۔،پاکستان میں معیشت مستحکم کرنے میں ایس ایم ایز کا کردار بہت اہم ہے ۔ان کی ترقی سے روزگار، صنعتوں کا قیام اور زر مبادلہ میں اضافہ ہوتا ہے اور یہی معاشی استحکام کا اہم اشاریہ ہے۔
سوال: مستقبل کے عزائم کیا ہیں ؟
سہیل عزیز: دیکھیں مستقبل کے عزائم تووہی ہیں جو آئی بی ایف کا بنیادی مقصد ہے یعنی مسلم ممالک میں تجارت ، لیکن اس میں ہر آنے والے برس بہتری آرہی ہے ،اب ہم صرف مسلم ممالک تک محدود نہیں ہیں ہمارا ہدف یورپ اور امریکا میں موجود مسلم ممالک کے افراد بھی ہیں ان کے تعاون سے مسلم ممالک کی مصنوعات کا ان ممالک میں فروغ بھی پیش نظر ہے ۔اگلی نمایش نومبر میں اردن میں ہے ہمارا وفد شرکت کرے گا، اسی طرح امریکا میں اسلامک سرکل آف نارتھ امریکا کی سالانہ کانفرنس میں تیس پینتیس ہزار مندوبین شرکت کرتے ہیں یہ بڑی اہم کانفرنس ہوتی ہے اس میں بھی ہم مواقع تلاش کریں گے کم از کم تعارف تو پہلی مرتبہ پہنچادیں گے ،اسی طرح برطانیہ میں بھی منصوبہ ہے ۔
سوال: آپ کےپاس جب سے ذمہ داری ہے لگتا ہے کہ فوکس بائیکاٹ ہے ؟
سہیل عزیز: ایسا نہیں ہے بلکہ یہ اتفاق ہے کہ جب ہمیں ذمہ داری ملی تو اسی وقت اسرائیلی جارحیت مسئلہ بنی تھی اور دنیا بائیکاٹ کررہی تھی ہم نےتو متبادل متعارف کرانے کا فیصلہ کیا اوریہی ہماری کامیابی ہے کہ ہم نے پاکستان کے برانڈز کو،اعتماد دیا اور انہیں بین الاقوامی مارکیٹ میں پہنچایا۔یہ اتفاق ہے کہ پہلی نمایش کے وقت غزہ کا معاملہ نیا تھا ہم نے بغیر فنڈز کے فیصلہ کیا کہ ایکسپو مین میرا برانڈ پاکستان نمایش کا اعلان کردیا ، بزنس فورم کے ممبرز نے اپنی جیب سے پیسے ڈالے اور دوہال بک کرالئیے ، میں کئی عشروں سے تجارتی نمائشیں کروا رہا ہوں لیکن ایک ماہ کے بوٹس پر یہ پہلی نمایش تھی اور کامیاب بھی رہی ،ہم نے تمام اخراجات نکال کر الخدمت کو غزہ کی تعمیر نو کے لئیے دوملین روپئے کا چیک دیا ۔
سوال: اس کانفرنس کا معاشی پہلو کیا تھا کیا صرف بائیکاٹ یا غزہ کے لئیے فنڈز جمع کرنا تھا ؟
سہیل عزیز: معاشی پہلو بہت سارے ہیں ،یہاں چھوٹے کاروباری اداروں کو ایک پلیٹ فارم ملا ایک سال میں لوگوں کا کاروبار گھریلو صنعت سے ایکسپورٹر تک پہنچاہے ، ہمیں تو کاروباری برادری نے زبردست پذیرائی دی ہے، دونوں کانفرنسوں میں کاروباری حضرات نے اپنے تجربات اور کامیابیوں کی روشنی میں اپنے تجربات سے نئے لوگوں کو رہنمائی دی، ٹریڈ ڈیویلپمنٹ اتھارٹی ٹڈاپ کے طارق اکرام نے بہت زبردست رہنمائی دی۔
سوال: آپ کی اصل کامیابی کیا ہے ؟
سہیل عزیز: دیکھیں ایک طرف تو دوسری نمایش خود کامیابی کا منہ بولتا ثبوت ہے ،اس مرتبہ دو بڑے ہالز لئیے ،باہر فوڈ کورٹ بنایا پلے ایریا کے لئیے جگہ الگ لی ۔باقاعدہ بین الاقوامی معیار کی نمایش منعقد کی ،355 اسٹالز لگے ،او 500 سے زاید پاکستانی برانڈز شریک ہوئے، ایس ایم ایز کو چھوٹے اسٹالز دئیے گئے، کہیں ٹیبل کرسی رکھ کر جمعہ بازار کا تاثر نہیں دیا گیا، اور اس مرتبہ تمام اخراجات نکال کر بھی غزہ فنڈ میں چار ملین کا چیک دیا ۔ لیکن ہماری اصل کامیابی بائیکاٹ سے زیادہ متبادل پاکستانی برانڈز کا تعارف ان کا استحکام اور فروغ ہے ، اس مرتبہ بھی کراچی چیمبر اور فیڈریشن کی پوری کابینہ اور ٹڈاپ کے چئیر مین ،انڈسٹری کے لوگوں نے مسلسل موجودگی سے ثابت کیا کہ انہیں پاکستانی برانڈز کے فروغ میں گہری دلچسپی ہے ،زبیر موتی والا تو ٹریفک جام میں پھنس گئے تھے واپس جانے کا ارادہ ہے بھی کیا لیکن دلچسپی کی وجہ سے پہنچے اور نمایش دیکھ کر کہا کہ میں آتنی شاندار نمایش سے محروم رہ جاتا، اس نمایش کی معاشی سرگرمی یہ تھی کہ مجموعی طور پر سوا ارب کی ڈیلز اور بکنگ ہوئی، کروڑوں روپئے کی نقد خریداری ہوئی۔
سوال: بزنس فورم کے قدم بڑھے یا بس نمایش تک محدود ہیں؟
سہیل عزیز: ہمیں تو عوام کے ساتھ کارپوریٹ سیکٹر سے بھرپور تعاون ملا ہے ایک کام تو یہ ہوا کہ معووف کمپنی گرو سیف کے ساتھ ہمارا ایک معاہدہ ہواہے ،اس ایم اویو کے تحت گروسیف ایس ایم ایز اور ہمارے ممبرز کو تمام بین الاقوامی قوانین سے آگاہی دے گی، اس کا طویل المدت اثر ہوگا ،پاکستانی کمپنیزتیاری کے ساتھ میدان میں آئیں گی،
سوال :آپ کی کیا تجاویز ہیں مستقبل کے لیے؟
سہیل عزیز : دیکھیں ہم نے اپنے حصے کاکام شروع کردیا ہے اور یہ جاری رہے گا ،اب حکومت سازگار ماحول فراہم کرے ، ساری دنیا میں ایس ایم ایز نے تبدیلی پیدا کی ہے۔ان کے لئیے ٹیکس نظام ،یوٹیلٹیز میں سہولت،ایکسپورٹ کے لئیے مراعات میں اضافہ کرے تو زر مبادلہ پاکستان آئے گا ،پاکستان میں سروس سیکٹر،اور آئی ٹی چار پانچ ارب ڈالر کی ایکسپورٹ کرسکتی ہے،پاکستان میں انگریزی بولنے والی افرادی قوت موجود ہے دنیا بھر کے کمرشیل کونسلرز ایسی کمپنیوں سے رابطے کرائیں۔ ایک بات کو حکومت یقینی بنائے کہ پیسہ پاکستان آنا چاہئیے دبئی سوئٹزر لینڈ یا انٹرنیشنل بنکوں مین نہ جمع ہوجائے۔
اب تیسری میرا برانڈ نمایش کی ابھی سے تیاری ہے ،اسلام آباد میں بھی کوشش ہے کہ ایک نمایش کرلیں اس کے ساتھ ساتھ ہماری ممبرشپ میں بھی اضافہ ہوا ہے،انے والے سال پاکستان کے لئیے اچھے ہونگے ان شا اللہ۔
اصل کامیابی بائیکاٹ نہیں، پاکستانی برانڈزکا فروغ ہے، سہیل عزیز
