Advertisement

ترکیہ-پاکستان ڈائسپورا کی طاقت۔ اسلاموفوبیا کے خلاف متحدہ جدوجہد

آج کے عالمی منظرنامے میں، جہاں اسلاموفوبیا تیزی سے بڑھ رہا ہے اور سیاسی و سماجی حالات بدل رہے ہیں، ترکیہ اور پاکستان کا اتحاد مسلم دنیا کے لیے ایک نئی امید بن کر ابھر رہا ہے۔ ترک رکن پارلیمنٹ علی شاہین نے 14 اگست 2023 کو ایک ایکس پوسٹ میں کہا کہ ترکیہ اور پاکستان کو اپنی یورپ و امریکہ میں موجود بڑی ڈائسپورا کو منظم کر کے اسلاموفوبیا، قرآن پاک کی بے حرمتی، فلسطین اور کشمیر جیسے مسائل پر آواز اٹھانی چاہیے۔ 25 ستمبر 2025 کو یہ خیال اور بھی اہم ہو گیا ہے، خاص طور پر پاکستان-سعودی دفاعی معاہدے اور “اسلامک نیٹو” کے تصور کے بعد۔ یہ مضمون ترکیہ-پاکستان ڈائسپورا کی طاقت، اس کے امکانات، چیلنجز، اور قانونی دائرہ کار کو سادہ اور دلچسپ انداز میں بیان کرتا ہے، جو ہندوستانی-یہودی اتحاد سے متاثر ہے۔
ترکیہ-پاکستان ڈائسپورا.ایک عظیم طاقت
یورپ اور شمالی امریکہ میں تقریباً 70 لاکھ ترک اور 40 لاکھ پاکستانی آباد ہیں۔ جرمنی میں 30 لاکھ سے زائد ترک اور برطانیہ میں 15 لاکھ پاکستانی اپنی معاشی اور سماجی سرگرمیوں سے میزبان ممالک کی ترقی میں حصہ ڈالتے ہیں۔ یہ کمیونٹیز، جو اسلامی اقدار اور مشترکہ تاریخ سے جڑی ہیں، اسلام کے خلاف غلط فہمیوں کو دور کرنے اور مسلم حقوق کی وکالت کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
علی شاہین کا خیال ہے کہ یہ دونوں ڈائسپورا کمیونٹیز مل کر ایک طاقتور اتحاد بنا سکتی ہیں جو نہ صرف اسلاموفوبیا سے لڑے بلکہ فلسطین اور کشمیر جیسے عالمی مسائل پر آواز اٹھائے۔ مثال کے طور پر، ہندوستانی-یہودی ڈائسپورا نے 2008 میں ہندوستان-امریکہ نیوکلیئر معاہدے کے لیے کامیابی سے لابنگ کی۔ اسی طرح ترکیہ-پاکستان ڈائسپورا مل کر معاشی تعاون جیسے CPEC اور ترکیہ کی پاکستان میں سرمایہ کاری کو فروغ دے سکتی ہے، جبکہ اسلام کا مثبت تشخص اجاگر کر سکتی ہے۔
ترکیہ اور عالمی قوانین کے مطابق عمل کیسے ممکن ہے؟؟؟
ترکیہ میں صدارت برائے ترکس ایبراڈ اینڈ ریلیٹڈ کمیونٹیز (YTB) 2010 سے ڈائسپورا کی سرگرمیوں کو سپورٹ کرتا ہے۔ یہ ادارہ ثقافتی پروگراموں، تعلیم، اور سماجی سرگرمیوں کے ذریعے ترکوں کو جوڑتا ہے، جو ترکیہ کے قانون نمبر 6458 کے تحت جائز ہے۔ اسی طرح، پاکستان کی اوورسیز پاکستانیز فاؤنڈیشن اپنی ڈائسپورا کی مدد کرتی ہے۔ اگر دونوں ممالک کی ڈائسپورا مل کر اسلاموفوبیا کے خلاف غیر سیاسی اور سب کے لیے کھلی مہمات چلائے، تو یہ ترکیہ کے قوانین اور عالمی اصولوں کے مطابق ہوگا۔
عالمی سطح پر، اقوام متحدہ کی 1981 کی اعلامیہ اور ICCPR مذہبی آزادی کی حفاظت کرتے ہیں۔ 2025 میں ترکیہ اور پاکستان نے اقوام متحدہ میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے خلاف قرارداد کی حمایت کی، جو اس مقصد کے لیے قانونی بنیاد فراہم کرتی ہے۔ تاہم، مغربی ممالک کے قوانین جیسے امریکہ کا FARA اور برطانیہ کا نیشنل سیکیورٹی ایکٹ 2023 غیر ملکی سرگرمیوں کی نگرانی کرتے ہیں۔ اس لیے ڈائسپورا کو اپنی سرگرمیوں کو ثقافتی یا انسانی حقوق سے متعلق ظاہر کرنا ہوگا اور این جی اوز کے طور پر رجسٹر ہونا ہوگا۔
اس اتحاد کے ممکنہ فوائد: ترکیہ-پاکستان ڈائسپورا مل کر درج ذیل اہم مقاصد حاصل کر سکتی ہے۔
اسلاموفوبیا سے مقابلہ: مشترکہ مہمات کے ذریعے نفرت انگیز رویوں کے خلاف قوانین کی حمایت کی جا سکتی ہے، جیسے کہ اقوام متحدہ کی 2025 کی قرارداد پر مبنی پٹیشنز۔
مسلم مسائل کی وکالت: فلسطین (جسے 157 ممالک تسلیم کر چکے ہیں) اور کشمیر کے لیے میڈیا مہمات، احتجاج، اور پالیسی تجاویز کے ذریعے مغربی پالیسی سازوں پر اثر ڈالا جا سکتا ہے۔
معاشی طاقت کا استعمال: دونوں ممالک کو ڈائسپورا سے سالانہ 50 ارب ڈالر سے زائد ترسیلات زر ملتی ہیں، جو وکالت گروپ، تھنک ٹینکس، اور ثقافتی پروگراموں کے لیے استعمال ہو سکتے ہیں۔
ترکیہ کی عالمی رسائی: علی شاہین کی تجویز کے مطابق، ایےکے پارٹی کا اسلام آباد میں دفتر ثقافتی اور معاشی تعاون کو فروغ دے سکتا ہے، جیسے کہ گوادر میں ترک سرمایہ کاری۔
داخلی اختلافات:پاکستانی ڈائسپورا میں سنی-شیعہ تقسیم اور ترک ڈائسپورا میں سیکولر-مذہبی تفاوت اتحاد کو مشکل بنا سکتے ہیں۔
میزبان ممالک کے قوانین: مغربی ممالک اس وکالت کو غیر ملکی مداخلت سمجھ سکتے ہیں، اس لیے قانونی حدود میں رہنا ضروری ہے۔
مشترکہ گروپ کا قیام: لندن، برلن، اور واشنگٹن میں “ترکیہ-پاکستانی گلوبل ایلائنس” کے دفاتر قائم کیے جائیں۔
عالمی پلیٹ فارمز کا استعمال: OIC اور اقوام متحدہ کے ذریعے اسلاموفوبیا کے خلاف مہمات چلائی جائیں۔
نوجوانوں اور خواتین کی شمولیت: سوشل میڈیا اور بین المذاہب مکالموں کے ذریعے نئی نسل کو جوڑا جائے۔
دوسری کمیونٹیز کے ساتھ تعاون: بنگلا دیشی اور دیگر مسلم ڈائسپورا کو شامل کیا جائے۔
قانونی حدود میں رہنا: سرگرمیوں کو انسانی حقوق سے جوڑ کر قانونی مسائل سے بچا جائے۔
ترکیہ-پاکستان ڈائسپورا کی 11 ملین کی آبادی، مشترکہ اسلامی اقدار، اور تاریخی رشتے (جیسے قبرص تنازع میں پاکستان کی حمایت) اسے ایک عظیم طاقت بناتے ہیں۔ TRT ورلڈ، ڈان نیوز، اور ترکیہ اردو جیسے میڈیا پلیٹ فارمز اسلام کا مثبت پیغام پھیلا سکتے ہیں۔
پاکستان-سعودی دفاعی معاہدہ (17 ستمبر 2025) اور “اسلامک نیٹو” کا تصور اس وژن کو تقویت دیتا ہے۔ اگر یہ ڈائسپورا اختلافات کو پیچھے چھوڑ کر غیر جانبدار اور قانونی طریقوں سے کام کرے، تو یہ اسلاموفوبیا کے خلاف جدوجہد اور مسلم اتحاد کے لیے ایک نئی صبح لا سکتی ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریر، تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ bisaat.mag@gmail.com پر ای میل کردیجیے۔
error: