پاکستان ہسٹوریکل سوسائٹی کی ڈائمنڈ جوبلی کے موقع پر جامعہ کراچی کے چائنیز ٹیچرز میموریل آڈیٹوریم میں “دی اسٹیٹ آف ہسٹری اینڈ ہسٹوریوگرافی” کے عنوان سے قومی کانفرنس کا انعقاد
کراچی — پاکستان ہسٹوریکل سوسائٹی کی ڈائمنڈ جوبلی کے موقع پر سوسائٹی اور جامعہ کراچی کے شعبہ تاریخ کے اشتراک سے “تاریخ اور تاریخ نویسی کی حالت” کے موضوع پر ایک روزہ قومی کانفرنس منعقد کی گئی۔ اس علمی اجتماع میں ملک بھر سے ممتاز مؤرخین، محققین اور ماہرینِ تعلیم نے شرکت کی اور پاکستان میں تاریخ و تاریخ نویسی کے زوال، اس کے اسباب، چیلنجز اور مستقبل کے امکانات پر تفصیلی گفتگو کی۔
پاکستان ہسٹوریکل سوسائٹی کی صدر محترمہ سعدیہ راشد نے استقبالیہ خطاب میں سوسائٹی کی 1950ء میں بنیاد سے اب تک کی علمی و تحقیقی خدمات کا ذکر کیا اور جامعہ کراچی کے شعبہ تاریخ کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے سوسائٹی کی پچہترویں سالگرہ کے موقع پر اس قومی سطح کی علمی کانفرنس کا انعقاد کیا۔
ڈاکٹر حنا خان نے اپنے افتتاحی کلمات میں اس کانفرنس کی علمی اہمیت پر روشنی ڈالی اور کہا کہ وقت آگیا ہے کہ تاریخ کے مضمون کو فکری اور تحقیقی طور پر نئے خطوط پر استوار کیا جائے تاکہ یہ معاشرتی شعور اور علمی ارتقاء کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوسکے۔
کی۔نوٹ اسپیکر پروفیسر ایمریٹس ڈاکٹر وقار علی شاہ (شعبہ تاریخ، قائداعظم یونیورسٹی) نے اپنے تفصیلی خطاب میں پاکستان میں تاریخ اور تاریخ نویسی کے زوال کی وجوہات پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے ریاستی مداخلت، فارغ التحصیل طلبہ کے لیے روزگار کے محدود مواقع، نصاب کی فرسودگی، اور ہائر ایجوکیشن کمیشن (HEC) کی قلیل البصیرتی پالیسیوں کو اس زوال کے اہم اسباب قرار دیا۔
اس موقع پر ممتاز ماہرینِ تاریخ نے بطور پینلسٹ شرکت کی، جن میں پروفیسر ڈاکٹر محمد رضا کاظمی، پروفیسر سکندر مہدی، پروفیسر ڈاکٹر سید جعفر احمد، پروفیسر ڈاکٹر جاوید حسین، پروفیسر ڈاکٹر نسرین افضل، ڈاکٹر شہلا جمال اور ڈاکٹر حمیرا ناز شامل تھیں۔ شرکاء نے پاکستان میں تاریخ کی تدریس اور تحقیق کی موجودہ حالت پر مختلف زاویوں سے اظہارِ خیال کیا۔
پروفیسر ڈاکٹر نسرین افضل نے تحقیق کے میدان میں بنیادی ماخذات اور آرکائیوز تک رسائی کے فقدان کو ایک بڑی رکاوٹ قرار دیا اور کہا کہ جب تک محققین کو اصل دستاویزات اور تاریخی مواد تک رسائی حاصل نہیں ہوگی، تاریخ نویسی کی کوالٹی بہتر نہیں ہوسکتی۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ پیشہ ورانہ مواقع کی کمی کے باعث طلبہ تاریخ جیسے اہم مضمون سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔
ڈاکٹر حمیرا ناز نے فارسی اور مقامی زبانوں کے کم ہوتے ہوئے علم کو عہدِ وسطیٰ کی تاریخ فہم میں ایک بڑی رکاوٹ قرار دیا۔
ڈاکٹر جاوید حسین نے تاریخ کے مطالعے میں انسانیات (Anthropology) اور آثارِ قدیمہ (Archaeology) کے مضامین کے ادغام کی ضرورت پر زور دیا، جبکہ پروفیسر سکندر مہدی نے عصرِ حاضر کی تاریخ کے مطالعے کو ناگزیر قرار دیا۔
ڈاکٹر شہلا جمال نے اس افسوسناک حقیقت کی نشاندہی کی کہ کراچی کے صرف تین کالجز میں تاریخ بطور اختیاری مضمون پڑھائی جا رہی ہے اور ان میں بھی صرف تین اساتذہ رہ گئے ہیں، جو اس مضمون کی زبوں حالی کو ظاہر کرتا ہے۔
پروفیسر وقار علی شاہ نے بھارتی مؤرخین، بالخصوص ڈاکٹر عرفان حبیب اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ کی علمی فعالیت کا حوالہ دیتے ہوئے اسے پاکستان کے علمی معیار سے بہتر قرار دیا۔
پروفیسر ڈاکٹر ایم۔ رضا کاظمی نے تجویز دی کہ تحقیقی مقالوں کی اشاعت کو تدریسی ترقیات سے مشروط نہ کیا جائے اور پی ایچ ڈی مقالہ جمع کرانے سے قبل تحقیقی مضمون شائع کرنے کی لازمی شرط ختم کی جائے تاکہ تحقیق کا معیار حقیقی معنوں میں بہتر ہو۔
کانفرنس کے اختتامی حصے میں پاکستان ہسٹوریکل سوسائٹی کی خدمات اور اس کے مستقبل پر دو علمی مقالے پیش کیے گئے۔
ڈاکٹر حنا خان نے اپنے مقالے “پاکستان ہسٹوریکل سوسائٹی کے 75 سال: خدمات اور پائیدار اہمیت” میں سوسائٹی کے ارتقائی مراحل، کامیابیوں اور اصلاح کے پہلوؤں پر روشنی ڈالی، جبکہ پروفیسر ڈاکٹر سید جعفر احمد نے اپنے مقالے “ڈاکٹر سید معین الحق اور ڈاکٹر انصر زاہد خان کی علمی خدمات” میں پاکستان کے ممتاز مؤرخین کے علمی ورثے اور تاریخی خدمات کا جائزہ پیش کیا۔
تقریب کے اختتام پر 1953ء میں شائع ہونے والا پاکستان ہسٹوریکل سوسائٹی کے جرنل کا پہلا شمارہ دوبارہ طباعت کے بعد بطور یادگاری سووینیر شرکاء کو پیش کیا گیا۔ اس کے بعد ایک دلچسپ سوال و جواب کا سیشن منعقد ہوا، جس میں ماہرینِ تاریخ اور سامعین نے پاکستان میں تاریخ نویسی کے فروغ اور اصلاح کے لیے تجاویز پیش کیں۔ مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان میں تاریخ نویسی کے فن کو جدید، سائنسی اور تکنیکی خطوط پر استوار کیا جائے، تاکہ تحقیق و تدریس کا عمل غیرجانبدار، شفاف اور عالمی معیارات سے ہم آہنگ ہو۔
اجلاس کا اختتام اس عزم کے ساتھ ہوا کہ تاریخ کو قومی شعور، فکری آزادی اور علمی فہم کا بنیادی ستون بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں گے۔















