Advertisement

مقدر کا ستارہ

میاں بیوی کا رشتہ ابتدائے آفرینش سے ہی بہت عجیب ہے۔اسی فلسفہ کی رو سے ہم کچھ زیادہ ہی’’میاں بیوی‘‘ ہیں اور ان عجائب میں مبتلا ہوئے ہمیں کئی دہائیاں گزرچکی ہیں اورہنوز ہم اس فلسفہ کی گتھیاں سلجھانے کی خاطر عقل و فہم کی گلیوں میں بھٹکتے پھرتے ہیں۔ فہم و فراست کے بھٹکنے کی داستان ہوشربا کو نہ ہی چھیڑیے کہ ’’پردے میں رہنے دو، پردہ نہ اٹھاو…‘‘( کراچی والے بھائی یاد اجائیں تو آیا گیا کردیں) عورت کی طرح بہت سی باتیں بھی برقع اوڑھے رہیں تو معاشرے میں فساد نہیں پھیلتا۔
رومانوی قصے کہانیوں میں اور محبت کرنے والے میاں بیوی میں ہم نے یہی پڑھا سنا کہ ساجن پردیس جاتا ہے تو آنسووں کے ساتھ رخصت کیا جاتا ہے۔ جب وہاں پہنچ جائے تو جدائی کے گیت گا گا کر ساجن کا چین سے رہنا حرام کیا جاتا ہے اور پھر ساجن کو واپس آنا ہی بنتا ہے۔
ادھر یہ حال ہے کہ جب ہمارے سرتاج پردیس سے دیس جانے کی خبر سناتے ہیں تو دل دھک سے رہ جاتا ہے۔ جل تو جلال تو… کا ورد اور ان کو آیت الکرسی کے حصار میں دینا شروع کردیتے ہیں۔دل پکار پکارکر کہنے لگتا ہے۔
’’نہ جا دیس، ہائے نہ جا دیس”
اور ساجن اڑن کھٹولے پر بیٹھ دیس پہنچ کر جب خیریت کی خبر سنا دے تو دل کو قرار آتا ہے۔
مگر کیا کیجئے اس دل عجیب کا جو میاں کے دیس جانے پہ وہاں کے ’’سائڈ ایفکٹس‘‘ سے ہول کھاتا ہے۔ جی ہاں آج کل’’ڈینگی‘‘ نے اس دورکی یاد دلارکھی ہے جب نمرود ہوا کرتا تھا۔ شاید اب نمرودوں کی تعداد بڑھ گئی ہے جووہی مچھر اپنی اولادوں سمیت حملہ آور ہے۔ ٹی وی پر دیس کے حالات سن کر دل ناتواں پکارنے لگتا ہے
’’سیاں!آجا پردیس، نہ رہیو دیس‘‘
پتہ نہیں اس قصہ حیران میں قصور کس کا ہے؟
ہاں کچھ یاد آرہا ہے،جب ہماری ہوش مندی کی مندی آنکھیں کھلنا شروع ہوئیں تو اپنے اردگرد ایک دعا’’منڈلاتی‘‘ پائی، ہر لڑکی اپنے کان میں اذان سننے کے ساتھ ہی اس دعا سے مانوس ہو جاتی ہے۔اس کو پیدائشی دعا بھی کہاجاسکتاہے پیدائشی نشان کی طرح۔
اللہ مقدراچھا کرے‘‘۔ “
پتہ نہیں اس دعا کا کیا مفہوم تھا۔ اس وقت تو اس دعا کے پردے میں یہ تمنائیں شامل ہوتی تھیں۔
کلاس میں پوزیشن حاصل کرنا…ڈھیروں رسالے کہانیوں کی کتابیں مل جانا۔ سہیلی کے گھر جانے کی اجازت مل جانا… سکول میں آپی(جس کو آج کل مس یا میم کہتے ہیں) کی طرف سے شاباش مل جانا…’’بزم ادب‘‘ میں اپنی کارکردگی پہ انعام مل جانا۔ والدین اور خصوصاً نانی اماں کے منہ سے اپنی تعریف سن لینا…۔
ہوش کی آنکھیں جب ہوش ربا ہوئیں تو معلوم ہوا کہ یہ ’’مقدر‘‘ تو اصل میں شوہر کا دوسرا نام ہے اس لحاظ سے ہر لڑکی کے شوہرکا نام ’’مقدر‘‘ ہے۔آج بھی ہم سوچتے ہیں کہ علامہ اقبال نے جو شعر لکھا جس میں مقدر کا ذ کر ہے تو اصل میں وہ شرم و حیا کی وجہ سے کچھ مدعا چھپا گئے ہوں گے۔ ہمیں علامہ اقبال سے محبت بہت زیادہ ہے وہ اتنے اپنے لگتے ہیں کہ ہم ان کو ’’مامااقبال‘‘ کہا کرتے ہیں۔ ماموؤں کے ساتھ محبت تو سبھی کوہی معلوم ہے ۔
ہاں تو جناب!ہماری فہم و دانش ومصر ہے کہ وہ مصرع یوں پڑھاجائے۔
ہر مرد ہے عورت کے مقدر کا ستارہ۔
فرد اور مرد میں آخر فرق ہی کتنا ہے کہ اگر کمپوزرنکتہ نہ لگائے تو فرد کو مرد بننے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی اور ملت اور عورت میں آخر کیا فرق ہے؟ ملت ہو یا عورت دونوں کی آبرو یکساں محترم ہے۔ علامہ اقبالؒ نے نوبیاہتا لڑکیوں کے لئے بھی بہت کار آمد نصیحت کی ہے… جس نے اس پہ عمل کیا سرخرو ہوئی۔ یہ بھی ہماری ذاتی تحقیق ہے۔ دیگر تحقیق کے ساتھ ساتھ ۔۔
مٹا دے اپنی ہستی کو گر کچھ مرتبہ چاہے
کہ دانہ خاک میں مل کر گل و گلزار ہوتا ہے
گل و گلزار ہونے کے لئے سب سے پہلا مرحلہ اپنے مقدر کو سمجھنے کا ہے… ہم نے اپنی سمجھ کے مطابق دیکھا کہ ہمارے’’مقدر‘‘کو حیران کردینے کا بہت شوق ہے اور اب تو ہم اس کے اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ حیران ہونا چھوڑ دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’یہ میرے ستارے ’’حوت‘‘ کے اثرات ہیں‘‘… ۔ ہمیں ان کی یہ بات بھی حیران کرتی ہے۔
سوچ کی دو انتہاؤں پہ رہنا کوئی آسان کام ہے بھلا…؟ رخ مشرق میں ہی ہوتا ہے اور مغرب جانے کا سامان۔ پھر نہ جانے کب خیالات کے سمندر میں’’مچھلی‘‘ اپنا رخ بدل لیتی ہے۔ انتباہ کئے بغیر…ہم نے اپنے” مقدر” کے تعارف کیلئے ایک جملہ تلاش کیا ہے
پل میں ولی پل میں بھوت “
اور ہم آج تک اسی’’مسئلہ فیثاغورث‘‘ کو حل نہ کر پائے کہ وہ ولی کب بھوت بن جاتا ہے اور بھوت کب ولی ہو جاتا ہے۔ سچ پوچھیں تو صبح آفس کے لئے ہم نے ولی کو رخصت کیا ہوتا ہے اور واپسی پر بھوت کا استقبال کررہے ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی تو ایک ہی نشست میں دونوں روپ جلوہ گر ہونے کی باری آجاتی ہے اور بھوت سے مراد جسمانی حیثیت نہیں ہے۔ آگے آپ خود سمجھدار ہیں اور جناب کبھی بھوت کو رخصت کیا ہوتا ہے اور وہ واپس آتے ہیں تو ولی سے ملاقات ہوتی ہے۔ہم نے تو اپنے اس رشتہ عجیب سے یہی نتیجہ نکالا ہے کہ
’’ہیں شوہر کچھ نظر آتے ہیں کچھ ‘‘
علامہ اقبال کی روح سے دست بدستہ معافی کے خواستگار ہیں۔ ہمیں تو لگتا ہے کہ علامہ اقبال نے ہم عورتوں کی بھلائی کے لئے اتنا کچھ کہا ہے کہ ہم ان کے اصل ’’مدعا‘‘ کو سمجھنے سے قاصر رہے ہیں۔ کواکب اور شوہر دراصل ایک ہی تصویر کے دو رخ ہیں کسی کو اعتراض کا حق نہیں ہے کہ ہم روح اقبال سے پہلے ہی معذرت کرچکے ہیں ۔
طرفہ تماشا یہ ہے کہ جب ہم ذہنی
ہم آہنگی کی نیت سے ولی بنتے ہیں تو ہمارا ’’مقدر‘‘ بھوت ہوتا ہے اور جب ہم ذہنی ہم آہنگی کے شوق میں بھوت بن جاتے ہیں تو ’’مقدر صاحب‘‘ میں ولی کی روح سرایت کرچکی ہوتی ہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ میاں بیوی مثبت اور منفی چارج کی طرح ہوتے ہیں اور انرجی کا فائدہ ان دونوں کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا۔
تو یہ ہے بھوت اور ولی کی آنکھ مچولی
مگر کیا زندگی کی رونق اسی ولی اور بھوت کے ہونے سے قائم نہیں ہے؟ کچھ بھی ہو دونوں طرف ایک ہی گلہ ہے کہ ’’پتہ نہیں ہم کب ایک دوسرے کو سمجھ پائیں گے‘‘۔ ویسے ہم نے سنا ہے کہ جو میاں بیوی ایک دوسرے کو سمجھ جانے کا دعویٰ کرتے ہیں وہ جھوٹ کہتے ہیں۔ ہاں جھوٹ سے یاد آیا کہ سیانے یہ بھی کہتے ہیں کہ میاں بیوی کا ایک دوسرے سے محبت کے جھوٹے بلند بانگ دعوے کرنے کا بھی ثواب ملتا ہے… جب جھوٹ زندگی میں رچ بس جاتا ہے تو پھروہ سچ لگنے لگتا ہے۔ یا پھر سچ مچ محبت ہو جاتی ہے ازدواجی زندگی کے قصر کی بنیادیں مضبوط رکھنے کا بڑا آسان سا حل ہے۔
جھوٹ اورکارثواب، عالم حیرانی ہے نا!۔
حیرانی سے یاد آیا کہ ہم آپ کو حیران کرنے کے شوق کی بابت بتانا چاہ رہے تھے۔ ایک بارکا قصہ ہے کہ ہمارے شوہر نامدار نے خوش خبری سنائی کہ میں کراچی سے فلاں ٹرین پر سوار ہوکر آرہا ہوں جو اپنے شہر میں کل شام چار بجے پہنچے گی۔ ان دنوں ہر دوسرے منٹ پر رابطہ کرنے کا ذریعہ’’زبان زد عام‘‘ نہ ہواتھا۔ ہوتا بھی تو کوئی فائدہ نہ تھا۔ سرپرائز جو دینا تھا۔ دل مسرور نے استقبال کی پلاننگ کی۔ گھر کی صفائی، بچوں کی نہلائی دھلائی، پکوان کی فہرست اور سب سے زیادہ اپنی ذات پہ توجہ اور تیاری کا جذبہ دیدنی تھا۔ تصور ہی تصور میں خود کوملکہ حسن دیکھا اور کانوں میں تصوراتی رس گھولے کہ’’ جدائی کے چند دنوں میں تم تو اور بھی حسین ہو گئی ہو‘‘ اور نا قابل بیان ڈائیلاگ سننے کو اپنے کان کیا خود کو ہمہ تن گوش بنایا۔ حساب لگایا کہ اگلی شام کے آنے میں بہت گھنٹے باقی ہیں گنگناتے، خوشی سے جھومتے، سب کام بحسن وخوبی انجام پانے کی منصوبہ بندی کی کہ کل دو بجے سے حتمی تیاری استقبال کی شروع کی جائے گی۔ تازہ تازہ کھانا اور مزین گھر اور زیب و زینت کا شاہکار بیوی…کیا یادگار اور خوبصورت لمحات ہوں گے۔واہ! سبحان اللہ ہم نے خودکلامی کی اور اپنی نظر خود لگ جانے کے خوف سے پیشگی دعائے نظر بد بھی پڑھ لی اور یہ بھی حسب معول توقع رکھی کہ ٹرین تو شام چار بجے کے بجائے دو تین گھنٹے دیر سے ہی پہنچے گی…زیادہ خوبصورت آنے کی لالچ میں خودکو پہلے سے ذرا زیادہ میلا رکھنے کا حربہ بھی استعمال کیا…‘‘اس دلہن پہ روپ زیادہ چڑھتا ہے جو شادی سے کچھ دن پہلے تیل چپڑی رہتی ہو… پرانے میلے کپڑے پہنتی ہو…’’حیران نہ ہوں کسی زمانے میں سیانے یہی کہا کرتے تھے۔اب سیانے ہی نہیں رہے کہ کچھ کہیں۔
خیر!اسی فارمولے کے تحت ماسی سے خوب سرمیں تیل ڈلوایا صحیح معنوں میں جس کی دھاریں ماتھے اور گردن پہ لپکی آرہی تھیں۔ پرانے کپڑے جن کی آپس میں کوئی میچنگ نہ بن پارہی تھی(اب تیل سے خراب تھوڑا ہی کرنے تھے صاف کپڑے) ماسی نے تیل لگانے کے بعد نصیحت کی کہ ’’جتنی دیر تیل لگارہے گا، جلد ملائم، بال چمکدار ہوں گے…‘‘ہم نے ملائمت اور چمکداری میں اضافہ کی خاطر اس وقت کا دورانیہ بڑھا دیا کہ میاں کی آمد سے کچھ دیر پہلے ہی اپنی زیب و زینت کا اہتمام کرنا چاہیے تاکہ تازگی برقرار رہے۔
چار بجے تو ٹرین کے اسٹیشن پہ آنے کا وقت تھا جس کا چھ بجے سے پہلے نہ آسکنا یقینی تھا ۔ مگر ہمارے’’مقدر‘‘نے جو سرپرائز دینا تھا وہ دے دیا، یہ اور بات ہے کہ کسر ہماری طرف سے بھی نہ چھوٹی اگرچہ بغیرنیت کے تھی۔ دن کے دو بجے ہی میرے سرتاج
’یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جائے
کی تصویر بنے گھر میں داخل ہوئے ادھرملکہ حسن کے سارے خواب چکنا چور ہوگئے۔
“تیل چپڑا ہوا اور نہ تھی نہائی “
اس کو پڑھنے کی کوشش کریں بروزن (دل ٹوٹا ہوا اور قید تنہائی)۔
اس صورتحال میں پتہ نہیں کون حیران ہوا اور کون پریشان۔روہانسا ہونے کا اس دن مطلب سمجھ میں آیا…جب اپنی ہیئت کزائی پہ بظاہر ہنسی اور دل رو رہا تھا۔
ٹرین کو راستے میں کسی اسٹیشن پہ الوداع کہہ صاحب بس پر بیٹھ کر گھر آگئے تھے…اس سے بھی کہیں زیادہ حیران کردینے والے واقعات سے ہماری زندگی مالا مال ہے۔ کئی بار تو سمجھ میں نہیں آیا کہ بندہ ہنسے کے روئے۔ بس روہانسا ہونا تھا سو ہو گئے۔
کبھی کبھی لگتا ہے کہ ہم دونوں see-saw
پہ بیٹھے ہیں ۔ جس میں دو کھلاڑی لازمی ہیں اور بیک وقت دونوں کھلاڑیوں کا ایک پوزیشن پہ ہونا بھی ممکن نہیں ہوتا۔ یعنی ہردوناظر کے منظر کا رخ جدا…اس جھولے کا لطف ہی یہی ہے کہ دونوں ساتھیوں کی حرکت اور مقام میں یکسانیت نہ ہو۔ ہمیں اس پہ بھی علامہ اقبال کا ایک مصرع یاد آرہا ہے مگر خیر جانے دیں تغیر کا ثبات تو زمانے کی حقیقت ہے۔ روح اقبال ہمیں کہاں تک معاف کرتی رہے گی۔
ہمیں ایک سیانے نے پتے کی بات بتائی تھی، اس سیانے کا اتہ پتہ نہ پوچھئے گا یہ ایک راز درون دل ہے کہ ’’ جب مقدر کے فیصلے اپنے کنٹرول میں نہ ہوں(یہاں مقدر سے مراد دونوں مقدر ہیں) تو دونوں طرح کے فیصلے کے منتظر، اور دونوں طرح کی تیاری کرکے رکھی جائے
‘‘۔جانے راستہ طے کرتے کرتے…کب منزل کا تعین بدل جائے…
اس کا یہ فائدہ ضرور ہوا کہ ہمیں کوئی بھی مشرق یا مغرب جانے کا فیصلہ ہو عمل درآمد میں آسانی ہوگئی۔ بس یہ ہی تو سوچنا پڑتا ہے کہ :
ایسے ہوگا یا ویسے ہوگا۔
ایسا ہوا تو … ایسا، ایسا کرلیں گے۔
ویسا ہوا تو…ویسا، ویسا کرلیں گے… اللہ، اللہ خیر صلا۔
جاتے جاتے مکرر عرض کرتے ہیں کہ ’’بیویو!ہماری’’تحقیق‘‘ پہ ضرور غور کیجئے گا آپ کو حقیقت کے ایسے ایسے پنہاں راز معلوم ہوں گے جن کا آپ تصور بھی نہیں کرسکتیں۔ جتنا غور کریں گی اتنا فائدہ ہوگا یعنی جتنا گڑ ڈالو گے اتنا میٹھا ہوگا۔
اپنے مقدر کے ستارے کو ماند نہ پڑنے دیجئے گا کیونکہ
ہر مرد ہے عورت کے مقدر کا ستارہ
اورجی ہاں! یہ بھی یاد رکھیئے گا
ہیں ’’کواکب‘‘ کچھ نظر آتے ہیں کچھ

اگر آپ بھی ہمارے لیے لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریر، تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ bisaat.mag@gmail.com پر ای میل کردیجیے۔
error: